شمائل غازی۔۔۔۔۔
اس ملک کی نہ جانےکون سی بنیادی اینٹ ٹیڑھی رکھی گئی تھی کہ ستر سال گزر گئے، اس عمارت کا ہر حصہ بےڈھب ہے۔ خوبصورت پلاٹ پہ بننے والا یہ قلعہ کیوں اپنے ہی تحفظ کے لیے پریشان رہتا ہے۔
اس کے لیے اپنی زندگیاں کھپا دینے والوں سے ایسا کیا غلط ہوگیا تھا کہ یہ اب تک اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ وطن کے ہر گوشے میں صلاحیت کے پھول مہکتے ہیں۔ قدرتی وسائل ایسے کہ صدیوں کے تخمینے ہیں۔
زرخیزی ایسی کہ راہ چلتے بیج پھینک دیں تو بارآور ہوجاتے ہیں۔ نوجوان جواں ہمت اور حیران کردینے والے ہنر کے مالک ہیں، دریا سارا سال رب سوہنے کے کرم کا بہاٶ رکھتے ہیں۔ پہاڑ اپنے اندر قیمتی ذخائر چھپائے کھڑے ہیں ۔اناج اپنی ضرورتوں سے زائد ہوتاہے۔
دنیا کے لذیذ ترین پھل اس کے باغوں کی زینت ہیں۔ بہتے جھرنے، طوالت کو سمیٹتی شاہراہیں ہیں۔ دنیا کا بہترین نہری نظام ہے۔ کارخانے سہولتیں اگل رہے ہیں۔ طالب علم دنیا میں اہل علم کے ریکارڈ توڑے دے رہے ہیں۔
خواتین ایسے ایسے ہنر کی مالک ہیں عقل دنگ رہ جائے۔ دنیا کی سب سے بہترین افواج ہیں جن کی بنیاد ایمان پہ رکھی گئی ہے اور اس کا ہر جوان دشمن کے سینکڑوں پہ بھاری ہے۔
اس وقت تک دنیا کو باربار حیران کردینے والی ہماری خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ہے جو وطن کے دفاع کو دشمن کے لیے لوہے کا چنا بنا چکی ہے۔ سائنس دان ایسے کہ کم وسائل اور پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود دنیا کی بہترین ایٹمی طاقت بنا چکے۔
بیرون ملک پاکستانی جہاں جہاں موجود ہیں، اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ ادیب شاعر ایسے کہ لفظوں سے محبتوں کی مالا پرو کر رکھ دیں اور اپنے فن کے عشق میں مست ہوں تو ایسا تخلیق کردیں کہ دنیا وجد میں آجاۓ۔
سب کچھ ہے اور ہم پھر بھی دنیا کے زرخرید کیوں؟؟؟
جس گھر میں نعمتوں کی ایسی فراوانی ہو وہ گھروالے کشکول اٹھاۓ دردر بھٹک رہے ہوں۔ دوست دشمن کی پہچان رکھے بغیر جابغلگیر ہوں ۔آدھی آبادی روزگار کے لیے بےوطنی کا دردسہہ رہی ہو ۔ بین الاقوامی معاملات میں بصیرت کا جنازہ پڑھا جاتا رہے ۔اپنی شہہ رگ کی حساسیت سے اتنی غفلت ہو کہ شہہ رگ پہ خنجر گاڑے دشمن کو بین الاقوامی معاملات میں مکمل تعاون فراہم کیا جاۓ ۔
اور اندرون ملک اپنی قوم کو ہمیشہ اور مسلسل مسائل میں الجھائے رکھا جائے۔ ستر سالوں میں ایک حکمران بھی ایسا نہ ہو جس کے بچوں کو اس قدر صلاحیتوں کا مالک ملک ایک ڈگری ہی دے سکے۔
جب یہ سب کچھ ہے تو کیا کبھی قوم نے غور کیا کہ ہم ریشم کی کس ڈوری سے الجھاۓ گئے ہیں؟ کیسے کیسے قوم کے دشمن ہم پہ مسلط کیے گئے ہیں؟ کسی ایک کو دیوتا کادرجہ دے کر قوم کا ذہن بنایا جاتا ہے۔
“بس یہی ہے جو آخری امید ہے اگر اسے نہ اپناٶ گے تو مارے جاٶ گے”۔
اور یہ جذباتی جگت بازقوم فوری دام میں آتی ہے۔ عشرہ گزر جاتا ہے اسی کہانی میں، پھر اگلا دیوتا تیار ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اور قوم پچھلے مجرم دیوتا کے گلے میں رسی باندھ گلی گلی گھسیٹی ہے اور نیا دیوتا تخت پہ براجمان اپنے آقاٶں کی خوشنودی سمیٹنے میں مصروف۔
تب مجرم تو کوئی نہ ہوا نا، ہم ہی مجرم ٹہرے جو کبھی بھولے سے تماش بین قوم کو آواز دے کر یہ بتانے کا قصور کربیٹھیں کہ تم محض کٹھ پتلیاں ہو، مت اتنا مست ہوکے ناچو، ابھی اگلے دیوتا کو بھی بہت کچھ دان کرنا ہے ۔
اور یہ کہنے کے جرم میں کٹھ پتلیاں کاٹ کھانے کو دوڑ پڑتی ہیں کیونکہ ان کی رسیاں جانتی ہیں کس کو زیر کرنا ہے اور کس کوزبر۔