عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی آسان الفاظ میں توضیح
ڈاکٹرمحمد مشتاق۔۔۔۔۔
بھارت اور پاکستانی میڈیا کی چیخ و پکار سے پریشان کئی لوگ پوچھ رہے کہ فیصلے کا مطلب کیا ہوا؟ کون جیتا؟ کون ہارا؟ (کئی ایک نے عدالت کو سراج الحق صاحب سے تشبیہ بھی دی کہ: آپ بھی ٹھیک ہیں اور وہ بھی غلط نہیں ہیں!)
جو لوگ قانونی پیچیدگیوں میں پڑے بغیر اس فیصلے کو سمجھنا چاہتے ہیں، ان کےلیے چند نکات پیشِ خدمت ہیں:
1۔ پاکستان کا موقف تھا کہ عدالت کے پاس اختیارِ سماعت نہیں ہے۔ عدالت نے یہ موقف مسترد کردیا۔ یہ پوائنٹ بھارت کو مل گیا۔ (واضح رہے کہ عدالت کے اختیارِ سماعت پر اعتراض مدعا علیہ ویسے ہی کرتا ہے چاہے اسے یقین ہو کہ عدالت اسے نہیں مانے گی۔)
2۔ بھارت کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ عدالت کلبھوشن کو رہا کرنے کا حکم دے۔ عدالت نے یہ مطالبہ مسترد کردیا۔ یہ پوائنٹ پاکستان کو مل گیا۔ (واضح رہے کہ بھارت کو بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ مطالبہ ماننا قانوناً عدالت کے اختیار میں ہی نہیں ہے اور اس پر میں دو سال قبل تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔)
3۔ تو دونوں فریقوں کے “خواہ مخواہ کے مطالبات” عدالت نے مسترد کردیے اور یہاں تک سکور برابر رہا۔
4۔ بھارت کا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ عدالت قرار دے کہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی نہ دے کر پاکستان نے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔ عدالت نے یہ مطالبہ تسلیم کرلیا۔ یہ پوائنٹ بھارت کو مل گیا۔
5۔ بھارت کا تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ عدالت قرار دے کہ قونصلر رسائی نے دینے کی بنا پر کلبھوشن کو دی گئی سزا کو ختم کردے۔ عدالت نے یہ مطالبہ مسترد کردیا۔ یہ پوائنٹ پاکستان کو مل گیا اور یہ بہت اہم پوائنٹ ہے۔
6۔ پاکستان کا موقف تھا کہ کلبھوشن کے پاس رحم کی اپیل کا راستہ بھی موجود ہے اور ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کے فورمز بھی دستیاب ہیں۔ عدالت نے اسے ناکافی قرار دیا اور قرار دیا کہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے اور اس کے بعد اس فیصلے پر مناسب نظر ثانی کرے۔ یہ پوائنٹ بھارت کو مل گیا لیکن اس سے وہ کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔
7۔ یہ نظرثانی کیسے کی جائے؟ اس کے لیے عدالت نے کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کیا بلکہ معاملہ پاکستان پر چھوڑ دیا۔ یہ پوائنٹ پھر پاکستان کو مل گیا اور اس نے توازن کو مکمل طور پر پاکستان کے حق میں کردیا۔
8۔ نتیجہ کیا ہوا؟ تین نکات نوٹ کرلیں:
الف۔ کلبھوشن بدستور پاکستان کے پاس رہے گا۔
ب۔ بھارت کے قونصلر کو کلبھوشن تک رسائی دی جائے گی۔
ج۔ فیصلے پر نظرثانی کی جائے گی جس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ کیس نئے سرے سے شروع سے سنا جائے۔
د۔ تاہم اگر نئے سرے سے شروع سے بھی سنا جائے تو کلبھوشن کے خلاف دستیاب شواہد کی بنا پر مجھے امید نہیں کہ قونصلر رسائی اور نظرثانی کے بعد فیصلہ تبدیل ہوسکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔تو پاکستانی اب مٹھائی کھاسکتے ہیں۔