رمضان المبارک، جامع مسجد دہلی

رمضان المبارک:ایک مہمان رخصت ہونے کو ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ملک عبدالجبار۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ مبارک رمضان کو “رمضان” کے نام سے کیوں یاد کیا جاتا ہے۔ رمضان ’’رمض ‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دھوپ کی شدت سے پتھر، ریت وغیرہ کے گرم ہونے کے ہیں۔ اس لیے جلتی ہوئی زمین کو ’’رمضا‘‘ کہاتا ہے جب روزے فرض ہوئے تو رمضان مبارک سخت گرمیوں میں تھا۔

نیکیوں برکتوں کا مہینہ جس کے آنے سے مسجد کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں اس ماہ میں اللہ تعالیٰ رزق میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرہ عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے۔

جن مسلمانوں نے اس عظیم مہینے کے رتبے کو پہچانا وہ اپنے دامن میں رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو اس کی اہمیت کو نہیں پہچان سکتے اس مہینے کو بھی عام مہینوں کی طرح گزار دیتے ہیں وہ ہر خیر سے محروم ہو جاتے ہیں۔

اس مہینے میں قرآن پاک نازل ہوا اس لیے تراویح میں قرآن پڑھا جاتا ہے اور ہر گھر سے تلاوت کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ اس ماہ رمضان کی برکت کی بدولت شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے ۔جنت کے دراوزے کھول دیے جاتے ہیں ، اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔

قرآنِ حکیم میں روزہ کی فرضیت کے بارے میں ﷲ تعالیٰ نے فرمایا :
يأَيُّهاَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo
البقرة، 2 : 183

’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤo‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِ يْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَه. مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه.
بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب صوم رمضان احتسابا من اليمان، 1 : 22، رقم : 38

’’جس نے بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا :

کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَائَ اﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی : إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ.

ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل الصيام، 2 : 305، رقم : 1638

’’آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا ﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ اعمال صالحہ کا ثواب صدقِ نیت اور اخلاص کی وجہ سے دس گنا سے بڑھ کر سات سو گنا تک بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے لیکن روزہ کا ثواب بے حد اور بے اندازہ ہے۔ یہ کسی ناپ تول اور حساب کتاب کا محتاج نہیں، اس کی مقدار ﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ روزے کی اس قدر فضیلت کے درج ذیل اسباب ہیں :

پہلا سبب : روزہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتا ہے اسے ﷲ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا جبکہ دوسری عبادتوں کا یہ حال نہیں ہے کیونکہ ان کا حال لوگوں کو معلوم ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ خالص ﷲ تعالیٰ کے لئے ہی ہے۔

دوسرا سبب : روزے میں نفس کشی، مشقت اور جسم کو صبر و برداشت کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس میں بھوک، پیاس اور دیگر خواہشاتِ نفسانی پر صبر کرنا پڑتا ہے جبکہ دوسری عبادتوں میں اس قدر مشقت اور نفس کشی نہیں ہے۔

تیسرا سبب : روزہ میں ریاکاری کا عمل دخل نہیں ہوتا جبکہ دوسری ظاہری عبادات مثلاً نماز، حج، زکوٰۃ وغیرہ میں ریاکاری کا شائبہ ہو سکتا ہے۔

چوتھا سبب : کھانے پینے سے استغناء ﷲ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ روزہ دار اگرچہ ﷲ تعالیٰ کی اس صفت سے متشابہ تو نہیں ہو سکتا لیکن وہ ایک لحاظ سے اپنے اندر یہ خلق پیدا کر کے مقرب الٰہی بن جاتا ہے۔

پانچواں سبب : روزہ کے ثواب کا علم ﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں جبکہ باقی عبادات کے ثواب کو رب تعالیٰ نے مخلوق پر ظاہر کر دیا ہے۔

چھٹا سبب : روزہ ایسی عبادت ہے جسے ﷲ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا حتی کہ فرشتے بھی معلوم نہیں کر سکتے۔

ساتواں سبب : روزہ کی اضافت ﷲ ل کی طرف شرف اور عظمت کے لئے ہے جیسا کہ بیت ﷲ کی اضافت محض تعظیم و شرف کے باعث ہے ورنہ سارے گھر ﷲ کے ہیں۔

آٹھواں سبب : روزہ دار اپنے اندر ملائکہ کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے وہ ﷲ کو محبوب ہے۔

نواں سبب : جزاء صبر کی کوئی حد نہیں ہے اس لئے رمضان کے روزوں کی جزاء کو بے حد قرار دیتے ہوئے ﷲ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف منسوب کیا کہ اس کی جزاء میں ہوں۔

حضرت جبرائیل علیہ سلام نے دعا کی کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کو رمضان کا مہینہ ملے اور وہ اپنی بخشش نہ کرواسکے، جس پر حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا آمین! حضرت جبرائیل علیہ سلام کی یہ دعا اوراس پر حضرت محمد ﷺ کا آمین کہنا اس دعا سے ہمیں رمضان کی اہمیت کو سمجھ لینا چاہئے۔

رمضان شریف کا آخری عشرہ چل رہا ہے جو جہنم سے خلاصی کا عشرہ ہے ۔ اس آخری عشرے میں مسلمان اعتکاف کا اہتمام کرتے ہیں اور طاق راتوں میں عبادت کا اہتمام خصوصی طور پر کیا جاتا ہے۔ جن مسلمانوں نے رمضان کے سارے روزے رکھے ، تراویح جیسی عظیم عبادت میں اپنا حصہ ڈالا ان مسلمانوں نے اس ماہ کی برکتیں سمیٹ لیں۔

جیسے روزہ جسم کی طہارت اور پاکی کا ذریعہ ہے اسی طرح زکواۃ مال کی طہارت کا پاکی کا ذریعہ ہے۔ صاحب زکواۃ کو چاہیے وہ دل کھول کر اپنی زکواۃ ادا کریں تاکہ غریب نادر اور مستحق لوگوں بھی عید جیسی خوشیوں میں شامل ہو سکیں۔ چند دن بعدیہ برکتوں سعادتوں مغفرتوں والا مہینہ ختم ہونےکو ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اس ماہ رمضان کی برکت سے ہمارے گناہوں کی مغفرت فرمائے، اس ماہ رمضان کی بدولت مسلمانوں میں اتحاد بھائی چارے جیسی دولت نصیب فرمائے۔آمین۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں