سیدہ فاطمۃ الزہرا۔۔۔۔۔۔
(یہ سیدہ فاطمۃ الزہرا کی تحریر ہے جو نوبرسوں میں مکمل ہوئی۔ اس کا پہلا حصہ 10/4/2016 کو صبح 3:57 بجے لکھاگیا)
پہلا حصہ:
“ریڑھی پہ کٹا ہوا ٹھنڈا ٹھنڈا تربوز بک رہا تھا۔۔۔ شدید گرمی ریڑھی کے پاس گاہکوں کا ہجوم تھا۔ گاڑی تھوڑا آگے بڑھی تو تربوز کے اوپر بھنبھناتی مکھیاں دیکھ کر مجھے اُبکائی آگئی۔۔
مگرہجوم تھا کہ کم ہونے کو نہیں آرہا تھا۔ اس سب میں میری توجہ ایک بچے نے کھینچ لی جو شیرے سے لتھڑے ہاتھوں سے مکمل یکسوئی سے مکھیوں والے تربوز کے مزے لے رہا تھا۔
میں تب تیرہ سال کی ہوں گی اور یہ منظر میری یادوں کے البم میں محفوظ ہوگیا۔ یہ نہیں علم تھا کہ اس منظر نے کبھی ذات کی کوئی گھتیاں سلجھانی ہیں۔
دوسرا حصہ:
میں سولہ سال کی تھی جب یہ یاد بنی ۔
لاہور کے کسی مال میں اپنی پسندیدہ چائے کا انتظار کررہی تھی۔ سامنے کوئی couple گزرا، جس میں کوئی ایک پاکستانی لڑکی اپنے کسی امریکہ سے آئے ہوئے کزن کو پاکستان دکھانے مال لائی ہوئی تھی۔
لڑکے کے لہجے سے میں لاشعوری طور پر متوجہ ہوگئی اور میرا دھیان ان کی باتوں پر چلا گیا۔ لڑکی بضد تھی کہ کافی/ چائے کے لیے رک جایا جائے جب کہ لڑکا اپنے فارن لہجے , اور ‘فارن تاثرات’ میں ایک ہی بات بار بار کر رہا تھا۔
“This water is Unhygienic”
میں حیران رہ گئی کہ میری پسندیدہ جگہ ہے یہ کیسے Unhygienic ہے؟َ
یہ منظر بھی “UNSOLVED” کے album میں save ہوگیا
Combining 1 & 2
میں اُن “اسلامی بچوں” میں سے تھی جو 13 سال کی عمر میں اساتذہ کرام کی طرف دیکھنا بھی غلط سمجھتے تھے اور کچھ ایسی نیچی نظر سے کام لیتے کہ ہمارے اُس دور کے کئی حضرات آج بھی ہمیں بھینگا سمجھتے ہیں۔
مسلہ فیثا غورث تب پیش آیا جب ایسی حیا مہم کے بعد مجھے سماجی علوم( Social Sciences ) پڑھنے کے لئے اپنی نظر کے تمام پردے تار تار ہوتے نظر آنے لگے۔ میں پڑھنا بھے چاھتی تھی مگر اپنی سولہ سالہ “نوباغیت” کے ساتھ کس طرح ان علوم کو پڑھتے ہوئے نظر کی حفاظت کرنی ہے۔۔۔
اس نے مجھے چکر چڑھا دیے
وہ لوگ جو ( Social Sciences )کی بے باکیوں سے ناواقف ہیں وہ یوں سمجھ لیں کہ میری زندگی میں وہ مرحلہ تھا جب اگر کتابوں پہ لکھا جاتا ہوتا تو لکھا ہوتا۔
Not appropriate for under 18
or
Viewer discretion is advised
میرے بنیادی مضامین تھے: نفسیات، عمرانیات، تاریخ اور ادب (انگریزی اور اردو) کا حسب ذائقہ استعمال!
میں دن رات اس کے حل میں لگ گئی کہ اپنے دماغ اور دل (amygdala) کو کیاreason دوں کہ یہ تنہائی میں بھی سوچوں کو پاک رکھے۔
Laptop and net میرے پاس آچکے تھے، بڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ‘بڑی تیز’ بھی ہوچکی تھی۔۔
مگر یہ سوال مزید شدت پکڑ رہا تھا کہ اپنے آپ کے ساتھ کیا کیا جائے کہ میری نظر بچی رہے یہ کافی مشکل دور تھا اور مجھے ابھے کوئی خاطرخواہ solution نہیں مل سکا تھا۔
Psychology کی ایک کلاس میں A Levels کے میرے ایک سر (جو پاک آرمی میں بندے بھی
Recruit کرتے تھے ) Abnormal Psychology میں ایک دن Porn Addiction پہ بات کی-
یہ میرا اس لفظ سے پہلا encounter تھا۔
یہ کیا ہے کیوں ہوتی ہے کیسے ہوتی ہے؟
اس دن مجھے سمجھ آیا کہ دنیا کے جتنے TASTES ہیں یہ دماغ کے ذریعے develop ہوتے ہیں۔ وہ تربوز والا بچہ اس کا اپنے حالات میں مکھیوں والے تربوز کا taste بن چکا تھا-
اس کو دیکھ کر اس کی منہ سے رال اور انگیوں سے رس ٹپک رہا تھا۔ وہ مال والا امریکی بندہ اس کے لیے لاہور کی چائے unhygienic تھی کیوں کہ اس کا ”TASTE” بنا ہوا تھا۔
یہ سب tastes خود develop ہوتے ہیں اور دماغ کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتے ! اُس دن مجھے سمجھ آیا کہ اگر میں نے اکیلے بیٹھ کرلیپ ٹاپ کا آزادانہ استعمال کیا اور exploration کے نام پہ اپنے پاؤں یہ کلہاڑے مارے تو میں اپنی خودکشی کروں گی۔
کیونکہ یہ تھوڑی تھوڑی جھلک۔۔۔ یہ میرے دماغ کو ‘messages’ بھیج کہ میرے tastes develop کر دے گی اور پھر کسی دن مکھیوں والے تربوز یہ میرے منہ میں پانی آنے لگے گا اور میں سمجھوں گی ۔ “آج گناہ سے بچوں گی”
حالانکہ HACKING تو ہو چکی۔
Conclusion
ہمیں غص بصر(نظر نیچی رکھنی) کی فضیلتیں تو پڑھائی جاتی ہیں۔ اس کی science اور
logic نہیں سمجھائی جاتی۔ کہ یہ passwords نہ لگائے جائیں تو آپ کیسے hack کئے جاتے ہیں ۔
یہ نگاہوں کے پردے محفوظ نہ ہوں تو وائرس پوری window ہی اُڑا ڈالتا ہے ۔
میں یہ تحریر ان new windows کو dedicate کرتی ہوں جو جوانی کا پیش لفظ ابھی حیرت سے تک رہے ہیں۔۔
اور میرے آنسو اُن Hacked Windows کے لیے ہمیشہ گرتے رہیں گے۔۔۔۔
وہ چشم پاک بھی کیوں زینت برگستواں دیکھے
نظر آتی ہو جس کو مردِ غازی کی جگر تابی