سرخ رنگ میں لکھا ہوا اے پلس گریڈ

اچھے نمبروں کی شعبدہ بازی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر محمدمشتاق۔۔۔۔۔۔
میں نے بچوں کو، الحمد للہ، ہمیشہ نمبروں سے بے نیاز رکھنے کی کوشش کی ہے۔ پچھلے دنوں بڑے بیٹے محمد یحییٰ نے نویں جماعت میں نوے فی صد نمبر حاصل کیے (550 میں سے 503) لیکن میں نے اس کی تشہیر نہیں کی، حالانکہ اس کا حق تھا کہ اسے داد دی جائے۔

داد دینے میں کوئی بخل بھی نہیں کیا لیکن اشتہار بازی سے گریز کیا۔ یحییٰ بچپن سے ہی پڑھنے کا شوقین ہے۔ پڑھنے سے مراد غیرنصابی کتب پڑھنا ہے۔ میں نے اسے قرآن، حدیث، سیرت اور فقہ سے متعلق آسان کتابیں ہی پڑھنے کو نہیں دیں بلکہ قصے کہانیوں، ادب اور شاعری پڑھنے کی طرف بھی راغب کیا۔

تاہم اسے کبھی ایسا پڑھاکو بچہ بنانے کی کوشش نہیں کی جو صرف کتابوں میں ہی کھویا رہے بلکہ سیر و تفریح اور کھیل کود میں بھرپور حصہ لینے کی طرف بھی توجہ دلائی۔

الحمد للہ، اسے دیکھ کر ہمیشہ دل میں شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت کی تمام آزمائشوں میں سرخرو کرے اور اسے دنیا و آخرت کی کامیابیاں عنایت کرے۔ آمین۔
رزلٹ کے بعد یحییٰ نے ڈائری میں درج بالا عنوان پر کچھ لکھا تھا۔ وہ یہاں پیش خدمت ہے۔ اساتذہ اور دوستوں سے اصلاح اور دعا کی درخواست ہے:

“ہمارے محترم داداجی ہمیں اکثر پیار سے الّو کہا کرتے تھے۔ بہت وقت تک میں اس پیار کی نوعیّت نہیں سمجھ سکا تھا۔ اکثر کسی حد تک تاؤ بھی آجاتا تھا، مگرپھر مذاق سمجھ کر نظرانداز کر لیتے تھے۔ خیر— مذاق سمجھنے کی بھی کوئی وجہ تھی۔ شاید وہ یہ کہ ہم اور کچھ کر ہی نہیں سکتے تھے۔

بہرحال، ہم الّو کہلانے کے عادی ہو گئے کیونکہ “الّو”بڑوں کا(ہمارے لیے)تکیہ کلام بن چکا تھا۔ اور اس کلام کے تکیے کو ہٹانا ہم اپنے بس کا روگ نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ مجبوراً عادی ہونا ہی پڑا۔

دراصل جو الّو ہم کہلاتے تھے، وہ مشرقی الّو تھا کیونکہ ہم کو بےکار اور بدھو سمجھا جاتا تھا(مشرق میں الّو کو بدھو سمجھا جاتا ہے)۔ لیکن جب امتحان سر پر آئے، تو ہم اپنے مشرقی الّو کہلانے والی عادت کا سدّباب کرنا چاہتے تھے۔ کیوں بھئ، آخر برداشت کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے۔

خیر— “سدّباب” تو بھاری لفظ رہے گا۔ تو، “ہم الّو کہلانے والی عادت کی نوعیّت میں تھوڑی تبدیلی چاہتے تھے، یعنی ہم مشرقی الّو سے مغربی الّو بننا چاہتے تھے۔ وہ اس لیے کہ مغرب میں الّو کو دانشور سمجھا جاتا ہے۔ شاعری کی زبان میں الّو کو “رات کا شہزادہ “کہا جاتا ہےاور شہزادوں سے تو ہمیں ویسے ہی بڑی محبت تھی۔ پھر خیال آیا کہ ہم بھی تو شہزادے بن سکتے ہیں۔ اگر رات کا نہیں، تو گھر کا ہی سہی کیونکہ ایک مثال ہمارے سامنے تھی۔

ہمارا ایک دوست، جو کہ حد درجہ نالائق اور پھوہڑ تھا، بہ دقّت تمام نویں جماعت تک پہنچ گیا۔ اس کے والد بورڈ میں اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ تاہم جب امتحان کا نتیجہ نکلا ، تو ہمارے دوست کا شمار ٹاپ ٹن میں تھا۔ یہ داستان بھی اسی نے ہمیں سنائی، جس کو اپنی ماں کہا کرتی تھی، ‘نالائق! تو کسی کام کا نہیں ہے!’اس نےکہاتھا کہ: نتیجے کے دن، میں بستر پر نیم دراز تھا؛اپنے فیل ہونے کی آرزو لیے ہوئے، کہ اچانک امّی کمرے میں داخل ہوتے ہوئے چلائیں : ‘ میرا شہزادہ بورڈ ٹاپ کر گیا!”

