نصرت یوسف……..
اخروٹی رنگ کی سینڈل تازہ تازہ پیڈی کیور ہوئے پیروں میں خوب جچتی لگی تو اس نے سیلزمین سے اسے پیک کرنے کا کہہ کر ان ’پمپیز‘ پر بھی الوداعی نظر ڈالی جو پہلی نگاہ میں اس کو بھا گئے تھے لیکن اس کا ناپ اسٹاک میں ختم ہو چکا تھا۔
”مما! یہ پمپیز لیں نا ،یہ سفید تتلی والے‘
‘کسی نے پیچھے سے اس کا دوپٹہ کھینچا تو حیرت سے اس نے گردن گھمائی۔ اسکول یونیفارم میں ملبوس نو، دس برس کی بچی اپنی کٹورا سی آنکھوں کے ساتھ جوتوں کو دیکھتی اس کا پلو تھامے تھی ، وہ لمحہ بھر کو ساکت سی ہوگئی ، اچانک کسی نے آواز دی ”انعم بیٹا! آنٹی کا دوپٹہ کیوں پکڑے ہو آ پ؟“ بچی نے چونک کر دیکھا اور یک دم گھبرا کر آواز کی جانب بڑھ گئی ۔ماں نے معذرت خواہانہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا تو وہ آگے بڑھ کر کٹورے نین والی بچی کے گال چھو کر دکان سے باہر نکل آئی ۔ اسے لگا جیسے کہیں بہت سے شیشے ایک ساتھ کہیں قریب میں چٹخے ہوں ، بے اختیار نگاہیں گھما تی وہ سنبھل سنبھل کر چلتی اپنی گاڑی تک آئی ، کانچ ہر جگہ بکھرے نظر آرہے تھے۔ اسے لگا کئی ایک اس کے جوتوں کے اندر دھنس کر اس کی ایڑیاں زخمی کر چکے ہیں ۔ لیکن اس نے پیر اور جوتے دیکھنے کے بجائے گاڑی اسٹارٹ کر دی ۔اس کے سرخ ہوتے چہرہ پر پسینہ کے اتنے قطرے جمع تھے جیسے تپش نے اس کو پگھلا دیا ہو۔
اس کا عافیت سے گھر پہنچ جانا معجزہ ہی تھا، اس کو مستقل پیروں میں کانچ چبھ رہے تھے ، کمرے میں پہنچتے ہی اس نے لرزتی آواز میں ملازمہ کو پکارا ”کنول !!! جلدی سے آﺅ ،کلینک جانا ہے میں نے ، کانچ گھس گئے ہیں میرے پیروں میں “ اس کی پہلی ہی پکار پر کنول گھبراتی اس کے پاس آئی اور آتے ہی حیرت سے اس کو دیکھنے لگی، اس کے گلابی ایڑیوں والے پیر بالکل صحیح سالم تھے مگر اس کے چہرے پر ایسی ہی اذیت تھی جیسے اس کے اندر کانچ نے خون کے دھاریں بہادی ہوں۔
”باجی! آپ کے پیر تو بالکل صحیح ہیں ، ثابت بالکل ! “ اس نے کنول کی بات سن کر غیر یقینی نظروں سے اپنے پیروں کو ڈرتے ڈرتے دیکھا اور بستر پر بیٹھ گئی، کنول نے نرمی سے اس کو بازو سے تھا ما اور بستر پر لٹادیا۔اس نے بھی کوئی پس و پیش نہ کی ، پسینہ بدستور اس کے چہرہ پر چمک رہا تھا ۔
کمرے سے باہر نکلتے کنول نے ایک بار پھر اس کی آواز سنی ، وہ اس کو بلا رہی تھی ، ”کنول امی ابو کو کچھ نہ بتانا “ اتنا کہہ کر اس نے آنکھیں موند لیں ۔
نم ہوتی آنکھوں سے کنول نے اس کو دیکھا ، وہ خضرا حیات تھی، بارہ برس قبل وہ جس سے ملتی اس کی رگوں میں زندگی دوڑنے لگتی ، لگتا تھا کہ اس کے اندر پارہ بھرا ہو جو اسے ہر دم متحرک رکھتا ہو، اور کتنی حیرت کی بات تھی کہ اس شوخ لڑکی کو پسند ایک کم گو نے کیا ۔ جو بولتا کم تھا لیکن خرچ کرنے میںکھلا،حیات صاحب کو اپنے انیس سالہ گلہری سی اچھل کود کرتی بیٹی کے لئے اس شخص کا رشتہ ہر شخص سے بہتر لگا۔
” نسل در نسل اعلی پڑھا لکھا خاندان !“
”ان کی عورتیں بہت خوش رہتی ہیں !“
”یہ پھولوں کی طرح عورتوں کو رکھتے ہیں!“
”یہ خاندان پارس کی مانند ہے!“
تعریفیں سی تعریفیں تھیں ، انبار تھے مدح سرائی کے ، اور واقعی خضرا حیات کو منگنی سے ولیمہ کی شاندار دعوت تک جس نے بھی دیکھا رشک یا حسد دونوں جذبوں میں سے ایک پوری قوت سے ضرور محسوس کیا۔
شادی کی کہانی شادی کی تقریبات کے بعد شروع ہوتی ہے ،جب ہاتھوں کی مہندی مدھم ہونے لگی اور ڈھیروں پھول حجلہ عروسی سے باہر پھینک دیے گئے ، بس وہیں سے خضرا حیات کی شادی کی کہانی کا آغاز ہوا۔
اس کا اعلیٰ تعلیم یافتہ میاں کم گو ہے ‘وہ یہ جانتی تھی لیکن اس کے میاں کو اس کا ہنسنا بولنا ناگوار لگتا ہے یہ اس کے لئے دھماکہ خیز دریافت تھی ،خضراحیات کا بازو کمرے میں آکر بہ طور سرزنش اس کے مجازی خدا نے ا تنی سختی سے پکڑا تھا کی خضرا کی بانہوں پر انگلیاں چھپی سی لگتی تھیں ۔
”کسی اور کو دیکھا تم نے ہمارے خاندان میں اس طرح بے تکا بولتے یا ہنستے؟“
”اپنی چال درست کرو، جھکتے کیوں ہیںکندھے چلتے ہوئے؟“
”باوقار رنگ کے کپڑے بناﺅ، یہ گولہ گنڈے جیسے رنگ ہمارے ہاں نہیں پہنے جاتے“
”اتنے شاندارادار ے شہرمیںہوتے تمہارے پاس بیچلرز کی ڈگری بالکل بیکار ادارے کی ہے ۔ دوبارہ کرو!“
وہ چکراتے ذہن کے ساتھ ان اعتراضات پر سوچتی کہ سب وہی تو ہے جو نکاح نامے پر دستخط سے پہلے بارہا سامنے آیا تھا، کیا دستخط سے پہلے اور دستخط بعد ”ہمارے خاندان“ کی پسند تبدیل ہو چکی تھی ؟؟؟
پانچ سال ایسے بیتے کہ وہ دو جڑواں بچوں کی ماں بن گئی ۔ خضرا حیات کو پھر کسی نے ہنستے نہ دیکھا ، جھولے پر لمبی پینگیں لیتے نہ دیکھا، شوخ رنگ پہنے نہ دیکھا ،بے فکری کی چال وہ چلنا بھول گئی،ہاں وہ ہیرے پہنتی اور جینوا گھومتی تھی ۔
اس نے بیچلرز اور پھر ماسٹرز نامی گرامی گراں ترین ادارے سے کیا اور پھر مجازی خدا کے کہنے پر اس نے یو این او جاب کے لیئے درخواست دی ۔وہ جاب کیا اس کی درخواست بھی نہ دینا چاہتی تھی ، اس کو اپنے دونوں بیٹیوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند تھا ، ان کی ننھنی ننھنی ہتھیلیوں کا لمس وہ اپنے چہرے پر محسوس کرنا چاہتی تھی ، ان کو بانہوں میں وقتاً فوقتاًبھرنا چاہتی تھی ، وہ اس کا جز تھیں لیکن اس کے مجازی خدا کو یہ سب باتیں ”ہمارے خاندان“کی نہ لگتیں ۔
لوگ کہتے خام سی خضرا حیات کو پارس نے بالآخر کندن کردیا ہے ، اس کا اس تبصرہ پر خوب رونے کا دل چاہتا لیکن وہ کچھ بھی اب بے تکا نہیں کرتی تھی ، سو بہت انداز سے مسکرا جاتی ۔
اسے علم تھا اس کا میاں نفسیاتی مریض ہے جو اس کو اذیت دے کر خوش رہتا ہے ، اس کی خوشی خضرا کے ٹپکتے آنسو ہیں ۔اسے ہنستی مسکراتی خضرا سے شادی ہی اس لئے کی تھی تاکہ وہ اپنے اندر اٹھنے والے ابال کی تسکین اس کو غمگین کرکے پاسکے ۔اور خضرا حیات اچھے دنوں کی امید پر ،ہنسنے اور کھلکھلاتی زندگی کی آس پر گرم موم بنی میاں کے دئے سانچے میں ڈھلتی رہی۔
ہاں اس نے پھر اپنے اندر کی ممتا کو گھونٹ ڈالا ، رب نے تین بار مزید اسے اولاد سے نوازنا چاہا لیکن وہ دنیا میں ان انسانوں کو لانے کا ذمہ دار نہ بننا چاہتی تھی جن کا باپ ماں کو بچوں سے جدا رکھ کرآسودہ رہتا ہو، بیٹیوں کی آنکھوں میں خضرا کے لئے وہ لہریں ہی نہ ہوتیں جو ماں اور بچے کے درمیان ا ن د یکھا رابطہ ہوتا ہے ۔جو ماں کو بدنما اور تلخ ازدواجی تعلقات کو سہنے کا حوصلہ دیتا ہے،
وہ کٹورا سی آنکھوں والی ننھنی پریاں اسے مما توکہتیں لیکن اس کی آغوش میں اس کے پکارنے کے باوجود نہ آتیں ، اس سے کوئی بات ہی نہ کرتیں ، کتنی حیرت کی بات تھی کہ وہ اپنے باپ سے خوب لاڈ کرتیں ، دس برس اس کے مجازی خدا نے اپنی اطاعت میں اس کو اتنا مصروف رکھا کہ اس کی اولاد کو ہی اس سے بیگانہ کر دیا۔
وہ کوکھ جلی تو نہ تھی لیکن اسے ممتا جلی بنا دیا گیا۔ایسے میں وہ کیونکر اپنا لہو سینچ کر مزید اولاد کی خواہش کرتی ، ہر بار خاموشی سے ابارشن کراتے وہ بلک بلک کر روتی۔ ہر بار نرم نرم ہونٹوں کا لمس اسے اپنے گالوں پر بوسے دیتا اور آنسو بہاتا محسوس ہوتا اور ہر بار وہ مجازی خدا کی ریاست سے فرار کا فیصلہ کر لیتی لیکن پھر وہ کٹورا سی آنکھیں جو اسے ”مما“ کہتی تھیں کھینچ لیتیں ،اور وہ ہیروں کے نئے زیورات کی خوب خریداری کرکے جینوا پہنچ جاتی جہاں اس کے میاں کی تجارتی سرگرمیاں تھیں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ۔
ہیرا اس کی آنکھوں کی اداسی کے ساتھ مل کر اس کی شخصیت کو بڑا اسرار انگیز بناتا اور لوگ اس کے مجازی خدا سے خضرا حیات کی تعریف کرنا نہ بھولتے۔
”لگتا نہیں یہ دس سال پرانی بیوی ہیں “ سبز آنکھوں والے نے اس کے میاں سے مسکراتے کہا تو اس نے خضرا حیات کے گرد بازو لپیٹ دیا۔
کوئی نہ جانتا تھا وہ اندر سے کھوکھلی ہوچکی ہے،اس نے کبھی اپنے والدین کے کسی بھی کسی ایسے قدم کی حوصلہ افزائی نہ پائی تھی جو اس کو کشتیاں جلانے کا اشارہ دیتا ہو، اس کے باپ نے کبھی یہ بھی نہ پوچھا کہ وہ اب کیوں نہیں ہنستی ، اس کی ماں نے اس کو گلے لگاتے یہ نہیں کہا کہ وہ اب گھنٹوں خاموش کیسے رہتی ہے، دونوں نے ہمیشہ اس سے پرامید باتیں کیں مگر اسے لگتا وہ بالکل تنہا ہے ، کوئی نہیں جو اسے گلے لگا کر کہے ”جاﺅ تم آزاد ہو ، تمہاری عمر قید ختم کی گئی۔“
پھر ایک شب وہ آگیا ، اس کے سنہرے پر خوب چمک رہے تھے ”خضرا حیات!! وہ دیکھو تمہارے بچے تمہیں بلاتے ہیں، خضرا حیات نے اس سنہری پروں والے کے پر تلے رنگ برنگی تتلیوں کے پر پھڑ پھڑاتے دیکھے اور جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ جینوا یونیورسٹی ہسپتال میں تھی ۔
اس کا بستر کھڑکی سے قریب تھا، سبزہ تمام تر دلکشی لیے تھا اس نے گردن ذرا سی گھمائی تو سامنے سے اس کا میاں سپاٹ نظروں سے اس کو دیکھ رہاتھا، کم گو ،کیکٹس سا۔
”کس کے تھے جو ابارشن کراتی گئیں ؟“
خضرا حیات اس سوال پہ بےہوش نہیں ہوئی ، کمال ہی تھا ورنہ درد کی ٹیس ایسی ہی اٹھی تھی ، نہ جانے کہاں اور کس جگہ کا درد تھا ، اس کو یکدم قے ہوئی جس کی چھینٹیں اڑ کر سامنے پرسش کرتے وجود تک گئیں تو اس کا چہرہ بگڑ گیا۔ شاید لمحہ آزادی آچکا تھا، خضرا حیات نے تیزی سے آتے نرسسنگ اسٹاف کو دیکھا اور پوری طاقت لگا کر کہا ” مجھے آزاد کردو اسی وقت ! “
”اسی وقت !“
آسمانی آقا کی دئے رتبہ پر اکڑتا زمینی آقا جو بولتاکم ، احکامات زیادہ دیتا تھا ،خضرا حیات کے لئے نہ جانے تنی ہوئی طنابیں کیسے ڈھیلی کرگیا۔ایک !دو! تین !!
عجیب سی کیفیت تھی ہسپتال کے عملے نے زبان سے لاعلمی کے باوجود گمبھیر صورتحال بھانپ کر مریض کا خیال کرتے ہوئے اس کے بستر کے گرد جگہ آنا فانا خالی کرادی ۔
خضرا حیات پھر بےہوش ہوچکی تھی ،تتلیوں کے پروں کا لمس اسے اپنے جسم پر سرسراتا لگ رہا تھا۔جینوا سے اپنے شہر تک پہنچنے میں اسے پورا ہفتہ لگا لیکن اس پورے ہفتہ میں وہ ایسے مجسمہ میں ڈھل چکی تھی جو سانس لے رہا تھا لیکن آنسو نہ بہارہاتھا، جو ایک دن نوک والی لمبی ہیل کے جوتے پہن کر بنا رکے گھنٹوں بیلے ڈانس کرتا رہا، پھر وہ رونے لگا اور پھر وہ ہنسنے لگا،ڈاکٹرز نے اسے انتہائی درجہ کی ذہنی ابتری کی دوائیاں دیں ۔اور تتلیاں سرسرانی فوری طور پر رک گئیں ۔
ماں باپ کے گھر پہنچتے ہی اس نے لان میں لگے سفید پھولوں کے اس کنج کو دیکھا جن پر سفید تتلیاں منڈلا رہی تھیں ، یہ تتلیوں کا موسم تھا ، اس نے ساتھ چلتی غمزدہ سی ماں اور دل گرفتہ سے باپ کو دیکھا ، اور سر جھکا کر آگے بڑھ گئی ۔
اس گھر نے ہمیشہ کی طرح اپنی آغوش میں اس کو بہت محبت سے سمیٹ لیا ، اب وہ ہنستی تھی ، چہچہاتی تھی ، دنیا کہتی اس نے ہی نہ بسنا چاہا ورنہ ہیرے پہنتی اور جینوا رہتی تھی ، وہ جینوا جو دنیا کے حسین ترین خطہ میں ہے۔
اب نہ رنگ رہا اور نہ وہ روپ !
نہ ہے شان اور نہ آن !
کیا ملا خودسری دکھا کر ؟
کیا بتائے کسی کو کہاں ہے وہ زندہ ،اسے تو ہیروں کی کان میں دفن ہوئے عمر بیت چکی ہے۔