مصر کی تاریخ کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی نے اپنے انتقال سے چند لمحے مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج کو آگاہ کردیاتھا کہ انھیں قتل کیا جانے والا ہے۔انھوں نے جج کے سامنے مسلسل دلائل دئیے کہ وہ اس وقت بھی مصر کے صدر ہیں۔
مغربی خبررساں ادارے اے پی کے مطابق ڈاکٹر محمد مرسی نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
"جج صاحب! مجھے کچھ بولنے کی اجازت دیں، مجھے قتل کیا جا رہا ہے، میری صحت بہت خراب ہے، ایک ہفتے کے دوران میں دو دفعہ بے ہوش ہوا، لیکن مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جایا گیا”۔
یادرہے کہ شیشے کے پنجرے میں قید کرکے عدالت میں پیش کئے جانے والے ڈاکٹرمحمد مرسی کو خصوصی طور پر ججز سے بات کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
ان کے وکائے صفائی میں سے ایک وکیل کامل منظور نے بتایا کہ انھوں نے جج سے ایک خصوصی ٹریبونل قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے مزید کہا:”میرے سینے میں راز ہیں، جنہیں اگر ظاہر کروں، میں جیل سے تو چھوٹ جاؤں گا، لیکن میرے وطن میں ایک طوفان آئے گا، ملک کو نقصان سے بچانے کیلئے میں ان رازوں سے پردہ نہیں ہٹا رہا”۔
ڈاکٹر محمد مرسی نے کہا:”میرے وکیل کو مقدمہ کے بارے میں کچھ پتہ نہیں اور نہ مجھے پتہ ہے کہ عدالت میں کیا چل رہا ہے”۔
اس گفتگو کے بعد انھوں نے سیدنا حسنؓ بن علیؓ کے پڑپوتے الشریف کا یہ مشہور زمانہ شعر پڑھا اور بے ہوش ہوکر گرگئے۔۔۔
بلادي وإن جارت علي عزيزة
وإن ضنوا علي كرامً
کامل منظور نے بتایا کہ اخوان المسلمون کے درجنوں گرفتار رہنمائوں کو شیشے کے پنجروں میں بند کرکے عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، جہاں سے ان کی ہلکی سی آواز بھی باہر نہیں آسکتی۔