عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔۔
کسی باہمت لڑکی کےبارے میں جاننا چاہیںتو گل افشاں رانا ہی کی زندگی کا مطالعہ کرلیجئے۔ پچھلے دس بارہ برسوںسے وہ وہیل چئیر پر زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں،muscles this therapy کی مریضہ ہیں، اس بیماری کی وجہ سے آہستہ آہستہ چلنے سے مکمل معذور ہوگئیں لیکن ایک بھرپور زندگی گزار رہی ہیں۔ اس وقت وہ وہیل چیئر استعمال کرتی ہیں۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی گل افشاں رانا شعر بھی کہتی ہیں اور بچوں کی بھی ادیبہ ہیں۔ گزشتہ دنوںلاہور میں بچوں کے ادب کےموضوع پر ایک سالانہ کانفرنس ہوئی، گل افشاں رانا نے اس میں بھی شرکت کی اور پاکستان بھر سے آئے ادیبوں نے ان کی خوب پذیرائی کی۔
ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ اس باہمت شاعرہ اور کہانی کار سے مکالمہ ہو۔ آج جب موقع ملا تو پوچھا:
“آج کل کیا کررہی ہو؟”
گل افشاں رانا کا کہناتھا :
“ہچکی لیتا سورج” کے عنوان سے شاعری کی کتاب تکمیل کے مراحل میں ہے اس پر
کام ہورہا ہے،ساتھ ہی بچوں کی کہانیوں کی کتاب پر بھی۔
شاعری کی کتاب کا انتساب وہیل چیئر پر بیٹھ کر آسمان چھونے والوں کے نام کیا ہے جبکہ
بچوں کی کہانیوں کی کتاب میں ان کی اخلاقی اور سماجی تربیت کرنے کی کوشش کی ہے۔
اپنی کوئی پسندیدہ نظم؟
مجھے محبت ہے اپنی اس نظم سے :
راجپوتوں کی رانی ہوں میں
چاہتوں کی کہانی ہوں میں
کوئی جھونکا بہاروں کا ہوں
حوصلہ اپنے پیاروں کا ہوں
بانٹتی ہوں محبت کا زر
نفرتوں سے ہوں میں بے خبر
سب دعائیں سمیٹے گئی
بس دعا ہی میں دیتی رہی
میرا پیغام ہے روشنی
حوصلہ ہے میرا دیدنی
یوں دکھوں کو چھپاتی ہوں میں
گیت الفت کے گاتی ہوں میں
میرے لفظوں سے ہوگی سحر
مر کے ہوجائوں گی میں امر
راجپوتوں کی رانی ہوں میں
چاہتوں کی کہانی ہوں میں
اب تک آپ کی کہانیاںکہاں کہاں چھپ چکی ہیں؟
میری کہانیاں پاکستان کے مختلف اخبارات اور میگزینز میں شائع ہوچکی ہیں۔ پہلی تحریر ‘اردو میگزین’ جدہ میں شائع ہوئی تھی۔اس کے بعد روزنامہ ایکسپریس، صبح بہار میگزین، بچوں کا ادب، پھول میگزین اور خواتین ڈائجسٹ وغیرہ میں بھی شائع ہوتی رہیں۔
کہانیاں لکھنے کا سلسلہ کیسے شروع ہوا؟
“بچپن کی بات ہے تین ماہ کی چھٹیوں میں بابا سے شکایت کی کہ ہم بور ہوتے ہیں مما باہر کھیلنے بھی نہیں جانے دیتیں تو ہم اپنی چھٹیاں کیسے گزاریں؟ میرے بابا نے بہت سے مشورے دئیے اور ساتھ بڑے بھائی کو تاکید بھی کی کہ انہیں بچوں کے میگزین لگوا کر دو
تاکہ فارغ وقت میں یہ کہانیاں پڑھا کریں”۔
“وہاں سے بچوں کی کہانیاں پڑھنے کا آغاز ہوا اور پھر یہ دو ہزار تین کی بات ہے ،ہم لوگ جدہ میں رہتے تھے تو سمندر کنارے جاتے تو بڑے اپنی کھیلوں میں لگ جاتے اور خواتین اپنی باتوں میں”۔
“میرے کزنز کے بچے، میرے چھوٹے بہن بھائی، میں سب کو اپنے پاس سے بچوں کی کہانیاں سنانے لگتی۔ وہ لوگ باقاعدہ مجھ سے فرمائش کرتے کہ جنوں بھوتوں کی جانوروں کی پریوں کی مختلف کہانیاں سننی ہیں تو میں وہی انہیں سنادیتی۔ پھر ایک دن گھر آکر وہی کہانی لکھ کر”اردو میگزین” جدہ میں بھیجی تو پندرہ دن بعد وہ کہانی شائع ہوگئی”۔
“میرے بھائی نے مجھے میگزین لا کردیا کہ دیکھو! تمہاری کہانی تو سچ میں شائع ہوگئی ہے
تو انتہا کی خوشی ہوئی، پھر یہ سلسلہ شروع ہوگیا جو الحمدللہ اب تک جاری ہے”۔
“آج تک کبھی کسی نے حوصلہ شکنی نہی کی، گھر والوں نے کبھی لکھنے سے منع نہیں کیا۔
میری چیزیں میرے بھائی خود پوسٹ کرکے آتے رہے ہیں”۔
کبھی زندگی سے مایوس ہوئی ہوں؟
