پاکستانی بہو اور ساس گلے مل رہی ہیں

دل میں خنجر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بشریٰ نواز۔۔۔۔۔۔۔۔
سلطان اکبر کا ایک ہی بیٹا تھا، ماں باپ کی اُمیدوں کا واحد مرکز۔ سلطان صاحب ریلوے میں ملازمت کرتے تھے، محکمے کی طرف سے رہائش بھی ملی ہوئی تھی۔ والد کی وراثت سے جورقم ملی، اس سے انہوں نے پلاٹ خرید لیا۔ پلاٹ یہ سوچ کے رکھا ہوا تھا کہ گریجویٹی سے انھیں جو پیسے ملیں گے ان پیسوں سے گھر بنالیں گے۔

ابھی ریٹائر ہونے میں کچھ وقت تھا سوچا بیٹے کی شادی کردیں۔ تلاش شروع ہوئی اور جلد ہی مناسب رشتہ مل گیا۔ نجمہ بیگم بہت خوش تھیں۔ گھر میں رونق ہو گئی تھی۔ کبھی کبھی نجمہ کو محسوس ہوتا جیسے بہو ان کے پاس بیٹھنا پسند نہیں کرتیں۔

وہ کتنی ہی آوازیں دیتیں تب ایک بار آ کر وہ بات سنتی۔ نجمہ سوچتی رہتیں کہ کاش! یہ بیٹی بن کر مجھ سے پیار محبت کرتی۔ بہرحال نجمہ اب زیادہ تر اپنا وقت عبادت میں گزارتیں یاپھر جب سلطان آتے تو کچھ وقت ان کے ساتھ ۔

اسی دوران سلطان ریٹائر ہو گئے، پھرجلد ہی ان کا پلاٹ، ان کے گھر میں تبدیل ہوگیا۔ نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہوئے سب بہت خوش ہوئے۔ اسی گھر میں سلطان اور نجمہ دادا اور دادی بھی بن گئے۔ سلمان اور آمنہ بھی بہت خوش تھے جیسے بیٹے کی پیدائش نے انہیں مکمل کر دیا۔

زبیر دادا دادی کی آنکھوں کا تارا تھا۔ وہ اس سے بہت پیار کرتے لیکن آمنہ کو یہ بات بھی پسند نہ تھی۔ اللّه جانے کیسا بغض تھا آمنہ کے دل میں جو نجمہ کبھی سمجھ نہ پائیں۔ بہرحال وہ ایک رات سوئیں اور پھر اگلی صبح دیکھنی نصیب نہ ہوئی۔

سلطان کی تو دنیا اندھیر ہوگئی، کھانا پینا بھی چھوٹ گیا۔ سلمان زبردستی کچھ کھلاتا تو وہ کھا لیتے زیادہ تر وہ کمرے رہتے یا پھر نماز کے لیے مسجد جاتے۔

آج کل موسم بدل رہا تھا اور سلطان اس کی زد میں آ گئے۔ ان پر شدید کھانسی کا حملہ ہوا، دوا سے بھی فرق نہ پڑرہا تھا۔ شام کو جب سلمان گھر آیا تو آمنہ کا موڈ بہت بگڑا ہوا تھا۔ ماتھے کے بل بتا رہے تھے کہ آج معاملہ کچھ سنگین ہے۔

کھانے سے فارغ ہوئے تو آمنہ جیسے پھٹ پڑی:”میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتی ہوں اور آپ کو میری بات ماننا ہو گی۔ ابو ہر وقت کھانستے رہتے ہیں اور اس کھانسی کی وجہ سے گھر میں جراثیم بھی پھیلتے ہیں۔ کہیں ہم خود بھی اس کھانسی کا شکار نہ ہو جائیں۔ ان کی کھانسی کی وجہ سے میں سو بھی نہیں سکتی ،انھیں اوپر والے کمرے میں شفٹ کردیں”۔

سلمان حیران ہی تو رہ گیا کہ “یہ کیا کہہ رہی ہو آمنہ! کھانے، بار بار ناشتے کے لیے کیسے آئیں گے ابو؟”

“تو میں کب کہہ رہی ہوں کہ ابو نیچے آئیں، ہم کھانا اوپر پہنچا دیں گے”۔ اس پرسلمان بولا :”جیسے چاہو کر لو”۔

