عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔
گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے سول اداروں کے اخراجات کم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فوج اپنے اخراجات کم کرسکتی ہے تو سول ادارے کیوں نہیں کرسکتے؟
ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم نے ہدایت دی ہے کہ حکومت کفایت شعاری پر سختی سے عمل کرے اور بجٹ میں غریبوں پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے۔
یقیناً حالات کے جس گرداب میں پاکستان پھنس چکا ہے، اسے یہاں سے نکالنے کے لئے جو تدابیر کارگر ہوسکتی ہیں، کفایت شعاری بھی ان میں سے ایک ہے۔ تاہم یہی ایک تدبیر ناکافی ہے۔
عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کے رہنما مسلسل قوم سے کہہ رہے ہیں کہ انھیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے کچھ مشکل فیصلے کرنا پڑرہے ہیں،وہ پاکستانی قوم کو یقین دلارہے ہیں کہ اس مشکل مرحلے سے گزرنے کے بعد پاکستان میں سب اچھا ہوجائے گا، اس لئے قوم قربانی دے۔
کفایت شعاری کا سبق دینے والے حکمران عمران خان کا اپنا یہ حال ہے کہ ان کی ناک کے عین نیچے پنجاب اسمبلی کے ارکان نے اپنی تنخواہوں میں بے تحاشا اضافہ کرالیا لیکن عمران خان سوائے اسے ناپسند کرنے کے ، کچھ نہ کرسکے۔
یادرہے کہ پنجاب اسملبی کے ہر رکن اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ پچیانوے ہزار ہوگئی، بنیادی تنخواہ اسی ہزار روپے کر دی گئی، ہاؤس رینٹ کی مد میں پچاس ہزار روپے ملیں گے، وزیر اعلٰی سوا چار لاکھ روپے اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کو دو لاکھ ساٹھ ہزار روپے تنخواہ ملے گی۔ چھ مرتبہ وزیر اعلٰی پنجاب رہنے والے کو لاہور میں سرکاری رہائش دی جائے گی، لاہور میں اپنی چھت نہ ہونے پر سابق وزرائے اعلٰی کو گھر بھی دیا جائے گا۔
یہ صرف ایک مثال ہے، سینیٹ سے صوبائی اسمبلیوں تک، وفاقی حکومت سے صوبائی حکومتوں تک ، اپنے لئے تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کی ایک دوڑ لگی رہتی ہے۔ یہ لوگ خود ملکی خزانے سے اپنی جیبیں خوب بھرتے ہیں، خوب عیاشیاں کرتے ہیں لیکن قوم کو سادگی، کفایت شعاری کا سبق دیتے ہیں، اس سے قربانی مانگتے ہیں۔
حال ہی میں عمران خان کو سعودی عرب میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنا تھی، وزیراعظم 121 افراد کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ کیا اسے سادگی اور کفایت شعاری کہتے ہیں؟
تحریک انصاف جب اپوزیشن میں تھی تو حکمرانوں کے پروٹوکول پر کڑی تنقید کرتی تھی لیکن اب اسی پروٹوکول سے سیکورٹی کے نام پر خود لطف اندوز ہورہی ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما جو خود بھی پروٹوکول کے مزے لیتے ہیں، وہ اپنی ہی جماعت کے دوسرے رہنمائوں پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ پروٹوکول لیتے ہیں۔
ان حالات میں بہتر ہوگا کہ صدر پاکستان اور صوبائی گورنرز، وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ، وفاقی اور صوبائی وزرا، سینیٹ، قومی وصوبائی اسمبلی کے تمام اراکین اگلے پانچ برس تک بغیر تنخواہوں اور مراعات کے خدمات فراہم کرکے ملک اور قوم کی خاطر قربانی دیں۔
عمران خان جب اپوزیشن رہنما تھے تو حضرت عمربن عبدالعزیز کی مثالیں دیاکرتے تھے۔ شاید خان صاحب کو کسی نے بتایا نہیں کہ ایک بار مدینہ میں قحط پڑگیا تھا، جناب عمربن عبدالعزیز کہیں سے گھر آئے تو بیٹا تربوز کھارہاتھا، انھوں نے اس سے تربوز چھین لیا کہ قوم بھوکی مرے اور امیرالمومنین کا بیٹا تربوز کھائے، یہ کیسے ممکن ہے؟
پاکستان کے حکمران عمران خان کو بھی چاہئے کہ جب تک یہ قوم مشکلات کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے، تب تک وہ اور ان کے تمام رفقائے کار بھی بغیرتنخواہوں اور مراعات کے کام کریں۔