“کبھی خوشی کبھی غم، یہ تو زندگی کا لازمی جزو ہیں، سو میرے ساتھ بھی خوشیاں اور غم چلتے رہتے ہیں جو کبھی ہنساتے ہیں تو کبھی رلاتے ہیں”۔
اللہ آپ کو خوشیوں بھری زندگی عنایت فرمائے، اگلے پانچ سال بعد آپ کے کون سے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ جائیںگے؟
“امین، شکریہ، میں لمبے چوڑے منصوبے نہیں بناتی، موجوہ لمحوں کو سب کچھ مانتی ہوں
جو میرے حصے کے کام ہوتے ہیں، انہیں مکمل کرلیتی ہوں”۔
مطالعہ کے ذوق کا کیا عالم ہے؟
“مطالعہ میں ورائٹی آگئی ہے۔ جو بھی کتاب متاثرکن لگے یا دوست پڑھنے کو کہیں تو ضرور پڑھتی ہوں ۔ بہت سی کتب پڑھی ہیں، اولیاءکرام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے احوال زندگی بہت متاثرکن لگتے ہیں،ان سے متعلقہ کتب پڑھیں، شاعری کی ،ناول، افسانے،نفسیات وغیرہ کی کتب بھی پڑھتی ہوں۔ آج کل صابر چوہدری کی کتاب ‘ابنارمل کی ڈائری’ پڑھ رہی ہوں،اس سے پہلے ‘تیسرا تکون’ پڑھی تھی”۔
لکھنے کا کام عمومی طور پر کس وقت کرتی ہیں؟
“کاغذ ،قلم اور موبائل ہر وقت تکیے کے نیچے موجود ہوتے ہیں۔ جب موڈ بنتا، آمد ہوتی ہے تو لکھ لیتی ہوں، ویسے عموماً رات کے دوسرے پہر لکھتی ہوں”۔
آپ کی صبح کب ہوتی ہے؟
“خرابی طبعیت کی وجہ سے کوتاہی ہوجاتی ہے ورنہ کوشش ہوتی ہے کہ نمازفجر کے وقت اٹھوں، سب کے ساتھ ناشتہ کروں”.
ذاتی لائبریری کتنی بڑی ہے؟
“بہت چھوٹی سی ہے، پہلے کتابیں اپنے پاس جمع نہی رکھتی تھی ، کوئی بھی فرد کتاب پڑھنے کے لیے لے جاتا تھا لیکن میں کتاب واپس نہیں مانگتی تھی۔ اب دوبارہ سے اپنے کمرے میں بک ریک بنوایا ہے اور اپنی پسندیدہ کتابیں جمع کرنا شروع کی ہیں”۔
پڑھنے لکھنے کے علاوہ دیگرکون سے مشاغل ہیں؟
“کھانا پکانے کا بہت شوق ہے، لوگوں کی دل جوئی کرنا، بچوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتی ہوں ۔ اپنے بابا بھائیوں ساتھ گپ شپ، فیس بک پر سب سے بہت اچھا تعلق اور واسطہ ہے۔ بہت پیارے اور اچھے لوگ میرے ارد گرد موجود ہیں جن کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرتا ہے میرا”۔
“فوٹو گرافی، پینٹنگ، سلائی سمیت بہت سے شوق ہیں میرے۔ جانور اور پرندے پالنے کا بھی بہت شوق ہے”۔
“گھومنے پھرنے کا شوق ہے،چاہتی ہوں کہ اپنے وطن کا چپہ چپہ دیکھوں، خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہوں ،لوگوں سے ملوں، ان کے دکھ سکھ دیکھوں، سنوں اور محسوس کروں اور پھر ان سب کو اپنے انداز میں صفحہ قرطاس پر اتاروں”۔
کن باتوں پر غصہ آتاہے؟
“امن پسند لڑکی ہوں، فضول کے بحث مباحثوں، چخ چخ سے میری جان جاتی ہے ، سو ایسا ماحول اور باتیں بہت بری لگتی ہیں”۔
فلمیں اور موسیقی پسند ہے؟
“اگر کوئی دوست کسی اچھی مووی یا گانوں کا لنک بھیج دے اور ساتھ تعریف بھی کردے کہ یہ ضرور دیکھنا یا سننا تو موڈ ہوتا ہے تو دیکھ لیتی ہوں ورنہ نہیں”۔
آپ کی خوبیاں کیا ہیں اور خامیاں کیا؟
“الحمدللہ کبھی کسی کے لیے شر کا باعث نہیں بنی، مجھ سے خفا نہیں رہا جاتا زیادہ دیر کسی سے بھی۔ میرے دل میں سب کے لیے بس محبت امن اور دوستی ہے، وہمی ہوں، چیزیں رکھ کر بھول جاتی ہوں،فضول خرچ ہوں اور بہت ساری خامیاں ہیں، اب کتنی گنوائوں”۔
اگرآپ کو اچانک پتا چلے کہ آپ کی زندگی کے صرف 24 گھنٹے باقی ہیں، تو آپ کون کون سے کام سر انجام دیں گی؟
“کاش! ایسا سچ میں ہو تو میں اپنے سب پیاروں سے آخری بار فون پر بات کروں گی۔ اپنے گھر والوں سے، بچوں سے گلے ملوں گی، انہیں خوب سارا پیار کروں گی اور اپنے کمرے میں جا کر، دروازہ بند کرکے نماز نفل توبہ پڑھوں گی اور تلاوت قرآن تب تک کرتی رہوں گی جب تک جان جانِ آفریں کے سپرد نہ ہوجائے”۔