اسی دن ابو کا سارا سامان اوپر شفٹ کردیا گیا۔ وہ کچھ بھی نہیں بولے۔ آنسوئوں بھری آنکھوں سے خالی الوداعی نظر کمرے پر ڈالی۔ انہیں ایسا لگا جیسے ایک بار پھر نجمہ ان سے بچھڑ گئی ہے۔ وہ آنکھیں پو چھتے ہوئے آہستہ آہستہ سیڑیاں چڑھ گئے۔

آمنہ اپنی فتح پر بہت خوش تھی۔ ایک دن سلطان صاحب بھی انتقال کر گئے۔ اب سلمان کی طبیعت بھی گری گری رہنے لگی۔

جیسے ہی زبیر کی تعلیم مکمل ہوئی۔ اسے ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب مل گئی۔ ہر ماں کی طرح آمنہ کے دل میں بھی بہو لانے کی خواہش تھی۔ بڑی بھاگ دوڑ کے بعد زبیر کا رشتہ طے پایا۔ فاطمہ دلہن بن کر گھر آگئی۔ شادی کے کچھ ہی مہینوں کے زبیر کا ٹرانسفر کراچی ہو گیا۔ ایک ہفتے کے اندر اندر زبیر اور فاطمہ کراچی شفٹ ہوگئے۔

سلمان اور آمنہ کادل تو بہت اداس تھا لیکن ان کا جانا بھی ضروری تھا، اب سلمان بھی بیمار رہنے لگا۔ ایک دم سے چکر آجاتے جیسے بے ہوشی طاری ہوجاتی۔ تشخیص سے پتا چلا کہ برین ٹیومر ہے۔

بہت علاج کرایا مگر زندگی نے وفا نہ کی۔ ایک دن سلمان بھی دنیا سے کوچ کر گیا۔ آمنہ کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ زبیر نے ماں سے کہا کہ آپ میرے ساتھ چلیں، اب آپ ادھر نہیں رہ سکتیں۔ آمنہ نے کہا کہ میں عدت کے بعد آئوں گی، عدت اسی گھر میں پوری کروں گی۔

پھر ایک دن اس نے سامان ایک کمرے میں اکٹھا کروایا اور باقی کا گھر کرایے پر دے دیا۔ وہ ٹرین میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ اب میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟ بہو کا رویہ میرے ساتھ کیسا ہوگا؟ کیا وہ مجھے اپنے گھر برداشت کرے گی؟ کیا میں وہاں ایسے رہ پائوں گی جیسے میں اپنے گھر میں رہتی تھی!

اسے یاد آرہا تھا کہ اسے اس کے ساس، سسر کا اپنے گھر میں رہنا پسند نہیں تھا۔ ملتان سے کراچی کا سفر کب ختم ہوا پتا ہی نہ چلا۔ گاڑی آہستہ ہوتی ہوئی رک گئی۔ اس نے دیکھا زبیر اور اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں لیکن بہو نظر نہ آئی۔ وہ گاڑی سے اتری،پوچھا” زبیر! بہو نہیں آئی؟”

زبیر نے کہا:”اگر وہ بھی آجاتی تو آپ کے لیے جگہ کم پڑجاتی۔ میری جگہ کہاں بنتی”۔ طرح طرح کے وسوسے اسے ستانے لگے۔ وہ گھر پہنچے تو بہو آکر گلے ملی، زیادہ گرم جوشی نہیں تھی۔

“امی آپ فریش ہوکر آئیں، میں کھانا لگاتی ہوں”،
کھانا کھانے کے بعد بہو بولی:
“امی میں نے آپ کے لیے اوپر والا کمرہ سیٹ کر دیا ہے”

اس نے سوچا کہ اس عمر میں سیڑھیاں چڑھنے کی ورزش ہی سہی، آج زبیر گھر تھا۔ ماں کے پاس بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔ کہنے لگا:

” امی! آپ اداس نہ رہا کریں۔ دل سے سارے ڈر نکال دیں۔ میں نے آمنہ سے کہہ دیا ہے کہ اگر میری امی ناراض ہوئی تو میں بھی یہاں نہیں رہوں گا۔ میں نے دادا دادی کو روتے دیکھا ہے، میں آپ کو رونے نہیں دوں گا”۔

زبیر نے عام سے لہجے میں بات کی تھی لیکن آمنہ کو لگا جیسے اس کے دل میں کسی نے خنجر گھونپ دیا ہو”۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں