fatima daughter of Mohammed

خواتین جنت کی سردار،چندباتیں جو آپ نہیں جانتے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عصمت اسامہ۔۔۔۔۔
رمضان المبارک میں جنت سجائی جاتی ہے,اس کی آرائش و زیبائش کی جاتی ہے_جنت کا ذکر ہو تو اہل جنت کا ذکر بھی ضروری ہے جن کی مدارات کے لئے یہ سارے اہتمام ،اللہ رب العزت کے حکم سے کئے جاتے ہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، جنت کی شہزادی اور جنتی خواتین کی سردار ہیں۔ آپ کی سیرت، کردار اور اخلاقی خوبیاں ہمارے لئے آج بھی مشعل راہ ہیں۔ ہمارے لئے آپ کے مقدس نقش پا کی پیروی میں ہی راہ نجات ہے!

آپ کا نام فاطمہ تھا ,اس کے معنی پاک، بابرکت،پاکیزہ کے ہیں۔ علامہ قسطلانی نے “مواہب لدنیہ “میں اس کے معانی یوں بیان کئے ہیں کہ فاطمہ لوگوں کودوزخ کی آگ سے روکنے والی ہیں جبکہ القاب سیدۃ النسا،طاہرہ،زہرا،مطہرہ،بتول، ام ابیھا (اپنے والد کی ماں)،راضیہ(اللہ اور اس کے رسول کی رضا میں راضی رہنے والی )،کریمتہ الطرفین(یعنی باپ اور ماں دونوں کی نسبت سے عالی مرتبہ )،بضعتہ الرسول (یعنی جگر گوشہ رسول )کے ہیں۔

صاحب روضتہ الواعظین نے لکھا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش سے کافی عرصہ پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا کہ مجھے روح الامین (حضرت جبرائیل ع)نے خبر دی ہے کہ بیٹی کی پیدائش ہوگی اور اس کا نام “فاطمہ “رکھا جاۓ- حضرت فاطمہ نے اپنی والدہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی گود میں پرورش پائی اور ان سے نہایت اعلی ‘اخلاق واوصاف سیکھے۔ ایک بار ننھی فاطمہ نے ان سے پوچھا :”اماں جان ,اللہ تعالی ‘کی قدرتیں تو ہم ہر وقت دیکھتے ہیں،کیا اللہ تعالی’ خود نظر نہیں آسکتے ؟”

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :”میری بچی! اگر ہم دنیا میں اچھے کام کریں گے اور اللہ کے احکام پر عمل کریں گے تو روزقیامت اللہ تعالی کی خوشنودی کے مستحق ہوں گے اور یہی اللہ تعالی کا دیدار ہوگا !”

جب حضرت خدیجہ نے وفات پائی تو ننھی فاطمہ نے اپنے باباکا خیال رکھنے کی ذمہ داری اٹھالی ,ان کا لقب ام ابیھا اسی لئے پڑا کہ وہ ماؤں جیسی شفقت اپنے بابا پہ لٹاتی تھیں-تبلیغ اسلام کی راہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنوں اور بیگانوں کی طرف سے بڑی تکالیف اٹھانی پڑتیں، کبھی وہ راستے میں کانٹے بچھادیتے، کبھی طعنہ بازی اور جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے قلب مبارک کو تکلیف پہنچاتے۔ ان کٹھن حالات میں ننھی فاطمہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تسلی دیا کرتیں اور کبھی خود بھی اشکبار ہو جاتیں۔

حضرت فاطمتہ الزہرا بہت فرماں بردار بیٹی تھیں اور بابا کی مزاج شناس بھی۔ کہا جاتا ہے کہ اخلاق و عادات، انداز گفتگو، چال ڈھال میں وہ رسول اللہ (ص)سے بہت مشابہت رکھتی تھیں۔ نبی مہربان بھی جان پدر کو بہت عزیز رکھتے تھے۔

جب بیٹی اپنے بابا کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ کھڑے ہو جاتے اور ہاتھ پکڑ کے بیٹی کو پاس بٹھا لیتے۔ یہ اکرام اولاد کی بہترین مثال ہے۔ بچیاں کمزور اور حساس طبع ہوتی ہیں اور باپ کی شخصیت سے انھیں تقویت ملتی ہے۔ بیٹی کی دل جوئ کا بہترین نمونہ ہمیں اپنے نبی مہربان سے ملتا ہے۔

ایک بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حرم کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھےکہ کفار نے آپ کو اذیت دینے کے لئے اونٹ کی بھاری بھر کم اوجھڑی پشت مبارک پہ لا کے رکھ دی۔ رسول اللہ حالت نماز میں ہی رہے۔ کسی نے حضرت فاطمہ کو اطلاع دی تو وہ دوڑتی ہوئی آئیں اور اپنے ہاتھوں سے وہ اوجھڑی ہٹائی اور پھر کفار کو ڈانٹا ڈپٹا اور کہا:”شریرو! احکم الحاکمین تمہیں ان شرارتوں کی سزا ضرور دے گا !”