بس یہی سے ہمیں شہزادہ بننے کی تدبیر سوجھ گئی۔ لیکن ہمیں درپیش تھی ایک مصیبت۔ وہ یہ کہ بورڈ میں ہمارا کوئی شناسا نہ تھا۔ اس لیے محنت مجبوراً کرنی پڑی۔
ہم نے طوعاًوکرہاً امتحان دے دیا۔

نتیجے کے دن، نتیجے کی تو خیر فکر نہیں تھی، لیکن شہزادہ تو بننا تھا۔ اس لیے اس دعاکے بہ کثرت طالب ہوئے، “یا اللہ! ہمیں خوب اچھے نمبروں سے پاس کرنا….!”
عام دنوں میں تو خیال نہیں رہتا لیکن نتیجے کے دن ہمیں خوب یاد آگیاکہ “ایاک نعبد و ایاک نستعین!”

نتیجے کے آتے ہی ہم خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ نوّے فیصد نمبر جو حاصل کر لیے تھے!پھر ہم نے خوشی سے آنسو بہانے کی ایک ناکام کوشش بھی کی کہ اتنے میں داداجان کی محبت بھری آواز ہمارے کانوں کے پردوں سے ٹکرائی:

“شاباش میرے شہزادو! شاباش!”
اب ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ یہ کہ امتحان میں اچھے نمبر حاصل کر لینے سے یہ کیا شعبدہ بازی چل جاتی ہے کہ مشرقی الّو مغربی الّو بن جاتا ہے، یا الّو شہزادہ بن جاتا ہے۔

ہمارے یہاں یہ رواج ہے کہ جو امتحان میں اچھے نمبر حاصل کرتا ہے، اس کو قابل اور کام کے لائق سمجھا جاتا ہے اور اس سے، جس کے کم نمبر ہوتے ہیں، زیاہ ذہین سمجھا جاتا ہے۔ کیا کسی کے نمبروں سے واقفیّت حاصل کرنا کسی کی قابلیّت سے آگاہ ہونے کا ذریعہ ہے؟

جب سکول میں نیا استاد جماعت میں داخل ہوتا ہے، تو تعارف کرانے کے بعد یہی سوال کرتا ہے: “کلاس میں فرسٹ پوزیشن کون لیتا ہے؟” پھر سیکنڈ ، پھر تھرڈ کے بارے میں پوچھتا ہے۔ جو اچھی پوزیشن، یعنی اچھے نمبر حاصل نہیں کرتے، ان کی طرف کم سے کم توجّہ دیتے ہیں کیونکہ استاد ان پوزیشن حاصل کرنے والوں کے گرویدہ بن چکے ہوتے ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جن کو وہ نالائق سمجھتے ہیں(یعنی کم نمبر لینے والے )ان کی طرف زیادہ توجّہ دیں۔

عموماً ہر جگہ لوگ نمبروں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کبھی کوئی سیکھنے سمجھنے کا نہیں پوچھتا۔ اب دھیرے دھیرے اس بات کی سمجھ بھی مجھے آ رہی ہے کہ مشرقی الّو سے مغربی الّو بنّے کا سبب اچھے نمبر، یعنی اچھی ڈگری ، ہے۔ کیا اس قابلِ اعتراض رواج پر سنجیدگی سے غور کیا جا سکے گا؟لوگ کہتے ہیں: “اگر اچھے نمبر حاصل نہیں کرو گے تو شرمندگی اٹھانی پڑے گی ۔۔۔ کسی کی نظر میں تمھاری توقیر نہیں ہوگی۔۔۔”(“توقیر کے لیے وہ ” value” کا لفظ استعمال کرتے ہیں) وغیرہ وغیرہ۔

اچھا، اب یہ بات بھی نہیں کہ اچھے نمبر حاصل کرنا اور پھر اچھی ڈگری لینا کوئی اچھی بات نہیں۔ اگر اچھے کالج میں داخلہ نہ ملے، یہ تو مناسب نہیں ہے لیکن یہ بات میں نے فقط اس لیے کہی ہے کہ آج کل لوگوں کا نظریہ بدل گیا ہے۔

اب دیکھیں، آج کل لوگ سکول کیوں جاتے ہیں؟ جناب! عموماً ڈگری حاصل کرنے کے لیے اور پھرآگے اچھی نوکری کرنے کے لیے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں، جو علم حاصل کرنے کی غرض سے سکول جاتے ہیں۔ اچھی نوکری حاصل کرنا، علم حاصل کرنے کا ایک فائدہ ضرور ہوگا، مگر مقصد ہر گز نہیں۔
علم تو انسان کو انسانیت سکھاتا ہے!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “اچھے نمبروں کی شعبدہ بازی”

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    یہ بہت اچھی سوچ ہے لیکن اس کو عام ھونے میں بہت وقت لگے گا۔ اچھا ھونا اور کامیاب ھونا دو مختلف باتیں ہیں لیکن اس فرق کو سمجھنے کے لئے شعور کا ایک خاص لیول چاھئے۔