اغوا، ریپ اور جبری شادیاں شمالی تنزانیہ میں اس قدر عام ہیں کہ اب یہ تینوں جرائم ایک ہی لفظ میں جمع ہوچکے ہیں: ’کوپورا‘۔ یہ لفظ سوکوما قبیلہ کے ان لوگوں کے بارے میں کہاجاتاہے جو دن کی روشنی میں سکول جاتی ہوئی لڑکیوں کو اغوا کرتے ہیں، انھیں طویل عرصہ تک جسمانی اور جنسی تشدد کانشانہ بناتے ہیں۔ شراب، گوشت اور زنا ہی ان کی زندگی ہے۔ یہ تینوں چیزیں ان کے خون میں دوڑتی ہیں اور ان کا طرزحیات بنی ہوئی ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ مرد کی مردانگی انہی تین چیزوں سے ثابت ہوتی ہے۔ یہاں لڑکیوں اور خواتین کے لئے حالات اس قدر سنگین ہیں کہ لوگ اغوا کی واردات ہوتے دیکھتے ہیں لیکن وہ مداخلت کرکے واردات کو ہونے سے روکنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ جب ایسا کوئی مرد کسی لڑکی میںکشش محسوس کرتا ہے تو وہ اس کا اتا پتا پوچھنے لگ جاتا ہے مثلاً وہ کہاں رہتی ہے اور اس کے کیا معمولات ہیں وغیرہ ۔ یہ تفصیلات جمع کرنے کے بعد وہ ایک ایسی جگہ میں تاک لگا کے بیٹھ جاتاہے جہاں اُس لڑکی کو آسانی سے دبوچا جاسکے۔
لڑکیوں کو اغوا کرنے کی یہ ’’روایت ‘‘ اس قدر عام ہوچکی ہے کہ جب کوئی بیٹی لاپتہ ہوجائے تو والدین فوراً نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں، اس کے ساتھ کیا بیتی ہوگی اور پھر وہ تھانے جانے کے بجائے اغوا کارکی تلاش شروع کردیتے ہیں، اُسے ڈھونڈنے کے بعد وہ اس سے لڑکی حوالے کرنے کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ صاف اور سیدھے انداز میں کہتے ہیں:’’ اس لڑکی کے بدلے کتنی گائیں دو گے؟‘‘
تنزانیہ کے غریبوں بالخصوص دیہاتی علاقوں میں رہنے والوں کے لئے بیٹیاں ’’ سرمایہ کاری‘‘ ہوتی ہیں، ان کے بدلے گائیں ملتی ہیں جن سے گھر کی معاشی حالت بہتر ہوتی ہے۔ اگر کسی والدین کی بیٹی اغوا نہ ہورہی ہوتو انھیں فکر لاحق ہوجاتی ہے، وہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں جہاں اسے پرکشش بنوانے کے علاج کراتے ہیں۔ اسے ’عامل‘ کے پاس بھی لے جاتے ہیں، جو لڑکی کے سینے اور ہاتھوں پر ریزر کے ساتھ لکیریں کھینچتاہے تاکہ اسے ’’بری قسمت‘‘ سے نجات ملے۔
ظلم کی شکار ایسی بہت سی لڑکیوں میں سے ایک ’گریس مسنجا‘ ہے۔ اُس نے والدین کے گھر میں بندھی ہوئی گائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا:’’ جب بھی میں انھیں دیکھتی ہوں تو میرے دل میں شدید تکلیف محسوس ہوتی ہے، یہ مویشی مجھے یاد دلاتے ہیں کہ والدین نے کیسے مجھے ان کے بدلے بیچ دیاتھا۔ میں بعض اوقات سوچتی ہوں کہ کاش! میں ایک گائے ہی ہوتی!! ‘‘
گریس مسنجا کے باپ نے اسے 12 گائیوں کے بدلے ایک بڑی عمر کے مرد کو فروخت کیا تھا۔ وہ روزانہ اپنے باپ کے ہاتھوں ڈنڈوں اور بیلٹ سے مار کھاتی تھی کیونکہ وہ اس سے شادی نہیں کرناچاہتی تھی، باپ اُس مرد سے معاہدہ کرچکا تھا، اسے گائیں مل چکی تھیں۔گریس نے محسوس کیا کہ وہ بھی کوئی مویشی ہے جو بیچا اور خریدا جاتاہے۔ اس نے بتایا:’’ بدقسمتی سے ہمارے ’سکما‘ قبیلہ میں ہر بیٹی کی یہی قسمت ہوتی ہے۔ہمارے علاقے ’شنیانگا‘ میں جب بھی کسی لڑکی میں بلوغت کے آثار دکھائی دینے لگتے ہیں تو اسے شادی کے قابل سمجھ لیاجاتاہے۔ ہم وہ دولت ہیں جن سے خاندانوں کی غربت ختم کی جاتی ہے‘‘۔
’’میں اپنے بھائی سے بہت محبت کرتی ہوں تاہم جب میں اپنے ماضی پر نظر ڈالتی ہوں تو میرے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، اس کا ذمہ دار اپنے بھائی ہی کو قراردیتی ہوں۔ میں ایک اچھی طالبہ تھی، پڑھ لکھ کر نرس بننا چاہتی تھی۔پھر ایک دن میرا بھائی غلط قسم کے لڑکوں میں بیٹھنے لگا، اس نے شراب پینا شروع کردی اور سگریٹ نوشی بھی۔ اب وہ کلاس سے بھی غائب ہونے لگا۔ ایک روز ابا نے اسے باہر ان لڑکوں کے ساتھ دیکھ لیا۔ ابا نے گھر آکر ہم دونوں سے کہا کہ بس! اب میں تم دونوں کو سکول نہیں بھیجوں گا، یہ پیسے کا ضیاع ہے۔
ابا نے پرواہ نہ کی کہ میں کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کرتی تھی اور میں پڑھنا چاہتی تھی تاہم میں نے ابا کے کہنے کی بھی پرواہ نہ کی اور اگلے روز سکول چلی گئی۔ اس کے بدلے میں میرے والدین نے مجھے سخت سزا دینے کا فیصلہ کیا، جب میں واپس آئی تو انھوں نے کہا کہ تمہارے لئے کھانا نہیں بچا۔ بہرحال میں نے سکول جانا نہیں چھوڑا۔ نتیجتاً مجھے اکثر بھوکی سونا پڑتاتھا۔پھر ابا نے مجھے اپنے ساتھ کھیتوں میں لے جانا شروع کردیا، اس کے سبب میں سکول نہ جاسکتی تھی۔ میں بہت پریشان تھی کیونکہ اس طرح میں اپنی کلاس میں فیل ہوسکتی تھی۔ جب میری سہیلیاں سکول سے واپس آتیں تو میں کھیت تیار کرنے میں جتی ہوتی تھی‘‘۔
’’چند روز بعد ایک صبح ایک مرد ہمارے گھر آیا، وہ ابا سے کچھ باتیں کرتا رہا۔ میں نلکے سے پانی لینے چلی گئی، واپس آئی تو ماں نے مجھے اُ س مرد سے ملنے کو کہا۔ مرد نے مجھے بتایا کہ اس کا نام سمویل ہے، وہ مجھے پسند کرتاہے اور شادی کرنا چاہتاہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ اس مرد نے میرے والد کو مجھ سے شادی کے بدلے میں 12گائیوں کی پیشکش کی ہے۔ ٹیچرز نے مجھے بتایاتھا کہ تم ابھی چھوٹی ہو،قانونی طور پر شادی کے قابل نہیں۔میں نے ابا کے سامنے انکار کردیا تو وہ کہنے لگے کہ تم سکول سے خارج کردی گئی ہو، اب ہمارے گھر کی روٹیاں توڑنے کے علاوہ کیا کرو گی؟
ابا میرے خوابوں کو جان ہی نہیں رہے تھے کہ میں پہلے تعلیم حاصل کرنا اور پھر شادی کرنا چاہتی تھی۔ یہاں ایک لڑکی کی زندگی میں پیدائش، شادی اور موت، تین ہی سنگ میل تھے۔ اس کی اپنی مرضی کہیں بھی نہیں تھی۔ جب بھی ابا کھیتوں سے واپس گھر آتے تو ایک ہی سوال پوچھتے کہ کیا تم نے اپنی سوچ تبدیل کی ہے؟ ہر روز میرا ’ناں‘ والا ایک ہی جواب ہوتا تھا اور روزانہ مجھے مار پڑتی۔ ڈنڈوں، بیلٹ، ٹھڈوں اور مکوں سے پٹائی ہوتی، اگر میں مار کھا کے گر بھی جاتی تو پھر بھی ابا بس نہ کرتے تھے ، وہ دن بہت اچھا ہوتا تھا جب یہ مار پیٹ پانچ منٹوں میں ختم ہوجاتی تھی‘‘۔
’’ ایک صبح میں گھر میں جھاڑو لگا رہی تھی کہ باہر سے ابا نے مجھے پکارا کہ باہر آؤ۔ میں باہر گئی تو وہاں سیمویل کھڑا تھا ، ابا نے کہا’ یہ تمہیں لینے آیاہے‘۔ یہ وہ آخری الفاظ تھے، پھر ایک سال تک ابا نے مجھ سے کوئی بات ہی نہ کی۔ یہ سن کر ماں رونے لگ گئی، ابا نے اسے کہا کہ لڑکی کو جانے دو ورنہ وہ مویشی واپس لے جائیں گے۔ ابا اور سیمویل نے اچھا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ سیمویل کے ساتھ اس کا ایک دوست بھی تھا جو موٹرسائیکل پر بیٹھا ہواتھا۔ سیمویل نے مجھے دبوچا، میں ماں کو پکارتے ہوئے چیخنے لگی، اِدھر اُدھر کوئی سننے والا نہیں تھا، ہمسائیے بھی اپنے کھیتوں پر گئے ہوئے تھے۔
سیمویل نے مجھے زبردستی اٹھاکر موٹرسائیکل پر اپنے دوست کے پیچھے بٹھایا اور خود مجھے قابو کرکے میرے پیچھے بیٹھ گیا تاکہ میں بھاگ نہ سکوں۔ میں نے اونچی آوازمیں چیختی رہی کہ مجھے جانے دو، میں تمہارے ساتھ نہیں جانا چاہتی، پھر تھک ہار کے میں نے اپنے شوہر کو سمجھانا شروع کردیا ’ میں ابھی چھوٹی ہوں، شادی کے قابل نہیں۔ اگر تم مجھے جانے دو گے تو میں پولیس والوں کو نہیں بتاؤں گی‘۔ سیمویل نے میری باتوں پر توجہ نہ دی۔اس روز مجھے محسوس ہوا جیسے میری زندگی کا خاتمہ ہوگیا ہو، جیسے سب کچھ ختم ہوگیاہو‘‘۔
’’سیمویل کا گھر آیا تو اس نے مجھے کھینچتے ہوئے موٹر سائیکل سے اتارا اور ایک کمرے میں بند کردیا۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ میرے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہے۔ میں بھولی بھالی تھی، اس رات سیمویل نے ریپ کیا، اگلے گیارہ ماہ تک ایسا ہی ہوتا رہا۔ تب میری عمر محض 14برس تھی۔ وہ شام کو باہر سے شراب پی کر آتا تھا، گھر میں کھانا تیار نہ ہوتا تو وہ مجھے مارنا پیٹنا شروع کردیتاتھا، حتیٰ کہ اگر میں سوئی ہوتی تو وہ میری نیند کا خیال کئے بغیر مارپیٹ کرنے لگ جاتا۔ اگر دروازہ کھولنے میں تھوڑی دیر کردیتی تب بھی میری دھلائی ہوتی۔ جسمانی تشدد کے بعد جنسی تشدد کا مرحلہ بھی پیش آتا۔
وہ مجھے کہتا کہ میں نے تمہارے باپ کو درجن بھر گائیں دی ہیں، اس لئے تم میری ملکیت ہو، میں تمہارے ساتھ جیسا چاہوں گا، ویسا ہی سلوک کروں گا۔ میں روزانہ رات کو سوتے ہوئے اٹھ جاتی تھی اور سوچنے لگتی کہ میرے والدین مجھے ملنے کیوں نہیں آتے۔ ہم ایک ایسے دور افتادہ علاقے میں رہتے تھے کہ مجھے راستوں کا علم ہی نہیں تھا کہ کیسے فرار ہوکے تھانے پہنچنا ہے۔ میں نے پولیس کی کرپشن کی کہانیاں بھی سن رکھی تھیں کہ وہ زبردستی کی شادی کرنے والوں پر دھیان نہیں دیتے‘‘۔
’’پھر گیارہ ماہ بعد شوہر کی ایک ایکسیڈنٹ میں ہلاکت مجھے زندگی کے ایک نئے مرحلے پر لے آئی۔ اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ اس کی ہلاکت کی خبر سن کر مجھے خوشی ہوئی ہوگی تو ایسا نہیں تھا۔ اسی وقت سے میں اپنے بیٹے میتھیاس کے بارے میں فکر مند ہونے لگی۔ جب وہ پیدا ہوا تو ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ تمہارا خون اس قدر بہا کہ تم مرنے لگی تھی۔ دراصل میں اس قدر چھوٹی عمر کی تھی کہ اس مرحلے کے لئے میرا جسم تیار ہی نہیں تھا۔ اب میں ایک بیوہ تھی جس کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔
میری تعلیم بھی ادھوری رہ گئی تھی، بھلا اب میں کیسے اس کی پرورش کرسکتی تھی۔ میرے پاس گھر کا کرایہ دینے کو بھی کچھ نہیں تھا، نتیجتاً مجھے صرف اپنے بچے کے کپڑے اٹھا کر گھر چھوڑنا پڑا، میں نے مختلف گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے، بچی کچھی روٹی مانگی اور والدین کے گھر پہنچنے کے لئے کرایہ۔ اگلی رات اسی علاقے میں ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں گزارا جس کی چھت نہیں تھی۔ اس رات بارش بھی خوب برسی۔ اگلی صبح ایک شیلنگ دے کربس میں سوار ہوئی اور ماں باپ کے گھر پہنچ گئی‘‘۔
’’ گھر کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئی تو والدین مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے میتھیاس کو دیکھ کر یہ خیال کیا کہ میں انھیں بچہ دکھانے آئی ہوں۔ پھر میں نے ان کے سامنے سارا قصہ بیان کرنا شروع کردیا۔ والد نے میری کہانی سنی تو سکون کا سانس لیا کہ میں فرار ہوکے نہیں آئی ورنہ روایت کے مطابق سارا جہیز واپس کرنا پڑتا۔ میں نے انھیں وہ سب کچھ بتادیا جو سیمویل پہلے روز سے میرے ساتھ کرتا رہا تھا۔ ابا نے پہلے قبیلے کی روایت کو برا بھلا کہنا شروع کردیا اور کہا ’ میں اس روایت کی پاسداری نہ کرتا تو قبیلے والے مجھے مطعون کرتے‘۔
جوں جوں وقت گزرا، ابا نے میری زبردستی کی شادی کو اپنی غلطی مان لیا اور مجھ سے معافی مانگی۔آہستہ آہستہ ہمارے درمیان بحیثیت باپ بیٹی تعلقات معمول پر آگئے۔ ابا نے کہا کہ وہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں دھرائیں گے اور میری چار سالہ بہن کو مکمل تعلیم دلائیں گے کیونکہ اب میرے پاس پیسہ موجود ہے۔ ویسے دیانت داری سے بات کروں تو مجھے اپنی بہن سے متعلق بھی خطرہ محسوس ہورہاہے۔ ایک دوسرا گھر بنانے کے بعد اب گھر میں صرف چھ گائیں باقی بچی ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ زندگی میں پھر سختی آئی تو میرے ابا اپنا ذہن تبدیل کرلیں گے‘‘۔
’’ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود میرے والد نے ایک این جی او سے مفت ووکیشنل کورس کرنے کے میرے خیال کی مخالفت کی۔ یہ این جی او والے لڑکیوں کو کاروبار کرنا سکھاتے ہیں تاکہ ہم اپنے لئے روٹی کما سکیں۔ بہت سی لڑکیوں نے ٹیلرنگ کے شعبے میں داخلہ لے رکھا ہے جبکہ بعض ویلڈنگ بھی سیکھتی ہیں۔ میں نے والد کی بات نہیں مانی اور ٹیلرنگ سیکھنا شروع کردی۔ کورس مکمل ہوچکاہے، اب میں اپنا کاروبار شروع کروں گی۔ میں اپنے اور میتھیاس کے لئے ایک نئی زندگی شروع کرنا چاہتی ہوں‘‘۔
گریس سے ملاقات کو نو ماہ بیت چکے ہیں، وہ اب بھی اپنے والدین کے گھر میں رہتی ہے، والدین اسے دوسری شادی کے لئے مجبور نہیں کررہے، تاہم اس کے پاس اس قدر رقم نہیں ہے کہ وہ اپنا کاروبار شروع کرسکے۔ وہ ایک مقامی درزی کے پاس جز وقتی ملازمت کرتی ہے۔ اسے روزانہ ایک سو روپے پاکستانی کے برابر معاوضہ ملتاہے۔
چھوٹی عمر کی شادیوں کا موضوع چھڑے تو سب سے پہلے گریس کے ملک تنزانیہ ہی کا نام آتا ہے۔ سن1971ء میں منظور ہونے والے قانون کے تحت والدین کی پسند سے شادی کی کم ازکم حد 15برس رکھی گئی، تاہم عدالت اجازت دے تو 14برس کی لڑکی کو بھی بیاہا جاسکتاتھا۔ پھر 2009ء میں ایک قانون پاس ہوا جس کے تحت نوعمری کی شادی کو جرم قرار نہ دیاگیا، والدین سے صرف یہی کہاگیاکہ وہ بچوں کو نظر انداز ہونے سے بچائیں، انھیں امتیازی سلوک، تشدد( جسمانی اور ذہنی) سے محفوظ رکھیں۔ دوسری طرف یہاں کا ایک قانون’ لوکل کسٹمری لاء 1963‘ تنزانیہ کے قبیلوں کی رسوم و روایات کو بھی تحفظ دیتاتھا۔ تاہم جولائی2016ء میں حکومت نے واضح طورپر نوعمری کی شادیوں پر پابندی عائد کردی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہ پابندی موثر ثابت ہوگی؟
