عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی تاریخ کے عظیم سکالر سید ابوالاعلی مودودیؒ، بانی جماعت اسلامی نے کہاتھا:
"ناجائز ذرائع سے برسراقتدار آنے والے لوگ کبھی نیک نیت نہیں ہوسکتے۔”
آج ہی مولانا مودودی کا بیان کردہ یہ اصول نظر سے گزرا تو دماغروشن ہوگیا۔ ایک لمحہ پوری انسانی تاریخ کا جائزہ لیا۔ مولانا کی یہ بات سوفیصد درست ثابت ہوئی۔ پاکستانی تاریخ میںگزرنے والے حکمرانوں کے بارے میں بھی ایک لمحہ سوچئے، سب سمجھ آجائے گا۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی حکمران عوام کا منتخب نہیں تھا، ہر ایک ناجائزذرائع کے بل بوتے پر ہی برسراقتدارآیا۔ موجودہ حکمران عمران خان کے بارے میں بھی یہ تاثر عام ہے کہ وہ ایک مخصوص قوت کی وجہ سے اوپر آئے۔ انھوں نے گزشتہ نو ماہ کے دوران میں ثابت کردیا کہ "ناجائز ذرائع سے برسراقتدار آنے والے لوگ کبھی نیک نیت نہیں ہوسکتے۔”
پاکستان میں آج بھی ایک قابل ذکرتعداد انھیں "نیک نیت” نہ سمجھتے ہوئے انجانے خوف کا شکارہوتی ہے۔ ایسے لوگوںکی اکثریت نوجوان ہے جو 1988 کے بعد پیدا ہوئی۔ انھوں نے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ، جنرل مشرف کے ادوار دیکھے۔ موخرالذکر کا تذکرہ ہی کیا، وہ آئینی حکمران ہی نہیں تھے۔ پیپلزپارٹی کو کرپشن کے علاوہ کوئی کام نہیں تھا جبکہ مسلم لیگی حکومتیں پانچ دس فیصد ڈیلیور کرکے سوفیصد عوامی اعتماد حاصل کرنے کے چکر میں رہیں۔ یہ بھی استحصال کی بدترین قسم ہے۔
ان ادوارحکومت کے ڈسے ہوئے لوگوں کو عمران خان کی شکل میں ایک نجات دہندہ نظرآیا تاہم وہ ان نادیدہ قوت کو نہ دیکھ سکے جو تحریک انصاف کے غبارے میں ہوا بھررہی تھی۔ اگرانھیں حقیقت کا علم ہوجاتا تو شاید وہ دھوکہ میں نہ آتے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اب دھوکہ کھانے والے کہتے ہیں کہ شاید عمران خان کچھ کرجائے۔ پہلے انھیں یقین تھا لیکن اب وہ "شاید” کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
گیلپ کے حالیہ سروے کے نتائج میں نہ صرف "یقیناً سے”شاید” تک آنے والے افراد کو بخوبی دیکھاجاسکتا ہے کہ ان کی شرح کتنی ہے۔
گیلپ نے لوگوں سے پوچھا "بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کی شرح بلندترین مقام پر ہے اور ملک کے معاشی حالات بہت خراب ہیں تاہم عمران خان کی حکومت دیانت دار اور اہل ہے۔ جلد حالات بہترہوںگے۔
دوسری طرف بعضلوگ کہتے ہیں کہ حکومت نااہلوں پر مشتمل ہے ، ملک کے حالات مزید خراب ہوں گے۔ آپ کا کیاخیال ہے؟”
10 فیصد لوگوںنے ملک کے معاشی حالات کو "اچھے” قراردیا، 32 فیصد نے کہاکہ حالات خراب ضرور ہیں لیکن بہترہوجائیں گے۔ 56 فیصد نے کہا کہ حالات مزید خراب ہوںگے۔
رائے دہندگان کے سامنے عمران خان، نوازشریف اور شہبازشریف کے نام پیش کئے گئے، پوچھاگیا کہ ان میں سے کس کی پرفارمنس بہترتھی، عمران خان اور شہبازشریف کے درمیان بہت زیادہ فرق نہیں تھا، 58 فیصد نے عمران خان جبکہ 55 فیصد نے شہبازشریف کی کارکردگی کو بہترقراردیا البتہ نوازشریف کو 50 فیصد ووٹ ملے۔
گیلپ نے پوچھا کہ بعضلوگ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی اچھی ہے لیکن بعضلوگوںکا کہناہے کہ بری۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
پاکستانیوںکی اکثریت یعنی 51 فیصد نے پی ٹی آئی کی کارکردگی کو "برا” قراردیا،27فیصد نے "بہتر”قراردیا۔ جبکہ 21 فیصد لوگوں نے کہا کہ تحریک انصاف اور پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
یادرہے کہ ستمبر 2018 میںحکومت کی کارکردگی کو بہترقراردینے والے 49 فیصد تھے، دسمبر2018 میںیہ شرح 29فیصد جبکہ اپریل 2019 میں 27 فیصد تک گرگئی۔
عمران خان حکومت کی کارکردگی کو "برا” کہنے والوںکی شرح ستمبر2018 میں 27فیصد تھی، دسمبر2018 میں 35 فیصد ہوگئی جبکہ اپریل 2019 میں 51فیصد تک پہنچ گئی۔
عمران خان اور سابقہ حکمرانوں کو ایک جیسا سمجھنے والوںکی شرحستمبر2018 میں 18فیصد تھی جو دسمبر2018 میں 33 فیصد ہوگئی جبکہ اپریل 2019 میں 21 فیصد۔
لوگوں سے پوچھاگیا کہ پی ٹی آئی نے حکومت حاصل کرنے سے پہلے قوم سے جو وعدے کئے تھے، انھیںپورا کرنے کے لئے آپ موجودہ حکومت کو کتنا وقت دے سکتے ہیں؟
31 فیصد نے کہا کہ اس حکومت کو مزید وقت نہیں دیاجاسکتا۔23 فیصد نے کہا کہ ایک سال، 20فیصد نے کہا کہ 2 سال، 8 فیصد نے کہا کہ تین سال جبکہ 3 فیصد نے کہا کہ چارسال۔ 12 فیصد نے کہا کہ حکومت کو اگلے انتخابات تک موقع دیناچاہئے۔ تین فیصد گومگوکا شکاررہے۔
ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے بعض حلقے گیلپ پول کے نتائج مسترد کردیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اپنے کارکن بھی کچھ ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں جیسے گیلپ پول کے نتائج میں نظر آرہے ہیں۔
ہمیںبخوبی نظر آرہاہے کہ آنے والے دنوںمیں حکومت سے بے زاری مزید بڑھتی چلی جائے گی۔ ایسے میں تحریک انصاف کو سابقہ حکمرانوں جیسا قراردینے والوںکی تعدادمیں اضافہ ہوگا۔ مزید لوگوں کو یقین ہوجائے گا کہ عمران خان حکومت بھی ناجائز ذرائع کی پیداوار تھی اور سید ابوالاعلی مودودیؒ سچ ہی کہتے تھے:
"ناجائز ذرائع سے برسراقتدار آنے والے لوگ کبھی نیک نیت نہیں ہوسکتے۔”