عفت غازیہ کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے، حال ہی میں انھوں نے لندن یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کی ہے۔ نومبر 2015 کے پیرس حملوںکے بعد انھیں آکسفورڈسٹریٹ لندن میں نہایت خوفناک صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب لڑکیوں اور لڑکوں کے ایک گروہ نے باحجاب عفت غازیہ کو دھکا دے کر نیچے گرادیا اور پھر برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں کیونکہ وہ یہاں نئی آئی تھیں اور انگریزی نہیں جانتی تھیں۔
عفت بتاتی ہیں :
” میں اس شہر میں نئی تھی اس لئے اپنی مسلمان پہچان کرانے کے لئے حجاب اوڑھا۔ ان دنوں یورپی ممالک میں اسلاموفوبیا کی لہر بہت زوردار تھی۔ میں ان بہت سے لوگوں میں ایک تھی جو اس لہر کا نشانہ بنے۔ میں اگلے ایک برس تک برطانیہ کے کسی بھی علاقے میں حجاب پہن کر اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کرتی تھی۔ میں حجاب کسی سبب سے نہیں بلکہ محض اس لئے کرتی ہوںکہ میں اس میںاپنے آپ کو مکمل محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ حجاب کا انتخاب اس لئے کیا کہ میں بحیثیت مسلمان اس پر فخر کرتی ہوں۔ یہ مجھے اپنی دینی فرائض پورے کرنے کی ترغیب دیتاہے۔ تاہم یہ مجھے ایسی آزادی نہیں دیتا کہ میںبے پردہ خواتین کے بارے میں فیصلے سناتی پھروں۔ حجاب میری شخصیت اور وجود کا حصہ ہے۔ یہ ایسے وقت میں ایک آزمائش بن جاتاہے جب آپ کو روزگار کی تلاش ہو لیکن آپ کی کوالیفکیشن آپ کے پہناوے کو قراردیاجائے۔ حجاب میرا اپنا انتخاب ہے آزادی کا، یہ مجھے مکمل آزادی فراہم کرتاہے”۔