عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔
کہاجارہا ہے کہ چئیرمین نیب جسٹس رجاویداقبال کی مبینہ شرمناک آڈیو کال اور ویڈیو سے بہت سی شرمناک اور افسوس ناک سٹوریز بندھی ہوئی ہیں۔
سب سے افسوس ناک یہ کہ مبینہ طور پر جسٹس ر جاوید اقبال آڈیو میںجس خاتون کے ساتھ جنسی گفتگو کررہے تھے ، وہ ایک نیب کیس میں پھنسے ہوئے شخص فاروق نول کی اہلیہ ہیں۔ آڈیو اور ویڈیو سے معلوم ہوتا ہے کہ چئیرمین نیب ( اگر وہ چئیرمین نیب ہیں) خاتون سے جنسی گفتگو کرتےہوئے، شرمناک عزائم کا اظہارکرتے ہیں، اس کے بدلے میں خاتون ان سے مقدمہ میں چھوٹ لینے کی کوشش میں ہیں۔ واضح رہے کہ نیب کی طرف سے عرصہ پہلے فاروق نول کے خلاف اخبارات میں ایک اشتہار بھی شائع کیا تھا۔
بعض ذرائع کہتے ہیں کہ جس خاتون کو چئرمین نیب کے ساتھ گل کھلانے کیلئے استعمال کیا گیا۔ اس کا شوہر میجر اور وہ خاتون خود پی ٹی آئی کی کارکن ہیں۔
یہ بھی خاصی دلچسپ بات ہے کہ جس نیوز چینل نے نیوز بریک کی اس کا مالک نہ صرف پی ٹی آئی کا رکن ہے بلکہ وزیراعظم عمران خان کا سپیشل ایڈوائز بھی ہے(اس سکینڈل کے بعد وزیراعظم نے اسے معطل کیا)۔ تاہم بعض حلقے کہتے ہیں کہ اس ویڈیو کو ریلیز کرنے کا آرڈر بھی وزیراعظم نے خود دیا ہے۔ یہ اس سکینڈل کا ایک نیا پہلو ہے۔کیا واقعی وزیراعظم عمران خان اس سکینڈل میں ملوث ہیں؟ اس سوال کا جواب ضروری ہے۔
سوال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان جسٹس ر جاویداقبال کو ان کے عہدے پرکیوںنہیں دیکھناچاہتے۔ معروف تجزیہ نگار نجم سیٹھی کا کہناہے کہ وزیراعظم نے چپکے سے پی ٹی آئی کے رکن کو نیب کا ڈپٹی چئیرمین لگادیاہے، یہ سارا انتظام کرکے عمران خان چاہتے ہیں کہ جسٹس ر جاویداقبال اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیں ورنہ انھیں اس عہدے سے ہٹانے کی دیگر تدابیر اختیار کی جائیں گی۔
جسٹس ر جاویداقبال پر مختلف لوگوں کی طرف سے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام ہے۔ کہاجاتا ہے کہ چند برس قبل اسلام آباد کے سیکٹرایف 10 میں ایک خاتون اپنے فلیٹ میں پراسرار طور پر ہلاک ہوگئی تھی۔ مبینہ طور پر اس کی جسٹس ر جاوید اقبال سے دوستی تھی۔
یادرہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظورپشتین نے بھی جسٹس ر جاوید اقبال پر الزام عائد کیاتھا کہ "وہ اپنے عہدے کا فائدہ اُٹھا کر (لاپتہ افراد کیس میں فریق) پشتون عورتوں کو ہراساں کرتا ہے”۔
احتساب کے سب سے اعلیٰ ادارے کے سربراہ پر یہ الزامات انتہائی سنگین ہیں۔ اگرچہ نیب نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے حوالے سے نجی چینل پر چلنے والے آڈیو ویڈیو کلپ کو سراسر غلط قرار دیتے ہوئے اسے چیئرمین نیب کے خلاف سارش قرار دیا ہے۔ تاہم محض یہ بیان کافی نہیں ہے۔
ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیشن اور جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی ضرورت ہے جو اس بات کا تعین کرے کہ آیا آڈیو کال اور ویڈیو میں موجود مرد چئیرمین نیب ہیں؟ اگر وہی ہیں تو باقاعدہ طور پر ان سے استعفی لیاجائے۔ اور ان کے خلاف اپنے عہدے کا غلط استعمال کرنے اور خواتین کو جنسی ہراساں کرنے پر مقدمہ دائر کیا جائے۔ اس کی کھلی سماعت ہونی چاہئے تاکہ آئیندہ کسی کو ایسا کرنے کی جرات نہ ہو۔ اس بات کا تعین بھی کیاجائے کہ آیا وزیراعظم عمران خان اس سکینڈل میں ملوث ہیں؟
انکوائری کمیشن منظور پشتین کے الزامات کی تحقیق بھی کرے۔ پاکستان کی سالمیت کے لئے ان الزامات کی تحقیق ازحد ضروری ہے۔
حکومت اور دیگر ادارے اس سکینڈل کو بنیاد بنا کر چئیرمین نیب سے اپنے مفادات کا تحفظ کرانے سے باز رہیں۔ شکوک ظاہر کئے جارہے ہیں کہ جسٹس ر جاوید اقبال کو بلیک میل کیاجائے گا، حکومت اور دیگر ادارے اپنی مرضی کے کام نکلوائیں گے۔ اس سارے معاملے کا واحد راستہ صاف اور شفاف، کھلی کھلی تحقیقات ییں۔