جویریہ خان۔۔۔۔۔۔
گزشتہ دنوں بی بی سی اردو نے ملتان کے ایک ریسٹورنٹ پر خوب مزے لے کر ایک رپورٹ نشر اور شائع کی۔ غیرملکی نشریاتی ادارے سے متعلقہ رپورٹر نازش ظفر نے اس ریسٹورنٹ کا اہم ترین پہلو اس کامنفرد نام "رن مرید ہوٹل” بتایا جسے سن کر ہرفرد کھی کھی کرتاہے۔
لیکن ہم اس رپورٹ کو ایک دوسری نظر سے دیکھتے ہیں کہ ایک ناتجربہ کار لڑکی نے ایک کامیاب کاروبار شروع کرنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟
ملتان کی زرعی یونیورسٹی کے عقب میں واقع نسبتاً کم گنجان گلی میں یہ ایک ڈھابہ ہے جسے ’رن مرید‘ کانام دیاگیا ہے۔ ہوٹل میں داخل کھانے پینے میں مصروف لوگوں کو دیکھاجائے تو گمان گزرتا ہے کہ نوجوان زرعی یونیورسٹی سے کچھ فراغت پاکر یہاں آنکلتے ہیں۔
دوسری طرف ایک نوجوان لڑکی باورچی سے ویٹر تک سب کو ہدایات جاری کرتی دکھائی دیتی ہیں، ساتھ ہی ساتھ وہ گاہکوں کی طرف بھی متوجہ رہتی ہیں۔
یہ نوجوان لڑکی عروشیہ ہیں۔ 22 سالہ عروشیہ امتیاز رن مرید نامی اس ہوٹل کی مالک اور منتظم ہیں۔ وہ کہتی ہیں بچپن سے کاروبار کرنے کا سوچا تھا۔ ہوٹل کھولا اور نام رکھنے کا مرحلہ درپیش ہوا تو طے یہ پایا کہ اس کا نام ’رن مرید‘ ہو گا۔
یہ نام ذہن میں کیوں کر آیا؟ یہ الگ سے ایک طویل کہانی ہے جو ان کے والد کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔
’بابا کو ان کے بہن بھائی رن مرید کہتے تھے کیونکہ وہ گھر کے کام کاج میں ماما کی مدد کرتے تھے۔ مجھے یہ لفظ مزاحیہ لگا لیکن ماما نے بتایا کہ ہنسنے کی بات نہیں یہ ایک سنجیدہ بات ہے۔ تو تب میں نے سوچ لیا کہ بابا کے مددگار شوہر ہونے پر مجھے فخر ہے اور انھی کے اعزازمیں ہوٹل کا نام یہی رکھا جائے گا۔‘
عروشیہ کی ڈگری مکمل ہونے پر ان کے خاندان نے معاشرتی روایت نبھاتے ہوئے ان کی شادی کروانے کی کوشش کی لیکن عروشیہ کا کہنا ہے کہ عین اسی وقت انھوں نے ہوٹل اور اس کے نام کا اعلان کر دیا۔
’کوئی جل گیا کسی نے دعا دی‘ کے مصداق والدین اور چند دوستوں نے ان کا ساتھ دیا جبکہ شروع میں اکثر لوگوں نے اس نام پر مذاق بھی اڑایا۔
’ایک ہی دن میں جگہ اور سٹاف کے بندوبست کے بعد ہم ہوٹل کا تشہیری سائن بورڈ بنوانے پہنچے تو کاریگر نے پوچھا نام کیا چھاپیں۔ میں نے کہا ’رن مرید ہوٹل‘۔ ایک لمحے کو خاموشی ہوئی اور پھر کاریگر کے منھ سے ہنسی کا فوارہ پھوٹا۔ وہ ہنستا چلا گیا اور جب اس کا دورہ ختم ہوا تو اس نے چھپائی کی حامی بھری اور ہم سے پیسے بھی نہیں لیے۔‘
عروشیہ کے والد امتیاز الحسن کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرد اپنی بیویوں کے ساتھ گھر کے کاموں میں تعاون کرتے ہوں یا ان سے انسیت کا برملا اظہار تو یہی کہا جاتا ہے کہ ’ایہہ بیوی دے تھلے لگ گیا اے۔‘
’اور اب تو دوست یار کہتے ہیں کہ بیٹی نے تم پر رن مرید کا لیبل پکا کر دیا ہے، لیکن مجھے فرق نہیں پڑتا۔‘
عروشیہ کے پارٹنر نعیم بھی انھی کی طرح ایک نوجوان ہیں۔ یونیورسٹی کے عقب میں واقع ہونے کے باعث رن مرید ہوٹل کے اکثر گاہکوں میں طلبا اور اساتذہ شامل ہیں جبکہ کم قیمت کھانا ہونے کی وجہ سے مزدور طبقہ بھی خاصی تعداد میں یہاں آتا ہے۔
بی بی سی نے جب ہوٹل میں موجود چند گاہک طلب علموں سے بات کی تو اکثریت نے اس نام کی پذیرائی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ بیوی تمام دن شوہر کی خدمت کرے تو اسے کوئی شوہر مرید نہیں کہتا لیکن مرد بیوی کے لیے کام کاج کرے تو اسے رن مرید کہہ کر شرمندہ کیا جاتا ہے۔ ایک طالب علم نے تو سینہ ٹھونک کر کہا کہ شادی کے بعد وہ ضرور رن مرید کہلوانا پسند کریں گے۔
عروشیہ کا کہنا ہے "وقت کے ساتھ ساتھ لوگ اس نام سے جڑے شرمندگی کے احساس پر قابو پا رہے ہیں۔ ہوٹل کھولنے کے بعد سے ہنسی مذاق میں ہی سہی لیکن بات چیت کا ایک در کھلا ہے اور انھیں خوشی ہے کہ زیادہ تر لوگوں میں اس سوچ کو قبولیت ملی ہے کہ ہمدرد، مددگار اور حساس شوہر ہونا کوئی گالی نہیں ہے”۔
رن مرید ہوٹل کی کہانی سے معلوم ہوتا ہے کہ کامیاب کاروباری بننے کے لئے نہ کسی خاص عمر تک پہنچنے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے لئے خاص تجربہ کی۔
عروشیہ نے اپنا ڈھابہ کھولنے کا سوچا اور نام ایسا منتخب کیا کہ پڑھنے اور سننے والا ضرور سوچتا ہے کہ ایک بار وہاں جاکر دیکھتے ہیں۔
جب ایسا کوئی بھی فرد آپ کے ہوٹل میں آجائے تو پھر اسے ایک ایسے ذائقہ سے آشنا کرنا ضروری ہوتا ہے کہ وہ بار بار یہاں آئے، خود بھی آئے اور اپنے دوست احباب کو بھی لے کر آئے۔ آپ کا معیار اور ذائقہ اسے آپ کا مارکیٹنگ نمائندہ بنادیتاہے۔
عروشیہ نے ڈھابہ کھولنے کے لئے مقام بھی ایسا منتخب کیا جو واقعی ایسے کاروبار کے لئے شاندار تھا یعنی یونیورسٹی کا قرب۔ یوں یونیورسٹی کے لڑکے اور لڑکیاں دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے اس منفرد نام کے حامل ڈھابہ پر آتے ہیں، اس سے وہاں رونق لگی رہتی ہے۔ یہ رونق بھی اس کے کاروبار کا اشتہار ہوتی ہے۔
آپ بھی کوئی ایسا ہی آئیڈیا سوچئے اور اللہ کا نام لے کر اپنا کاروباری سفر شروع کیجئے۔ انشااللہ آپ بھی عروشیہ کی طرح کامیاب ہوں گے۔