سن1998ء میں تنزانیہ کی حکومت نے لڑکیوں کے ختنہ پر پابندی عائد کی تھی لیکن 2010ء میں حکومت نے ایک جائزے سے معلوم کیا کہ دور افتادہ علاقوں میں 40 فیصد لڑکیوں کا اب بھی ختنہ ہوتاہے۔ رہی بات نوعمری کی جبری شادیوں کی، یہاں ہر 10 میں سے چار لڑکیاں 18برس سے قبل بیاہی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق شنیانگا کے علاقے میں گریس کی طرح 59 فیصد لڑکیوں(بعض کی عمر نو برس بھی ہوتی ہے) کی جبری شادی کی جاتی ہے۔ تاہم یہ اعدادوشمار بھی درست قرار نہیں دئیے جاسکتے کیونکہ اصل تعداد مقامی روایات اور کرپٹ پولیس حکام کی وجہ سے منظر عام پر نہیں آتی۔ عدالتی حکام بھی رشوت لے کر ایسے کیس دبا لیتے ہیں اور خاندان کے افراد رشوت دے کر اپنی بیٹیوں کے برتھ سرٹیفکیٹس میں تبدیلی کرالیتے ہیں۔ایسے میں جبری شادی کا کوئی کیس کیسے سامنے آسکتاہے!
لازم نہیں کہ تنزانیہ میں ایک لڑکی کے بدلے 12گائیں ہی حاصل ہوں۔ دو، تین اور پانچ پر بھی معاہدہ طے پاجاتا ہے۔ حکومت نے 2008ء کے بعد ہر پولیس سٹیشن میں جنسی امتیاز اور جبری شادیوں کی روک تھام کے لئے الگ سے یونٹ قائم کئے ، اگرایسے کسی یونٹ میں کوئی دیانت دار فرد تعینات ہوجائے اور اسے کسی لڑکی کے ساتھ ہونے والے ظلم کی خبر مل جائے تو لڑکی کے والدین اس کی رسائی لڑکی تک نہیں ہونے دیتے، اس کے لئے والدین مختلف جھوٹ بولتے ہیں:’’ لڑکی بیمار ہے‘‘ یا ’’ لڑکی کسی دوسرے گاؤں گئی ہوئی ہے‘‘ یا پھر’’ لڑکی مر گئی ہے۔‘‘
تنزانیہ میں کچھ عرصہ پہلے نوعمری کی شادیوں کی شرح میں کچھ کمی واقع ہوئی تھی تاہم گزشتہ دو برسوں سے یہ شرح دوگنا بڑھ چکی ہے۔ ایک سبب یہ ہے کہ اب پولیس سٹیشن میں خصوصی یونٹ کی بہتری کے لئے حکومت نے مزید فنڈز مختص کرنا بند کردئیے ہیں۔ اس سپیشل ڈیوٹی پر مامور اہلکار کے پاس کوئی آسان ذریعہ آمد و رفت نہیں ہوتا کہ وہ دور افتادہ دیہاتوں میں کسی کیس کا پیچھا کرسکے۔ ایک سبب یہ بھی ہے کہ ایسے جرائم کے عینی شاہد بھی اس قدر استطاعت نہیں رکھتے کہ وہ پولیس سٹیشن میں آئیں۔ نتیجتاً کوئی بھی کیس منطقی انجام تک نہیں پہنچتا۔
ظاہر ہے کہ گاؤں میں ہر گھرانہ دوسرے گھرانے کے حالات سے مکمل باخبر ہوتاہے۔ کسی کے گھر میں اچانک متعددگائیوں کا اضافہ واضح نشانی ہوتی ہے کہ اس گھر کی کسی بیٹی کے ساتھ کچھ غلط ہواہے۔ جبری شادیوں کے خاتمے کے لئے جدوجہد کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم سے وابستہ 53سالہ پاؤلو کیوئی ایک گھرانے کی بابت بتاتی ہے کہ جہاں اچانک 16گائیوں کا اضافہ ہوگیا، پتہ چلا کہ یہ ان کی 13سالہ بیٹی اگنس ڈوٹو کا جہیز تھا۔
جب کسی خاندان کو جہیز ادا کیاجاتاہے تو شادی سے پہلے کھانے کی ایک دعوت کا اہتمام ہوتاہے، ان کے مویشیوں کے گلہ میں غیرمعمولی اضافہ پر سارے دیہاتیوں کو بلایا جاتاہے۔ اگنس ڈوٹو کے خاندان نے جب دعوت کا اعلان کیا تو پاؤلوکیوئی متحرک ہوگئی، اس نے پولیس حکام سے مسلسل رابطہ کرکے انھیں اس شادی پر چھاپہ مارنے پر مجبور کردیا۔ دولہا کو گرفتار کرکے پولیس سٹیشن لے جایاگیا، یہاں اسے اس وقت تک رہنا تھا جب تک مقدمہ شروع نہ ہوتا۔ تاہم دولہا اگلے ہی روز رہا ہوگیا۔ پھر دولہا کہیں نظر آیا نہ ہی وہ 13 سالہ دلہن اگنس ڈوٹو۔
ایسا کیوں ہوا؟ پاؤلوکیوئی نے بتایا کہ آدھی رات کے وقت پولیس سٹیشن کے افسر کی دیہاتیوں کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی تھی۔ اگنس کے والدین نے گاؤں کے بڑوں کو رشوت دی تھی، انھوں نے اس کا کچھ حصہ پولیس افسر کی جیب میں ڈال دیا اور معاملہ ختم۔ تین ماہ بعد رشوت لینے والے افسر نے اعلیٰ حکام کو بتادیا کہ دولہا اور دلہن نہیں مل سکے۔ پاؤلو کیوئی نے پولیس حکام سے اس کیس کی بابت پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ گاؤں کے بڑوں اور لڑکی کے ماں باپ نے پولیس کے ساتھ تعاون سے انکار کردیاتھا ۔ اس کے بعد وہ اس کیس کو کیسے آگے چلاتے، ان کے پاس وسائل بھی نہیں ہیں کہ وہ اس سے زیادہ انویسٹی گیشن کرسکیں ۔
اب نوعمر لڑکیوں کی جبری شادیوں کے خلاف کام کرنے والی این جی او کے ورکرز لوگوں کی نظر میں آجاتے ہیں، کیوئی کے بارے میں بھی لوگوں کو پتہ چل گیا کہ یہی پولیس والوں کو خبر کرتی ہے۔ چنانچہ لوگوں نے اسے دھمکی دی کہ اسے جھونپڑے ہی میں بند کرکے نذر آتش کردیاجائے گا۔ اگرچہ کیوئی ان دھمکیوں کی پرواہ نہیں کرتی تاہم وہ فکر مند ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے اس جرم کو مزید آسان کردیاہے، اب ایسے جرائم کی کھوج لگانا مشکل ہوتاجارہاہے۔
کہاجارہاہے کہ اگنس کی بہن کا جہیز بھی وصول کرلیا گیا ہے، اب مویشی لینے کے بجائے نقد رقم وصول کی گئی جو موبائل کے ذریعے ٹرانسفر ہوئی تھی۔ ایسے میں جبری شادی کے جرم کی کھوج کیسے لگائی جاسکتی ہے۔ ان حالات میں این جی اوز کے دیگر کارکنان نے پولیس کو رپورٹ کرنا بند کردیاہے کیونکہ انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ عدالتوں میں ایسے کیسز بہت کم آرہے ہیں جس کے وجہ سے جبری شادیوں کے خلاف ماحول ختم ہورہا ہے۔
نوعمری کی شادیاں، بھارت خطرناک ترین ممالک میں شامل
’انٹرنیشنل سنٹر فار ریسرچ آن ویمن‘ کے مطابق دنیا کے پہلے 20ممالک، جہاں سب سے زیادہ نوعمری کی شادیاں ہوتی ہیں، میں 15 کا تعلق براعظم افریقہ سے ہے۔ ایشیا میں بنگلہ دیش، بھارت اور نیپال اس فہرست میں شامل ہیں۔
دنیا میں سب سے زیادہ نوعمری کی شادیاں نائیجر میں ہوتی ہیں جہاں75فیصد لڑکیوں کی شادی 18برس سے کم عمری میں کردی جاتی ہے۔ دوسرے نمبر پر چاڈ ہے، جہاں 68فیصد لڑکیاں نوعمری میں بیاہی جاتی ہیں، تیسرے نمبر پر وسطی افریقی جمہوریہ(68فیصد) ہے ، چوتھے نمبر پر بنگلہ دیش(66فیصد) ہے، پانچویں پر گنی(63فیصد)، چھٹے پر موزمبیق(56فیصد)، ساتویں پر مالی(55فیصد)، آٹھویں پر بورقینا فاسو (52فیصد)، نویں پر جنوبی سوڈان(52فیصد)، دسویں پر ملاوی(50فیصد)،گیارھویں پر مڈغاسکر(48فیصد)، بارھویں پر اریٹیریا(47فیصد)، تیرھویں پر بھارت (47فیصد)، چودھویں پر صومالیہ (45 فیصد)، پندرھویں پر سیرالیون (44فیصد)، سولہویں پر زیمبیا(42فیصد)، سترھویں پر ڈومینیکن جمہوریہ (41فیصد)، اٹھارہویں پر ایتھوپیا (41فیصد)،انیسویں پر نیپال(41فیصد) اور بیسویں پر نکارا گوا میں بھی یہ شرح 41 فیصد ہی ہے۔
اس جائزہ رپورٹ سے معلوم ہوتاہے کہ کم آمدنی والے معاشروں میں زیادہ آمدنی والے ممالک کی نسبت کم عمری کی شادیاں دوگنا زیادہ ہوتی ہیں۔ بنگلہ دیش، مالی، موزمبیق اور نائیجر میں آدھی سے زیادہ لڑکیاں 18برس سے کم عمر میں بیاہی جاتی ہیں، یہاں 75فیصد لوگوں کی آمدن روزانہ 2 ڈالرز سے کم ہے۔ کم عمری کی شادی تعلیم یافتہ لڑکیوں میں کم نظرآتی ہے مثلاً موزمبیق میں جو لڑکیاں مکمل طورپر ناخواندہ ہیں، ان کی 60فیصد تعداد 18برس سے پہلے ہی بیاہی گئی، اسی ملک میں جن لڑکیوں کی سیکنڈری تک تعلیم کے بعد شادی ہوئی، ان کی شرح10فیصد تھی۔ اس سے بھی زیادہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
ترقی پذیر دنیا میں ایک تہائی لڑکیوں کی 18برس سے کم عمر ی میں شادی ہوتی ہے جبکہ ہر نو لڑکیوں میں سے ایک کی شادی 15برس سے بھی کم عمری میں کردی جاتی ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کی پوزیشن بہت بہتر ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق تین فیصد لڑکیاں ایسی ہیں جن کی شادی 15برس تک کی عمر میں ہوتی ہے۔ 21فیصد لڑکیوں کی شادی 18برس سے کم عمری میں ہوتی ہے۔ پاکستان میں کم عمری کی شادیاں سب سے زیادہ صوبہ سندھ میں ہوتی ہیں جہاں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔
مغربی ملکوں کی کم عمر لڑکیوں کو درپیش خطرات
دنیا بھر کی کم عمر لڑکیوں کو خطرہ صرف کم عمری کی شادی کا نہیں ہے، ترقی یافتہ ممالک میں جنسی تشدد زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔ صرف امریکہ میں 11 سے 17 برس کی عمر کی 29فیصد لڑکیوں کو ریپ کا شکار ہونا پڑا۔12.3فیصد لڑکیاں ایسی تھیں جن کا پہلی بار ریپ 12برس کی عمر میں ہوا۔ کالج کی ہر چار طالبات میں سے ایک طالبہ ریپ کا نشانہ بنی۔ ایک اندازے کے مطابق16سے 19برس کی امریکی لڑکیاں چارگنا زیادہ ریپ کا شکار ہوتی ہیں۔
امریکہ میں صرف ایک سال کے اندر 78000 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنے۔ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ اکثر کیسز پولیس حکام کے علم میں ہی نہیں آتے۔ ایف بی آئی کے مطابق 54 فیصد ریپ کیسز پولیس سٹیشن میں درج نہیں کرائے جاتے جبکہ امریکی جسٹس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق یہ شرح 74فیصد ہے۔ اس سے مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔
بحیثیت مجموعی بات کی جائے تو دنیا میں سب سے زیادہ بچیاں براعظم آسٹریلیا کے ممالک میں گینگ ریپ کا شکار ہوتی ہیں۔ اس کے بعد بالترتیب افریقہ، امریکا اور کینیڈا، یورپ اور جنوبی امریکہ کا ذکر آتاہے۔ براعظم ایشیا اس فہرست میں سب سے آخر میں آتا ہے۔ ایشیائی ممالک میں بھارت سب سے زیادہ بدنام ہے جہاں47.06 فیصد بچیاں جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ بھارت میں آندھرا پردیش، آسام، بہار اور دہلی کی ریاستیں لڑکیوں کے لئے سب سے زیادہ خطرناک واقع ہوئی ہیں۔
