مدثرمحمودسالار۔۔۔۔۔۔۔
”آپ کو کوئی فرد آزادی فراہم نہیں کرے گا، مساوات اور انصاف بھی نہیں، غرضیکہ کچھ بھی نہیں، آپ مرد ہیں تو آپ کو خودحاصل کرناہوگا۔“
”میڈیا روئے زمین پر سب سے طاقتور چیزہے، یہ معصوم کو مجرم اور مجرم کو معصوم بناسکتاہے۔اسی کو طاقت کہتے ہیں۔سبب یہ ہے کہ یہ لوگوں کے ذہن کو قابو میں کرلیتاہے“۔
یہ اقوال ہیں میلکم ایکس کے، جسے دنیا ملک الشباز کے نام سے بھی جانتی ہے، جس کا پیدائشی نام میلکم لٹل تھا۔ وہ 19 مئی 1925ءکو اوماہا نیبراسکا میں پیدا ہوئے۔والدہ کا نام لوئس نورٹن تھا اور والد کا نام ارل لٹل۔
والدہ گھریلو خاتون تھیں،ان کے آٹھ بچے تھے۔ والد بیپٹسٹ فرقہ کے مبلغ تھے اور مشہور لیڈر مارکس گیروے کے حامی۔ یادرہے کہ مارکس گیروے ایک نیگروز قومیت آرگنائزیشن کے لیڈر تھے۔
ارل لٹل معاشرتی انصاف اور برابری کے لیے مختلف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، انھوں نے اپنی اس جدوجہد کی وجہ سے دشمن بھی بنالیے تھے۔ انھیں کئی بار قتل کی دھمکیاں ملیں مگر وہ اپنے مشن سے باز نہ آئے۔
گوروں کی حاکمیت اور فوقیت کے لیے کام کرنے والی ایک آرگنائزیشن (بلیک گروپ)ان کی شدید مخالف تھی، وہ دو بار ارل لٹل کو اہل خانہ سمیت گھربدر کرنے کی کوشش میں ملوث پائی گئی۔
تمام تر مخالفت اور دشمنی کے باوجود ارل کا نظریہ یہی تھا کہ سماج دشمن عناصر کو توجہ نہ دی جائے، بدلے یا انتقام کی راہ پر چلنا اصل میں اپنی منزل سے ہٹنا ہے۔
1929ءمیں ارل لٹل کا گھر آتش زدگی کے ذریعے جلا کر زمین بوس کردیا گیا۔ پولیس نے اسے حملے کے بجائے حادثہ قرار دیا۔ اس واقعہ کے دو سال بعد ارل لٹل کی لاش قصبے کے ریلوے لائن ٹریک پر پائی گئی اور پولیس نے اسے بھی قتل کے بجائے حادثہ ہی گردانا، مگر ارل کے اہل خانہ کو یقین تھا کہ یہ قتل بلیک گروپ نامی تنظیم نے ہی کیا ہے۔
اپنے عظیم شوہر کے قتل کے بعد سالہا سال تک میلکم کی والدہ لوئس کو ذہنی انتشار کا سامنا کرنا پڑا،ان کی حالت اتنی بگڑ گئی کہ انہیں ذہنی امراض کے ہسپتال میں داخل کروانا پڑا۔ لوئس کے بچوں کو ان سے الگ کرکے مختلف یتیم خانوں اور بچوں کی نگہداشت کے اداروں کے سپرد کردیا گیا۔
بچپن اور لڑکپن مشقت سے بھرپور گزار کر میلکم اپنے دوست شارٹی کے ساتھ بوسٹن میں شفٹ ہوگئے۔ 1946ءمیں میلکم اور ان کے دوست شارٹی کو ڈاکہ زنی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔
میلکم کو دس سال کی سزائے قید سنائی گئی مگرسات سال کے بعد میلکم کو جیل سے رہا کردیا گیا۔ جیل میں میلکم ایکس کا زیادہ وقت پڑھائی لکھائی میں گزرا، اسی دوران اس کا تعارف تنظیم ’نیشن آف اسلام‘ سے ہوا۔
میلکم نے تنظیم کے رہنما علیجاہ محمد کی تعلیمات کے متعلق پڑھنا شروع کیا۔علیجاہ محمد کا کہنا تھا کہ سفید فام افراد جان بوجھ کر افریقن امریکن نیگروز کو سوسائٹی میں آگے بڑھنے سے روکتے ہیں اور کالے لوگوں کو سیاست، معیشت اور معاشرتی کامیابی سے دور رکھے ہوئے ہیں۔
’نیشن آف اسلام‘ کے دیگر مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ان کی اپنی الگ ریاست ہونی چاہیے اور اس ریاست کے ساتھ سفید فام افراد کا کوئی لینا دینا نہ ہو۔
1952ءمیں میلکم کو پیرول پر رہائی ملی تو وہ تنظیم کے بے لوث اور جانثار رکن بن گئے۔ میلکم کے مطابق ان کے نام کا حصہ ”لٹل“ دراصل ان کا غلامی والا نام ہے چنانچہ ’نیشن آف اسلام‘ میں شمولیت کے بعد انہوں نے اپنا نام میلکم ایکس رکھ لیا۔
بے حد ذہین میلکم کو مبلغ اور ’نیشن آف اسلام‘ کے نمائندے کے طور پر بہت شہرت ملی۔ علیجاہ محمد نے میلکم ایکس کو ڈیٹرائیٹ اور ہارلیم میں مساجد بنانے کی ذمہ داری سونپی۔
میلکم ایکس نے اخبارات میں کالم ، ریڈیو پر تقاریر اور ٹیلی ویژن پروگراموں سے ’نیشن آف اسلام‘ کا پیغام پورے امریکہ میں پھیلانے کی ہرممکن کوشش کی۔ان کی شخصیت اور قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت ’نیشن آف اسلام‘ کا پھیلائو تیزی بڑھا۔ ایک اندازے کے مطابق 1952ءسے 1963ءتک نیشن آف اسلام کے ماننے والوں کی تعداد پانچ سوسے بڑھ کر تیس ہزار تک پہنچ گئی۔
میلکم اس دور میں میڈیا پر آنے والے موثر ترین شخص تھے۔ ان کی شہرت اس قدر بڑھی کہ مائک والس کے ساتھ اُس وقت کے طویل ترین ٹیلی ویژن پروگرام ” نفرت کو جنم دینے والی نفرت“ کے عنوان سے مسلسل ایک ہفتہ میلکم ایکس کے انٹرویوز اور لیکچرز دکھائے گئے۔
اس پروگرام کے دوران ’نیشن آف اسلام‘ کے بنیادی مقاصد پر تفصیل سے بات کی گئی۔ نیز اسی دوران میلکم ایکس کو بھی ’نیشن آف اسلام‘ کے اہم ترین رہنما ہونے کے حوالے سے شہرت ملی۔
بے پناہ شہرت اور عوام میں اپنا اثر رکھنے کی بدولت جلد ہی میلکم ایکس کی مشکلات بڑھنے لگیں۔ وہ اس قدرمشہور ہوگئے کہ ان کا اثرو رسوخ تنظیم کے اصل لیڈر علیجاہ محمد سے زیادہ ہوگیا۔ یہ بات علیجاہ محمد اور اس کے قریبی ساتھیوں کو کھٹکنے لگی تھی۔
1960ءمیں علیجاہ اور میلکم ایکس میں اختلاف بڑھنا شروع ہوا۔ چونکہ میلکم ہی تنظیم کے نمائندہ کے طور پر میڈیا سے روابط رکھتے تھے، اس لئے حکومت کو بھی میلکم کا بڑھتا ہوا اثر ورسوخ کھٹکنے لگا۔
’نیشن آف اسلام‘ میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے ایف بی آئی نے میلکم کی سرگرمیوں کی نگرانی شروع کردی حتی کہ ایف بی آئی کا ایک ایجنٹ میلکم کے محافظین میں شامل ہوگیا۔
1963ءمیں جب سول رائٹس کی تحریک اپنے عروج پر تھی اور میلکم ایکس اس تحریک کی قیادت کررہے تھے تو اچانک میلکم ایکس پر انکشاف ہوا کہ ان کے قائد اور استاد علیجاہ محمد اخلاقی جرائم کے مرتکب ہورہے ہیں۔
ابتدا میں میلکم ایکس نے زیادہ توجہ نہ دی کیونکہ وہ تبلیغ کے سلسلے میں ملک کے دوروں میں مصروف رہتے تھے۔ علیجاہ محمد پر الزام تھا کہ وہ ’نیشن آف اسلام‘ کی چھ خواتین ممبران کے ساتھ جنسی تعلق میں ملوث ہیں۔
میلکم ایکس اپنے قائد علیجاہ محمد سے بہت عقیدت رکھتے تھے، حتی کہ انھیں اس وقت کا پیغمبر سمجھتے تھے۔ چنانچہ میلکم کے لیے اپنے استاد اور مربی پر لگنے والے الزامات کو سچ مان لینا آسان نہ تھا ۔
ایک انٹرویو میں میلکم ایکس نے بتایا کہ علیجاہ محمد کے بیٹے وارث دین محمد سے انھیں معلوم ہوا کہ علیجاہ محمد کے بارے میں جو باتیں تیزی سے پھیل رہیں تھیں ان کے پیش نظر وہ خود یعنی وارث دین محمد اُن چھ خواتین سے فرداً فرداً ملا۔
وارث نے بتایاکہ ”میں ایک خاتون سے ملنے گیا اور ان سے پوچھا کہ یہ کیا قصہ ہے؟ وہ مجھے گھر کے اندر لے گئیں، مجھے ایک بچے سے ملایا اور کہا کہ یہ تمہارا بھائی ہے۔ وارث کے مطابق بچہ میرے باپ سے مشابہت رکھتا تھا، یہ بات میرے لیے شدید صدمہ تھی“۔
اس کا پس منظر یہ تھا کہ ان چھے خواتین پر جسم فروشی کا الزام لگا کر انھیں’نیشن آف اسلام‘ کی خودساختہ عدالت میں پیش کیاگیا، بطور جج علیجاہ محمد نے فیصلہ سنایا کہ ان خواتین کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے، چونکہ یہ اسلام کی رو سے زنا کی مرتکب ہوئی ہیں تو انھیں دیگر خواتین اور سوسائٹی کے افراد سے دور رکھا جائے۔
اس بات کا گمان کسی کونہیں ہوسکتا تھا کہ دراصل علیجاہ محمد ہی وہ شخص ہے جو ان خواتین کے ساتھ جنسی تعلق کا مرتکب ہوا۔یہ خواتین اپنے قائد کی اس قدر معتقد تھیں کہ اپنی صفائی میں علیجاہ محمد کی شخصیت پر سے پردہ نہ اٹھا سکیں۔
وارث دین محمد سے ملاقات کے بعد میلکم ایکس نے علیجاہ محمد سے بات کی۔ میلکم کے استفسار پر آخرکار علیجاہ نے اعتراف کرلیا کہ وہی ان خواتین سے غیر اخلاقی تعلق کے مرتکب ہوئے۔ میلکم نے اصرار کیا کہ تنظیم کی عدالت میں یہ معاملہ زیر بحث لایا جائے اور علیجاہ عدالت میں وضاحت پیش کریں کہ بطور مسلمان وہ اس تعلق کو زنا سمجھتے ہیں یا نہیں؟
علیجاہ نے اپنی تنظیمی عدالت میں جانے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے میلکم سے کہا کہ چونکہ نبی کریم محمدﷺکی بھی ازدواج کی تعداد چار سے زیادہ تھی تو مجھے بھی بطور ”نبی“(نعوذباللہ من ذالک) اس بات کا شرعاً حق ہے کہ میں چھے یا اس سے بھی زیادہ بیویاں رکھ سکوں۔
میلکم کہتے ہیں:” میں نے علیجاہ محمد کی توجہ دلائی کہ اگر وہ بطور ان چھے خواتین سے تعلق کو جائز سمجھتے ہیں تو انہیں ان خواتین کو اپنی بیویاں بنا کر انھیں معاشرے میں عزت اور مقام دینا چاہئے۔ ان خواتین سے پیدا ہونے والی اولاد کو علی الاعلان اپنی اولاد مانیں اور انھیں ان کا قانونی اور شرعی حق دیں،ان خواتین کو بدنام کرکے ان کی زندگی اجیرن نہ کریں۔
تاہم علیجاہ محمد نے ان خواتین سے اپنے تعلق کو عوام الناس میں قبول کرنے سے انکار کردیا، یہاں سے میلکم ایکس اور علیجاہ محمد میں نزاع کا آغاز ہوا۔
علیجاہ کے ان اخلاقی جرائم پر میلکم ایکس کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی اور اس کی جو عقیدت تھیں وہ بھی مجروح ہوئی۔ علیجاہ نے میلکم سے درخواست کی کہ وہ اس سکینڈل اور ان ناجائز بچوں کے معاملے کو رفع دفع کرنے میں علیجاہ کی مدد کرے مگر میلکم نے انکار کردیا۔
اب میلکم نے اپنا ذاتی محاسبہ کیا تو اسے محسوس ہونے لگا کہ وہ دراصل ایک دھوکے کا شکار ہے اور ’نیشن آف اسلام‘ بھی جھوٹ پر مبنی ایک دھوکہ ہے۔ میلکم ایکس کو ندامت ہونے لگی کہ وہ کئی معاملات میں عقیدت کی بنیاد پر صرفِ نظر کرگیا وگرنہ ’نیشن آف اسلام‘ میں کئی صریح دھوکے اور فراڈ ہوتے رہے ہیں۔
اس انکشاف کے کچھ عرصے بعد اتفاقاً میلکم نے ایک ایسا بیان دیا جو علیجاہ کے لیے اس بات کا ذریعہ بن گیا کہ وہ میلکم کو خاموش کراسکے۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل پر میلکم نے یہ مشہور جملہ کہا:
”کینیڈی اس بات سے نابلد رہا کہ مرغے بھی جلد بانگیں دینے لگیں گے۔“
اس بیان کے بعد علیجاہ محمد نے میلکم کو کسی بھی قسم کے عوامی جلسے میں خطابت اور میڈیا پر بیان دینے سے منع کرتے ہوئے ان پر تین ماہ کے لیے پابندی لگادی۔ میلکم کے مطابق وہ جانتے تھے کہ ان پر خاموش رہنے کی پابندی اصل میں علیجاہ محمد کے جنسی سکینڈل پر آواز اٹھانے کی پاداش میں لگائی گئی۔
مارچ 1964ءمیں میلکم نے ’نیشن آف اسلام‘ سے تعلق ختم کرتے ہوئے اپنی تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا۔ وہ علیجاہ محمد کے راستے سے الگ ہوکر اپنی تنظیم ” مسلم مسجد“ بناکر دوبارہ سول رائٹس کی تنظیم چلانے لگے۔
اسی سال میلکم ایکس مکہ مکرمہ حج کے لیے گئے اور مصر کا سفر بھی کیا۔اس سفرِ حج نے میلکم کو نئی راہیں دکھائیں اور اُن پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ اصل اسلام وہ نہیں جس کا پرچار علیجاہ محمد کرتا ہے بلکہ اسلام تو ایک امن پسند اور انسانیت کا محافظ مذہب ہے۔ میلکم نے مکہ میں مختلف الاقوام افراد سے ملاقاتیں کیں اور اپنے خیالات کا تبادلہ کیا۔
انھیں مکہ میں ہر رنگ و نسل کے لوگوں سے واسطہ پڑا، سب کا رویہ میلکم کے ساتھ بااخلاق اور مثبت رہا جس سے میلکم بہت متاثر ہوئے۔ وہ مکہ سے اپنی اہلیہ کو خط لکھتے رہے جو وہ اپنی مسلم مسجد کے اجتماعات میں پڑھ کر سناتیں۔
علیجاہ محمد کی تعلیمات کے مطابق ہر وہ شخص جو کالا نہیں ہے وہ قابل نفرت ہے اور ’نیشن آف اسلام‘ کا نعرہ یہی ہے کہ امریکا میں کالوں کی الگ ریاست بنائی جائے۔ جو عرصہ میلکم نے علیجاہ کے ساتھ گزارا اس میں یہی خیال ان کے ذہن پر نقش کیا جاتا رہا کہ سفید فام افراد شیطان کی صورت ہیں،
مگر مکہ پہنچ کر میلکم نے دیکھا کہ کالے اور گورے سب مل کر ایک ہی خیمہ میں رہتے ہیں ، ایک ہی دسترخوان پر مل کر ایک ہی پلیٹ سے کھاتے ہیں اور کوئی ایسی قابل نفرت بات نہیں جس کی تعلیم انہیں دی جاتی رہی۔
امریکا واپس آنے کے بعد میلکم نے اصل اسلام کی تبلیغ شروع کی اور اپنے تجربات لوگوں کو بتانا شروع کیے۔ ایک مکمل تبدیلی اور مستقبل کی اچھی امید کے ساتھ میلکم نے اب اسلام کا پیغام ہر رنگ و نسل تک پہنچانا شروع کیا۔ اس سے پہلے وہ صرف افریقن امریکن سوسائٹی کے حقوق کے متعلق آواز اٹھاتے تھے مگر اب ان کا راستہ واضح اور روشن ہوگیا تھا۔
میلکم ایکس کی’نیشن آف اسلام‘ سے علیحدگی کے بعد علیجاہ محمد اور میلکم میں اختلافات شدید تر ہوتے گئے۔ ’نیشن آف اسلام‘ میں کام کرنے والے ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے حکومت کو اطلاع دی کہ میلکم ایکس کو قتل کرنے کی پلاننگ کی جارہی ہے، حتی کہ ایک ایجنٹ کو ’نیشن آف اسلام‘ کی طرف سے باقاعدہ حکم ملا کہ میلکم کی کار میں وہ بم نصب کرے۔
کئی قاتلانہ حملوں کے بعد میلکم نے محافظین کے بغیر نقل و حرکت کم کردی، 14 فروری 1965ءکو نیویارک میں میلکم کے گھر پر آتشی بموں سے حملہ کیا گیا۔ اس وقت میلکم اپنی اہلیہ بیٹی شباز اور چار بیٹیوں کے ساتھ گھر میں موجود تھے مگر معجزاتی طور پر سب افراد محفوظ رہے۔
اس حملے کے ایک ہفتے بعد میلکم کے دشمن بالآخر اپنے مضمون ارادوں میں کامیاب ہوگئے اور مین ہیٹن میں ایک خطاب کے دوران میلکم کو تین مسلح افراد نے سٹیج پر پندرہ گولیاں مارکر شہید کردیا۔ ہسپتال پہنچانے پر ڈاکٹرز نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔
میلکم کے جنازے میں 1500 افراد نے شرکت کی اور اسی سال میلکم کی اہلیہ نے ان کی دو جڑواں بیٹیوں کو جنم دیا۔ میلکم کے تینوں قاتلوں کو مارچ 1966ءمیں قتل کے جرم میں عمر قید کی سزاسنائی گئی۔ یہ تینوں افراد ’نیشن آف اسلام‘ کے ارکان تھے۔ میلکم ایکس ملک الشباز نیویارک کے ایک قصبے ہارٹس ڈیل کے فرینکلف قبرستان میں مدفون ہیں۔
’نیشن آف اسلام‘
’نیشن آف اسلام‘ کی بنیاد والس فرض محمد نے چار جولائی1930ءکو رکھی۔ فرض محمد کے مطابق وہ اپنے گمشدہ افریقی قبیلے ”شباز“ کی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرنے کے لیے کام کررہے ہیں۔ تین صدیوں تک امریکہ کے غلام رہنے والے ان افریقی لوگوں کو علم اور ترقی کا راستہ دکھانا ان کا مشن ہے۔
1931ءمیں فرض محمد کی ملاقات ڈیٹرائیٹ مشی گن میں علیجاہ پول سے ہوئی، فرض محمد نے ساڑھے تین سال تک علیجاہ پول کی تربیت اپنے خلیفہ و نمائندہ کے طور پر کی اور اس کا نام علیجاہ پول سے بدل کر علیجاہ محمد رکھ دیا۔
1934ءمیں نیشن آف اسلام کے بانی فرض محمد کے انتقال کے بعد تنظیم کی باگ دوڑ علیجاہ محمد نے سنبھال لی۔ علیجاہ محمد نے ہی والس فرض محمد کو مسیح ، یہووا ، خدا اور پیغمبر کی حیثیت سے متعارف کروایا۔ بقول علیجاہ محمد اسے والس فرض محمد نے بتایا کہ والس ہی وہ مہدی ہے جس کا دنیا کو انتظار تھا۔
’نیشن آف اسلام‘ کی وجہ سے مشہور باکسر محمد علی کلے نے اسلام قبول کیا اور وہ تنظیم کے سرگرم رکن تھے، بعد میں توبہ تائب ہوکر اصل اسلام قبول کیا۔ اسی طرح مشہور سول رائٹس ایکٹوسٹ فاراخان کو بھی شہرت ’نیشن آف اسلام‘ کی وجہ سے ملی۔فارا خان بقید حیات ہیں اور شکاگو میں ’نیشن آف اسلام‘ ہی سے منسلک ہیں۔
1975ءمیں علیجاہ محمد کا انتقال ہوا، اگلے سال اس کے بیٹے نے ’نیشن آف اسلام‘ کی تنظیم توڑ دی جسے بعد میں فارا خان کےزیر انتظام دوبارہ متحرک کرنے کی سعی کی گئی۔ علیجاہ کے بعد ’نیشن آف اسلام‘ کو وہ عروج دوبارہ نہیں مل سکا جو علیجاہ اور میلکم کی سربراہی میں تھا۔
میلکم ایکس کی بیٹی قُبیلہ شباز کو یقین تھا کہ اس کے والد کے قتل میں فاراخان کا ہاتھ تھا،1995ءمیں قبیلہ شباز کو فاراخان کے قتل کی پلاننگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
علیجاہ محمد نے میلکم ایکس کو اپنا نمائندہ بنایا اور خود پس پردہ رہ کرہی تنظیم کو چلاتا رہا۔
میلکم ایکس کے ’نیشن آف اسلام‘ سے خروج کے بعد میلکم پر قاتلانہ حملوں کی ذمہ داری ’نیشن آف اسلام‘ پر ڈالی جاتی ہے اور اپنے ایک انٹرویو میں میلکم نے اعتراف کیا کہ ’نیشن آف اسلام‘ کے ایک رکن کو میرے قتل کے لیے بھیجا گیا تو وہ مجھ سے عقیدت اور لگائو کی وجہ سے کوئی قدم اٹھانے سے باز رہا اور مجھے اس نے خود بتایا کہ اسے کس کام کے لیے بھیجا گیا ہے۔
اپنی آخری تقاریر میں میلکم اس بات کا ذکر بھی کرتے تھے کہ ان کو اسلام سے آشنا کرنے والی شخصیت علیجاہ محمد ہیں اور وہ علیجاہ محمد کو اپنا محسن مانتے ہیں۔
علیجاہ محمد کی کوشش تھی کہ جلد سے جلد میلکم کو منظر سے ہٹا دیا جائے مگر اس صورتحال میں بھی میلکم نے علیجاہ محمد کے خلاف محاذ نہیں کھولا۔ میلکم چاہتے تو اپنے عوامی اثر و رسوخ کی بنیاد پر ’نیشن آف اسلام‘ کے خلاف مسلح تحریک شروع کرسکتے تھے مگر وہ اسلام کی اصل روح سے آشنا ہوچکے تھے اس لیے صبر و برداشت سے کام لیتے رہے۔
ابتدا میں میلکم کی تربیت اس نہج پر ہی کی گئی تھی کہ سفید فام افراد شیطان کا دوسرا روپ ہیں اور ’نیشن آف اسلام‘ کالوں کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کررہی ہے، نیز اس تحریک میں اسلام کے عقائد اور تعلیمات کو بھی چیدہ چیدہ اپنایا گیا تھا اس لیے اس نے بہت لوگوں کو اپنا گرویدہ کرلیا۔
جب میلکم ایکس کو علیجاہ کی اصلیت کا علم ہوا اور اپنے عرب ممالک کے سفر اور حج کے سفر کی بدولت اسلام کے اصل پیغام سے آشنا ہوئے تو ببانگِ دہل اس بات کا اقرار کیا کہ میں پہلے غلط راستے پر تھا اور اسلام تمام انسانوں میں برابری کی تعلیم دیتا ہے اور کسی کو رنگ و نسل کی بنیاد پر اچھے یا برے قرار دینے سے منع کرتا ہے۔
میلکم ایکس ملک الشباز آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں، ان کی شخصیت پر کئی کتابیں لکھی گئیں، کئی ڈاکومینٹریز بنائی گئیں۔ میلکم ایکس کو نئی نسل سے متعارف کروانے میں مشہور زمانہ فلم” میلکم ایکس“ کا اہم کردار ہے۔یہ فلم 1992ءمیں فلم ڈائریکٹر ”سپائک لی “ نے بنائی۔