مریم وزیر،کراچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرۂ جماعت میں موجود استاد انگریزی زبان میں سبق کی وضاحت کر رہی تھیں، ان کی توجہ کا اہم ترین مرکز ، ان کے شاگرد تھے۔ بچوں کو ایک غیر زبان سکھانا, پڑھانا، سمجھانا، اور اس سے آشنا کرنا اہم اور مشکل کام ہے۔
بالکل یہی کام اردو کی استاد بھی کر رہی ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ اردو ماحول میں موجود ہے۔ اس کو سمجھنا آسان ہے، خصوصاً “کراچی” جیسے شہر میں جہاں اردو بہ خوبی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ہاں بے شمار افراد کے لیے اسے لکھنا مشکل ترین کام ہے۔
کہاں، کون سا لفظ استعمال ہوگا؟ کہاں “ہے” یا “ہیں” آئے گا. حروف کیسے بنیں گے؟ ادا کیسے ہوں گے؟املا کیا ہوگا؟
جملوں کو لکھنا کس طرح ہے؟ الفاظ کے ہجے، بناوٹ کیا ہوگی؟ قواعد کون سے استعمال ہوں گے. محاورات، ضرب المثال کب؟ کہاں؟ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ یہ سب کام بھی اردو کے اساتذہ سکھاتے ہیں یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ سب کام ایک اردو کے استاد کو ہی کرنا ہوتے ہیں. اساتذہ کو بچوں کے لیے عملی تفسیر بننا ہوتا ہے، وہ جو شاعر نے کہا ہے نا:
اچھی اردو پیاری اردو
کچھ دیر تو مجھ سے بات کرو
زبانیں اپنے ساتھ اپنا پس منظر اور تہذیب لے کر آتی ہیں۔ اچھی اردو پڑھانے کے لیے اچھی اردو آنا ضروری ہے۔ مطالعہ پر گرفت اور زبان سے گہری واقفیت کا ہونا ضروری ہے۔
ہم ہیں تہذیب کے علمبردار
ہم کو اردو زبان آتی ہے
کسی بھی زبان کو اس کے قواعد کے ساتھ بولنا، اس میں لکھنا، بات کرنا، سمجھنا مختلف نوعیت کے کام ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میں مہارت حاصل کرنا صرف اس کے مسلسل استعمال کے بعد ہی ممکن ہوگا۔ اسی کلیہ کواردو پر بھی لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔
اردو قطعاً کوئی غیر اہم زبان نہیں ہے۔ اسے ہر کوئی پڑھا بھی نہیں سکتا مگر اسکول انتظامیہ کو اس کا ادراک نہیں۔
اردو ایک پھلنے پھولنے والی زبان ہے جسے رومن میں لکھ کر اس کی اصل کو گم کیا جارہا ہے۔ اردو پڑھانے والے استاد موبائل استعمال کرلیں گے مگر اردو کی بورڈ اور اردو رسم الخط استعمال کرنا نہیں آتا، اس کی کچھ وجوہات ہیں:
*سیکھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
*اس کی اہمیت نہیں ہوتی ان کی نظر میں۔
*معاشرے کی نظر میں اس کی پذیرائی اور حیثیت نہیں ہے۔
- حکومتی سطح پر اس کی اہمیت صرف بولنے کی حد تک ہے کہ سرکاری اداروں میں سارے تحریری کام انگریزی میں ہوتے ہیں۔
پاکستان میں اردو کی حیثیت کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں اردو پڑھانے والے استاد کی اہمیت نہیں ہے۔ وہ زبان جسے ٹوٹا پھوٹا ہر پاکستانی فرد بول اور سمجھ لیتا ہے، اس کو اتنی اہمیت بھی نہیں دی جاتی کہ دیگر زبانوں کے اساتذہ کے برابر تنخواہ دی جائے۔
عموماً قدرے کم تنخواہ پر آرام سے ایک اردو استاد کو رکھا جاسکتا ہے اور اردو کے ساتھ عربی، اسلامیات، معاشرتی علوم، اور دیگر کسی بھی مضمون کو نتھی کیا جاسکتا ہے۔
حکومت وقت، تعلیمی اداروں اور معاشرے کے اہل علم افراد کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اردو نہ صرف سمجھ، پڑھ اور لکھ سکیں ،اسی کے رسم الخط میں کے ذریعے دنیا بھر میں اس کی پہچان کرواسکیں جو بھارتی ڈراموں کے ذریعے سنی گئی ہندی کو اردو نہ سمجھیں، بلکہ اردو اساتذہ، مطالعے اور معاشرے سے اسے سیکھیں۔