مدثر محمود سالار۔۔۔۔۔۔
زائرہ وسیم ایک بالی ووڈ اداکارہ ہیں،چند دن پہلے موصوفہ نے اپنے مذہبی نظریات کی وجہ سے فلم انڈسٹری چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ان کے اس اعلان کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر مذہبی اور غیر مذہبی ہر دو طرح کے افراد نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
جہاں مذہبی رجحان رکھنے والے افراد نے ان کے اس فیصلے کو سراہا ہے وہیں مادر پدر آزاد لبرلز نے اپنی توپوں کا رخ مذہب کی طرف پھیر لیا ہے کیونکہ وہ ایک فلمسٹار تھی اور ان کے بہت چاہنے والے ہیں مگر شخصی آزادی کی بات کرنے والے لبرلز ان کے اس فیصلے کو لے کر مذہب پر چڑھ دوڑے ہیں۔
گو کہ لبرل حضرات کے ہاں کوا سفید ہی ہوتا ہے، مگر جس شخصی آزادی کے تحت وہ مذہب پر تنقید کا حق رکھتے ہیں اسی شخصی آزادی کے تحت ہم مذہب کا دفاع کرنے میں حق بجانب ہیں۔
حالیہ بحث میں لبرلز کی طرف سے یہی موقف سامنے آ رہا ہے کہ مذہب کا تعلق انسان کی ذات سے ہوتا ہے اور زائرہ وسیم پر سماج کی طرف سے مذہبی دباؤ ہے جس کی وجہ سے وہ فلم انڈسٹری چھوڑنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔
میرے نزدیک مذہب اس مخصوص چار دیواری کا نام ہے جس کے اندر انسان خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔اپنے اردگرد اپنی مرضی کی چاردیواری کھڑی کر لینا ہر انسان کا حق ہے،میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں کوئی بھی انسان مذہب کی حدود و قیود سے آزاد نہیں ہے۔
دنیا کے چند بڑے مذاہب کو ماننے والے چونکہ نمایاں اکثریت میں ہیں تو چھوٹے مذاہب کے ماننے والوں نے خود کو نمایاں کرنے کے لئے اس کھوکھلے دعوے پر اصرار کیا ہے کہ ہم مذہب کو سرے سے مانتے ہی نہیں ہیں، اپنے اس دعوے میں مزید اضافہ کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ دراصل مذاہب ہی دنیا میں فساد کی جڑ ہیں۔
جو لوگ عیسائیت ، یہودیت ،اسلام، بدھ ازم ،سکھ ازم، ہندو ازم اور دیگر سینکڑوں چھوٹے چھوٹے مذاہب کو ماننے سے انکار کرتے ہیں وہ بھی دراصل غیر مذہبی نہیں ہیں،جنہیں آپ غیر مذہبی یا لادین کہتے ہیں یا جو لوگ خود کو غیر مذہبی اور بے دین قرار دیتے ہیں وہ دراصل جس نظریے کے تحت دیگر مذاہب کا انکار کر رہے ہیں وہی نظریہ اصل میں ان کا مذہب ہے۔
عرف عام میں ہم ملحدین کو بے دین سمجھتے ہیں، مگر سچ تو یہ ہے کہ ملحدین کا یہ دعوی کہ اس کائنات میں کسی خدا کا وجود نہیں ہے اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ جس نظریہ جس مذہب جس دین کے ماتحت زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ خدا کے وجود کا انکاری ہے۔
اسلام عیسائیت یہودیت اور دیگر مذاہب نے اپنے ماننے والوں پر چند مخصوص پابندیاں عائد کی ہیں اور جو شخص ان پابندیوں کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے دفاع میں جو دلائل اور جو نظریہ پیش کرتا ہے وہی اس کا مذہب اور دین ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ لبرلز افراد اس بات پر اصرار تو کرتے ہیں کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور کوئی شخص یاگروہ کسی بھی دوسرے شخص کو کوئی مذہب اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا
مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے علاوہ وہ جس شخص کے مذہب پر بھی تنقید کرتے ہوئے اسے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مذہب اور سماج کو علیحدہ علیحدہ رکھو ،وہ دراصل اس شخص کو اپنے مذہب کی تبلیغ کر رہے ہیں۔
