مسلم سکول ٹیچر کھڑی ہے دیوار کے ساتھ

ہماری بیٹیاں کب گھر کی ملکہ کا درجہ پائیں گی؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شمائل غازی۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بہت چنچل سی تھی، ہر وقت ہنستی مسکراتی،دوجڑواں بہنوں میں سے ایک۔ جہاں کسی کلاس فیلو کوخاموش بیٹھے دیکھا فوراً اپنی پیاری سی شرارتوں سے ایسا ماحول بنا دیتی کہ پریشان ساتھی کھلکھلا اٹھتی۔

تعلیم مکمل ہوئی ، ہم سب بچھڑگئے۔اپنی اپنی منزلوں کی تلاش میں راستے بھی جدا ہوگۓ۔پھر اچانک ایک پرائیویٹ سکول میں اپنی صلاحیتیں آزمانے کا موقع ملا اور ایک خوشگوار احساس نے گھیر لیا:”ارے آپ یہاں؟؟؟”

"جی جناب! آپ جیسی بزدل کی حفاظت کے لیے میں استقبالیے پہ ہی موجود ہوں ۔اجنبی سے ماحول بچوں کی افراتفری کو دیکھ کر میرا حوصلہ جواب دینے لگا۔ سوچا کہ کل سے نہیں آنا، کون ان چھوٹے چھوٹے بچوں کی سارادن خدمت گزاری کرے۔وہ شاید میری حرکات وسکنات سے میرے ارادے بھانپ گئی تھی۔

میرے قریب آکر دلنشیں مسکراہٹ سجاۓ بولی:” ڈئیر! پریشان نہی ہونا ، ان بچوں کے ساتھ سارا وقت بہت ہی اچھا گزرتا ہے، نرسری پریپ کے بچے بہت کیوٹ ہوتے ہیں ۔بڑی کلاسز کے پریڈ کبھی نہ لینا نری ٹینشن۔۔۔۔۔۔

اگلا دن شروع ہوا تو ڈرتے ڈرتے پھر سکول چلی گئی۔ اسمبلی سے پہلے نرسری پلے کے روتے کرلاتے بچے والدین کی ٹانگوں سے چمٹ جاتے اوریہ محترمہ جھٹ سے آگے بڑھ کر بڑے پیار سے بچے کو گود میں لے لیتیں۔

میں حیران پریشان تماشا دیکھتی کہ کیا ضرورت تھی ان بچوں کی چاپلوسی کرنے کی۔۔۔۔۔کچھ وقت گزرا ۔ جو بچے مجھے الجھن میں مبتلا کرتے تھے پیارے لگنے لگے، ان کی ادائیں دل کو ایسی بھاتیں کہ گھر آکر بھی جب تک ایک ایک بچے کی دن بھر کی داستان سب کو نہ سنا لیتی سکون سے نہ بیٹھتی۔

شام ہوتے ہی جی چاہتا کہ جلدی صبح ہو اور ان پھول کلیوں کے درمیان جاپہنچوں۔پھروہ دن بھی آۓ کہ ہم دونوں نے مل کر چھوٹی کلاسز کے بچوں کے لیے نت نئے تجربات کیے۔کچھ فارغ وقت ملتا بچوں کو کھلے میدان میں لے آتیں اور پھر ان کے ساتھ کھیل کھیل میں بہت ساری چیزیں سکھادیتیں۔

بچے ہم دونوں سے اس قدر مانوس ہوۓ کہ ہم انہی کے ہوکر رہ گئے۔۔ پرنسپل نہایت سنجیدہ مزاج انسان تھے۔ باقی اساتذہ ہمیں ڈراتیں آپ دونوں کی پیشی پڑجاۓ گی۔۔۔۔۔لیکن ایسا کبھی نہ ہوا ۔جب ہم بچوں کے ساتھ کھیل رہی ہوتیں تو پرنسپل آفس سے باہر آتے کچھ دیر کھڑے ہوکر دیکھتے اور مسکرا کر لوٹ جاتے۔۔۔۔۔۔

اس ہمت والی خوش باش لڑکی نے مجھ جیسی ہر قدم پہ جھجھکنے والی کو حوصلوں کی ایسی اڑان دی کہ پھر کبھی خوف نہ آیا۔۔۔۔لمحے سرکے اس کی شادی ہوگئی، اپنی زندگی کی مصروفیت میں مگن ہوگئی۔ میں بھی کچھ عرصہ بعد اپنی منزل کو چل دی۔۔۔۔

عشرے سے بھی زائد وقت گزرگیا۔اچانک ملاقات ہوئی اور میں حیران رہ گئی:”ارے آپ !۔۔۔۔۔۔۔صحت اتنی خراب ۔۔۔۔کیا ہوا۔۔۔”
اس نے اپنے انداز میں قہقہہ لگایا:”ارے بوڑھے ہوگئے تو کیا صحت ویسی ہی رہے گی۔لیکن مجھے معلوم نہیں، کیوں اس کا قہقہہ ایک چیخ لگا جو کہیں ویرانے میں گونج اٹھی ہو۔۔۔۔وہ چلی گئی مگر مجھے الجھا گئی، نہیں نہیں یہ ایسی کیسے ہوسکتی ہے۔نڈھال سی تھکی ماندی۔

اور کئی مہینے میرے دماغ میں مسلسل پریشانی کا باعث بننے والا خوف گزشتہ رات سچ ہوگیا جب اس کا فون آیا۔ شمائل! میں تھک گئی ہوں، مجھے تھکادیا سب لوگوں نے، میرے اعصاب جواب دے گئے ہیں، خدا کے لیے مجھے بچا لو! مجھے برین ہیمرج ہوجاۓ گا ۔۔۔۔۔۔۔اور فون بند ۔۔۔۔۔

بار بار رابطے پہ بھی فون نہیں اٹھا رہی۔اور میرا دل ہے سینے سے نکل بھاگنے کو ہے کیسے سینکڑوں میل کا فاصلہ طے کرکے جا کرپوچھوں کہ اے زندہ دل شہزادی ! کیا ایسا بیتا کہ دنیا ایک کھلکھلاتی حوصلہ مند سے محروم ہوگئی ۔۔۔جو مجھے کہاکرتی تھیں کہ ڈرنا کس بات سے میں ہوں ناں۔

مجھ بےحوصلہ سے اپنا دکھ روتی ہو تو یقیناً بہت کچھ بیت گیا آپ پہ ،میری محسن میری ساتھی میری بہن۔۔۔۔ذہن اس قدر پریشان ہے کہ ہم کس معاشرے کو اپنی بیٹیاں دے دیتے ہیں جو شہزادیوں کو بھکارنیں بناکر چھوڑتا ہے۔ چنچل چہکتی چڑیاں کیوں چپ سادھ لیتی ہیں؟ جن آنکھوں کی چمک ایک الوہی کشش رکھتی ہے کیوں بے نور نظر آنے لگتی ہیں۔

ساری صلاحیتیں ساری قائدانہ خوبیاں کیوں ایک نحیف وبے حوصلہ میں ڈھل جاتی ہیں۔ربا۔۔۔۔۔۔کب سنی جاۓ گی ہماری بیٹیوں کی۔۔۔۔۔آخر کب یہ گھر کی ملکہ کا درجہ پائیں گی۔۔۔۔۔۔کون جانے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر کون جانے کہ ہمت ہار کر بیٹھ جانے والا ایک فرد کتنی صلاحیتوں کامالک تھا۔

کیسا روشن ستارا تھا جو ہمارے معاشرتی رویوں گھریلو سیاستوں کی نظر ہوگیا ۔آخر کون جواب دہ ہے۔۔۔۔۔اور جواب مل بھی جاۓ تو کس کام کا اس کی مسکراہٹ ،صحت،ہمت کچھ بھی تو واپس نہیں آنا۔۔۔۔۔۔راستہ دکھانے والے چراغ بجھا کر ہم کس پہ فتح پاتے ہیں۔تف ہے ہم پہ۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں