وسعت اللہ خان۔۔۔۔۔۔
انگریزی کا محاورہ ہے ” بارکنگ اپ دی رانگ ٹری “۔یعنی غلط درخت پر بھونکنا۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ کتا کسی شکار کا تعاقب کرتا ہے اور شکار تیزی سے ایک درخت پر چڑھ کر دوسرے پر چھلانگ مارتے ہوئے یہ جا وہ جا۔ مگر کتا پہلے درخت کے نیچے ہی کھڑا بھونکتا رہتا ہے ۔بہت دیر بعد احساس ہوتا ہے کہ شکار تو کب کا کہیں سے کہیں نکل لیا اور درخت بے قصور ہے۔
اب ذرا غور فرمائیے کہ ہم سب روزانہ کتنی بار یہ حرکت بذاتِ خود فرماتے ہیں۔ پھل یا سبزی مہنگے ملیں تو گالیاں ٹھیلے والے کو پڑتی ہیں حالانکہ وہ غریب تو خود اپنا سامان منڈی کے کسی ذخیرہ اندوز آڑھتی سے مہنگے داموں خرید کر لایا ہے اور اپنا منافع رکھ کے آپ کو فروخت کر رہا ہے۔
پٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے لیٹر کا اضافہ ہو جائے تو موٹر سائیکل سوار پٹرول پمپ والے لڑکے پر غصہ نکالتا ہے۔ جب کہ اضافہ تو اوگرا کی سفارش پر حکومت کرتی ہے۔اس غریب لڑکے کا اس پورے معاملے سے نہ لینا ایک نہ دینا دو۔
میں نے تو کئی معصوم صارفین کو بجلی اور گیس کے بل میں اضافے کی شکایت بھی اس مسکین بینک کیشئر سے کرتے دیکھا ہے جس کا کام بس اتنا ہے کہ آپ سے بل لے کر پیسے گنے اور جمع کر کے مہر لگا کے بل واپس کر دے۔
بینکوں نے کریڈٹ کارڈ کی شکایات کے لیے کال سنٹرز کے مخصوص نمبر دے رکھے ہیں۔ میں نے کئی پڑھے لکھے کریڈٹ کارڈ ہولڈرز کو ان نمبروں پر فون کر کے کال اٹینڈ کرنے والے آپریٹرز کو گالیاں دیتے سنا ہے ۔گویا کریڈٹ کارڈ سٹیٹمنٹ میں غلطی کے ذمہ دار دراصل یہی دیہاڑی دار آپریٹرز ہیں۔حالانکہ ان کا کام تو بس آپ کی بات یا شکایت سن کر کارروائی کے لیے آگے بڑھانا ہے۔آگے بینک جانے اور آپ ۔
عید کے موقع پر من مانے کرائے ٹرانسپورٹ کمپنی کے سیٹھ کی تجوری میں جا رہے ہیں مگر مشتعل مسافروں کے ہاتھ بس ڈرائیور اور کلینر کے گریبان پر ہیں۔ ہر بازار میں مفت پارکنگ کی جگہوں پر بھی پیسے بدمعاشیہ وصول کر رہی ہے مگر گاڑی والے پارکنگ کی پرچی تھمانے والے اس لمڈے کی ماں بہن ایک کر رہے کہ جو خود دو ڈھائی سو روپے کی دہاڑی پر یہ گالیاں سننے پر مجبور ہے۔اس بچارے کو تو اصلی بدمعاش کا نام تک نہیں معلوم ۔
اور یہی سب حرکتیں کرنے والے ہم اور آپ اب پی ٹی آئی حکومت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان بچاروں کا بس اتنا قصور ہے کہ انہیں بچپن سے حکومت سنبھالنے کا شوق تھا۔ بادشاہ گروں نے ان کا شوق پورا کر دیا اور ظالم مجمع کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیا۔
بالکل ایسے ہی جیسے چھوٹا بچہ جب گاڑی چلانے کی مسلسل ضد کرتا ہے تو بڑا بھائی یا باپ اسے گود میں بٹھا لیتا ہے اور بچہ سٹیرنگ گھماتے ہوئے سمجھتا ہے کہ وہی ڈرائیو کر رہا ہے۔
اب کہیں آٹھ نو ماہ بعد احساس ہو رہا ہے کہ یہ حکومت نہیں چا کری ہے اور کام بس اتنا ہے کہ روزانہ داتا صاحب جانا ہے ، لنگر سے خود بھی پیٹ بھرنا ہے اور شاپر ڈبل کروا کے مالک کے لئے بھی کھانا لانا ہے۔
ممکن ہے میں مبالغہ کر رہا ہوں اور صورتِ حال ایسی نہ ہو۔چلئے اس کو یوں سمجھ لیتے ہیں کہ گورنمنٹ لمیٹڈ کمپنی میں پی ٹی آئی کو اکیاون فیصد شئیرز دئیے گئے اور انچاس فیصد دیگر اداروں نے اپنے ہاتھ میں رکھے۔خان صاحب کو کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا چیرمین بنا دیا گیا۔
مگر سٹاک کے حالات بہتر ہونے کے بجائے کچھ اتنی تیزی سے بگڑے کہ پی ٹی آئی کو اپنے تیس فیصد حصص دیگر شئیرز ہولڈرز کو فروخت کرنے پڑ گئے تاکہ کمپنی دیوالیہ نہ ہو جائے۔اب پی ٹی آئی کے پاس اکیس فیصد اور دیگر کے پاس اناسی فیصد شئیرز آ گئے ہیں۔پالیسی اکثریتی شیئر ہولڈرز کی چل رہی ہے مگر خان صاحب بدستور اعزازی چیرمین ہیں ۔تاکہ جس کو جو بھی اچھا برا کہنا ہے وہ ان کی تصویر سے کہہ لے اور توجہ پسِ تصویر نہ جائے۔
بہت عرصے پہلے اخبارات میں خبریں آتی تھیں کہ سادہ لوح افراد کو ریکروٹنگ ایجنٹ نے دوبئی کا جھانسہ دیا اور دو دن کے سفر کے بعد لانچ کو گوادر کے قریب ویرانے میں لنگر انداز کر کے مسافروں سے کہا لو بھئی ، تمہارے پیسے پورے ۔دوبئی آ گیا۔
مجھے لگتا ہے موجودہ حکومت کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہاتھ ہوا ہے۔اسے کچھ کہنا بارکنگ اپ دی رانگ ٹری ہے۔
(بی بی سی اردو)