آپ یہ حقیقت جان کر بھی حیران ہوں گے کہ مغربی ممالک کی خواتین دنیا میںسب سے زیادہ گینگ ریپ کا شکار ہوتی ہیں، ایسے ممالک میں سویڈن کا نام پہلے نمبر پر ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ خوشحال ملک سمجھا جاتاہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کے بعد بالترتیب جمیکا،بولیویا، کوسٹاریکا،نیوزی لینڈ، بلجئیم،امریکہ، برازیل، ناروے،فن لینڈ، ہانگ کانگ، سلواکیہ،یونان ، کینیڈا،جاپان، متحدہ عرب امارات، سربیا اور انڈونیشیا کا نمبرآتاہے۔
نوعمری کی شادی کے نقصانات
دنیا میں نوعمری کی شادیوں کے رجحان میں کمی واقع نہیں ہورہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے پاپولیشن فنڈ کے مطابق اگر اسی رفتار سے نوعمری کی شادیاں ہوتی رہیں تو دنیا میں سن2020ء تک ہرسال 14 لاکھ لڑکیاں نوعمری میں بیاہی جائیں گی۔ 140 ملین لڑکیوں کی شادی 18سال سے کم عمر میں جبکہ 50ملین لڑکیاں15سال سے کم عمری میں ہوگی۔ اس کے نتیجے میں لڑکیاں تعلیم
سب سے بڑا خطرہ حمل اور وضع حمل کے دوران پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق جن بچیوں کی شادی 15برس سے کم عمری میں ہوتی ہے، وہ 20سال کی عمر میں بیاہی جانے والی لڑکیوں سے زیادہ دوران حمل اموات کا شکار ہوجاتی ہیں۔ نوعمر ماؤں کے بچوں میں اموات کی شرح 19سالہ ماؤں کی نسبت 60 فیصد زیادہ ہوتی ہے۔ نوعمر لڑکیوں کی بڑی عمر کے مرد سے شادی کے خطرات میں ایڈز بھی شامل ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن لڑکیوں کی شادی 18برس سے پہلے ہوتی ہے، انھیں گھریلو تشدد کا نشانہ نسبتاً زیادہ بننا پڑتا ہے۔ مثلاً بھارت کی دو ریاستوں کا جائزہ لیاگیا، وہاں ایسی بیویوں پر غیر معمولی تشدد کیا جاتاہے، تھپڑ مارے جاتے ہیں اور خوف وہراس کا شکار رکھا جاتاہے۔ ماہرین متفق ہیں کہ نوعمری کی شادی سے ایک لڑکی اپنے بچپن اور لڑکپن کی خوشیوں سے محروم ہوجاتی ہے۔ دراصل وہ جسمانی اور جذباتی اعتبار سے شادی کے لئے تیار ہی نہیں ہوتی۔
ایسی لڑکی اُس تعلیم و تربیت سے محروم رہتی ہے جو ایک بیوی کے لئے از حد ضروری ہوتی ہے، وہ بے خبر رہتی ہے کہ شوہر کے ساتھ ایک اچھی اور مفید زندگی کیسے گزارنی ہے، نتیجتاً میاں بیوی میں لڑائی جھگڑوں اور مارپیٹ کی نوبت جلد آجاتی ہے، وہ ان مہارتوں اور سمجھ داری سے بھی بے بہرہ رہتی ہے جو بچوں کی پرورش کے لئے اہم ہوتی ہے، یوں بچے سمجھدار ماں کے بجائے ایک بے شعور ماں کی گود میں پلتے بڑھتے ہیں، وہ ان صلاحیتوں اور مہارتوں سے بھی محروم رہتی ہے جو گھرداری کے لئے لازم ہوتی ہیں، ایسے گھرانے مسائل کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ کم عمر بیویوں/ماؤں کے گھرانے غربت کا شکار بھی ہوتے ہیں اور وہاں صحت کے مسائل بھی نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔
جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہوتی ہیں، انھیں صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہوتاہے اور ایسے نقصانات سے دوچار ہوتی ہیں جن کے اثرات طویل مدت تک ان کی زندگی میں رہتے ہیں۔