فضل ہادی حسن۔۔۔۔۔۔۔
آج 17 مئی کو ناروےکا قومی دن منایا جارہا ہے۔ 1905 کو ڈنمارک سے آزادی اور اپنا آئین بنانے کے بعد یہی دن ایک "منفرد” جوش و خروش اور قومی جذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے۔
گزشتہ پانچ چھ سالوں سے میں ناروے کا قومی دن قریب سے دیکھ رہا ہوں، جس کا سب سے بڑا اجتماع اور پیدل پریڈ دارالحکومت اوسلو میں منعقد ہوتا ہے (اس کی تفصیلات یوٹیوب وغیرہ پر دیکھی جاسکتی ہے)۔ اس دن کو کرسمس کے بعد اگر اہلِ ناروے کیلئے عید قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، لوگوں کا جوش و جذبہ اور اس دن کو منانے کا طریقہ یقینا دیدنی ہوتا ہے۔
اس دن کی خاص بات ہر شہری، چھوٹے بڑے اور بزرگوں حتی کے معذوروں کے چہروں پر بھرپور خوشی اور مسکراہٹ کا ‘احساس’ ہوتا ہے، یہ احساس جہاں حقیقی آزادی اور خوشحال ملک کا آئینہ دار نظر آتا ہے وہاں یہ ہر قسم کی مصنوعیت اور کسی قسم کے دباؤ سے مکمل آزاد ہوتا ہے۔ لوگوں کے چہروں پر عیاں خوشی جہاں حقیقی ہوتی ہے وہاں اس خوشی کو لانے یا یہ دن منانے کے لئے حکومت کو کسی طاقت کا استعمال یا حکومتی اداروں کو پابند کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، بلکہ من حیث القوم ہر شہری اپنی خوشی، مرضی اور بھرپور تیاریوں کے ساتھ اس دن کو منانے اپنا قومی لباس پہن کر ہاتھوں میں قومی پرچم لئے صبح سے ہی اپنے گھروں سے نکلنا پڑتا ہے۔
یہ دن منانے کا اندازہ اس سے لگائیں کہ خواتین اور بچیاں ایک مخصوص اور قیمتی قومی لباس، جسے نارویجن میں Bunad کہتے ہیں، تیار کرکے پہنتی ہیں۔ جس کی قیمت چالیس ہزار سے لیکر 70 ہزار نارویجن کرون، تقریبا 654,000 سے 1,144,500 پاکستانی روپیہ تک ہوتی ہے۔
اس دن کے لئے نہ حکومت مفت ٹرانسپورٹ فراہم کرتی ہے اور نہ سیاسی پارٹیاں ٹرانسپورٹیشن یا بریانی کی آفر دیتی ہے۔ بلکہ ایک اندازے کے مطابق نارویجن شہری کرسمس کے بعد سب سے زیادہ پیسے 17 مئی کو منانے پر اُڑاتے ہیں۔
قومی دن کی اہم سرگرمی دارالحکومت اوسلو میں ہوتی ہے جہاں شہری بادشاہ کے محل کے سامنے جمع ہوجاتے ہیں، سکول کے بچے مختلف ریلیوں کی شکل میں بادشاہ کے محل کے سامنے سے گرزتے ہوئے بادشاہ کو سلامی پیش کرتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ناروے کا قومی دن اور قوم کا جوش و خروش اس ملک اور قوم کا حق بنتا ہے۔ شہری اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہے تو سیاستدان ملک و قوم کے وفادار جبکہ ہر ادارہ اور محکمہ اپنے اپنے کاموں میں مگن۔ پارلیمنٹ کا اپنا اور بھرپور کردار تو بادشاہ کا اپنا اور محدود ذمہ داریاں، بادشاہ پارلیمنٹ کا احترام کرنے کا پابند تو پارلیمنٹ بھی بادشاہ سلامت کو ایک علامتی و آئینی ٹائٹل کے باوجود قابل احترام سمجھتی ہے۔
میرا خیال ہے یہاں نہ تو بادشاہ ‘بادشاہ’ بن بیٹھا اور نہ حکومت ‘بادشاہ’ بنی بلکہ یہاں کا شہری ‘بادشاہ’ قرار دیا جاسکتا ہے، نیز فوج کا نام یا ذکر صرف بیرکوں اور ٹریننگ ایریاز میں ملے گا۔ ناروے کے شہری اپنی ریاست کے خدمت گار تو ریاست نے ان کے لئے فراہمی انصاف، برابری، آزادی، تعلیم، صحت اور روزگار کی ضامن۔
ایسی قومیں جب قومی دن مناتی ہیں، جب ایسی قومیں پیدل مارچ کرنے سڑکوں پر نکلتی ہیں تو ان کے لئے ملی نغموں، اشتہاری مہم یا ترغیب کی ضرورت نہیں رہتی۔ بچے، بوڑھے اور جوان اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اتحاد و یگانگت کا عملی مظاہرہ پیش کرنے آگے آگے ہوتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں بےروزگاری، غربت، مہنگائی، عدمِ مساوات، نا انصافی اور امن و امان کی مخدوش صورتحال میں جینے والی قومیں جہاں افتراق اور انتشار کی شکار ہوتی ہیں وہاں آزادی کا مفہوم اور تعبیر سمجھنے سے قاصر ہوتی ہیں، مفہوم اور تعبیر سمجھے بغیر کوئی بھی قوم نہ حقیقی جشن آزادی مناسکے گی اور نہ قومی دن کے موقع پر قوم کے چہرے ان کے مسائل و مشکلات کی ترجمانی کرسکتے ہیں۔
اللہ میرے دیس کو بھی ایسے دن نصیب فرمائے جب بلا تفریق رنگ ونسل اور زبان، غریب و امیر ، حکمران و رعایا سے بالاتر ہر شہری ایک پُر امن خوشحال پاکستان میں حقیقی مسکراہٹوں کیساتھ ‘حقیقی آزادی’ کا جشن مناسکے۔ آمین