جس طرح تمام مذاہب کے افراد کو آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ اور پرچار کر سکیں اسی طرح لبرلز کو بھی آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے افکار اور نظریات کا پرچار کریں،
اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہوئے جب لبرلز دنیا کے دیگر تمام مذاہب کو نشانے پر رکھ لیتے ہیں تو یہاں سے اصل فساد پیدا ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے تمام بڑے مذاہب کی بنیادی تعلیمات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ کسی بھی شخص کو جبراً کوئی بھی مذہب اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
دنیا بھر میں اکا دکا چند واقعات ایسے ہو جاتے ہیں جن میں ایک گروہ دوسرے گروہ کو زبردستی اپنا مذہب اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے مگر یہ زور زبردستی بھی مذہب کی بنیادی تعلیمات کے برعکس ہوتی ہے۔
عموماً ہم سمجھتے ہیں کہ مذہب الحاد کے ماننے والے اسلام کی تعلیمات کا انکار کرتے ہوئے اسلام کی مخالفت میں پیش پیش ہیں، مگر دنیا کے تمام بڑے مذاہب کو مذہب الحاد کی مخالفت کا سامنا ہے۔
مذہب الحاد کے علاوہ دنیا کا ہر مذہب کسی خدا کسی سپر پاور اور کسی ایسی ہستی پر ضرور ایمان رکھتا ہے جو انسانوں اور دیگر مخلوقات سے صفات میں بالاتر ہو۔
آپ کو ہر مذہب میں ایک ایسی غیبی یا ظاہری طاقت کا وجود نظر آئے گا جس کی طاقتوں پر اعتقاد رکھتے ہوئے اس مذہب کے پیروکار اس طاقت یا خدا کو خالق و مالک سمجھتے ہیں۔
زائرہ وسیم اگر اپنے مذہب کو بنیاد بناتے ہوئے کوئی بھی شخصی فیصلہ کرتی ہے تو اسے یہ فیصلہ کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔
ماڈرن ازم اور الحاد کے ماننے والوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ زائرہ وسیم کو اس کے مذہب پر چلنے سے منع کریں۔زائرہ اگر یہ کہتی ہیں کہ میرا مذہب مجھے ان کاموں کی اجازت نہیں دیتا تو میں کون ہوتا ہوں جو زائرہ کو یہ مشورہ دوں کہ تم اپنے مذہب کی اطاعت چھوڑو۔
زائرہ وسیم جب ماڈرن ازم اور فلم انڈسٹری کی طرف گئی تو وہ ذاتی فیصلہ کرنے میں آزاد تھی، اس وقت تو یہی لبرل افراد اس بات پر مطمئن تھے کہ فلم انڈسٹری میں جانا زائرہ کا ذاتی فیصلہ ہے اور وہ اس فیصلہ کرنے میں آزاد ہے ،
اب اگر اتفاق سے زائرہ کو چند سال فلم انڈسٹری میں گزارنے کے بعد دلی اطمینان حاصل نہیں ہوا اور اب اس نے یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنے مذہب اسلام کی اتباع کرے گی تو اس پر لبرلز کو موت کیوں پڑ گئی ہے۔ بے شک مذہب اس کا ذاتی معاملہ اور آپ ہی اسے دوبارہ اس کے مذہب سے ہٹانے پر مصر ہیں۔
ماڈرن ازم کے پیروکار اپنی حدود میں رہیں اور شخصی آزادی کا خیال رکھیں۔
زائرہ وسیم ایک مسلمان عورت ہیں اور ان کی مذہبی کتاب یہ کہتی ہے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ، زائرہ وسیم اسلام کی مکمل اتباع کرنے کے لئے ہر وہ چیز چھوڑ رہی ہیں جو ان کی مذہبی تعلیمات سے ٹکراتی ہے ۔اسلام کے مکمل اتباع کی خاطر اگر وہ اسلام کی تعلیمات سے منافی کاموں کو چھوڑ رہی ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔
جیو اور جینے دو کے تحت جو جدیدیت کو چھوڑ کر اپنے مذہب کی مکمل اطاعت کرنا چاہتا ہے تو براہ مہربانی اسے آپ اپنا مذہب اختیار کرنے پر مجبور مت کریں۔