آپ کا دکھ اتنا شدید تھا کہ آپ کی یہ بات رب العالمین نے حرف بہ حرف پوری کردکھائی اور یہ سب کافر ،جنگ بدر میں ذلت کے ساتھ مارے گئے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے ان سب کافروں کو دیکھا کہ ان کے جسموں کو گھوڑے پامال کررہے تھے اور پھر انھیں گھسیٹ کر ایک کنویں میں پھینک دیا گیا!

بیٹیاں یونہی کھیلتے کھیلتے بڑی ہو جاتی ہیں ,رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کیا اور بیٹی کو نصیحت کی :”اے فاطمہ ! تیرا شوہر بہت اچھا ہے !”
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا :”اے علی ! پیغمبر کی بیٹی تجھے مبارک ہو !”

حضرت فاطمتہ الزہرا انتہائی صابر و شاکر بیوی اور شفیق ماں تھیں۔ گھر کے کام کاج کرتے ہوۓ، چکی پیستے، روٹی پکاتے ہوۓ، کھانا تیار کرتے ہوۓ ہر وقت تلاوت کرتی رہتیں۔ شوہر اور بچوں کو کھانا کھلا کے خود آخر میں کھاتیں، دن قرآن پاک کی مشغولیت میں گزرتا اور رات کو مصلے پہ عبادت کے لئے کھڑی رہتیں !!

نہ کسی سے کوئی واسطہ مجھے کام اپنے ہی کام سے
تیرے ذکر سے ,تیری فکر سے ,تیری یاد سے ,تیرے نام سے !

معاشی تنگی کے باوجود کبھی حرف شکایت زبان پہ نہ لاتیں ,نہ کبھی کسی چیز کا گلہ شکوہ کیا -حضرت علی فرماتے ہیں کہ مجھے حضور اکرم (ص)کا یہ فرمان یاد آتا کہ”فاطمہ ,دنیا کی بہترین عورت ہے !”

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا پورا خیال رکھا اور ایک بار ان کی محنت مشقت دیکھتے ہوۓ کہا کہ آپ اپنے بابا سے کوئی غلام کیوں نہیں طلب کرتیں؟( اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر خاتون خانہ کو ضرورت ہو تو اس کے لئے ملازم یا ملازمہ رکھنا عین اسلام ہے )-

حضرت فاطمہ اپنے بابا کے پاس آئیں لیکن جھجک آڑے آئی اور کچھ کہہ نہ سکیں۔ حضرت علی نے مدعا پیش کیا ,اس پہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہ کیا کہ غلام تو اصحاب صفہ کی خدمت کے لئے ہیں اور پیاری بیٹی کو سبحان اللہ ,الحمدللہ اور اللہ اکبر کی تسبیحات بتا کے رخصت کردیا -یہ تسبیح _فاطمہ آج بھی ہمارے لئے بڑا سہارا ہے اور کاموں میں آسانی لاتی ہے-

حضرت فاطمتہ الزہرا بہت سخی اور دریا دل تھیں،کبھی کسی فقیر اور سائل کو اپنے دروازے سے خالی نہ جانے دیتی تھیں۔ ایک بار حضور نے کسی اعرابی کے بارے میں حکم دیا کہ کون ہے جو اس کی خوراک کا بندوبست کرے ؟
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اس اعرابی کو لے کے حضرت فاطمہ کے دروازے پہ آۓ اور دروازہ کھٹکھٹا کے التجا کی ” اے اللہ کے سچے رسول کی بیٹی ,اس مسکین کی خوراک کا بندوبست کیجئیے !”

سیدہ نے آبدیدہ ہو کے فرمایا:
“اے سلمان ! اللہ کی قسم ,ہم سب کو آج تیسرا فاقہ ہے ,دونوں بچے بھوکے سوۓ ہوۓ ہیں لیکن سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دوں گی -جاؤ!یہ میری چادر شمعون یہودی کے پاس لے جاؤ اور کہو ,فاطمہ بنت محمد کی یہ چادر رکھ لو اور اس غریب انسان کو تھوڑی سی جنس (اناج)دے دو !”

سبحان اللہ ,حضرت سلمان ,یہ پاکیزہ چادر لے کے اس یہودی کے پاس گئے تو وہ حیران رہ گیا اور پکار اٹھا : “اے سلمان ,اللہ کی قسم یہ وہی لوگ ہیں جن کی خبر تورات میں دی گئی ہے، گواہ رہنا کہ میں فاطمہ کے باپ پہ ایمان لایا !”اس کے بعد کچھ غلہ حضرت سلمان کو دیا اور وہ چادر بھی سیدہ فاطمہ کو واپس کردی –

اس واقعہ کا علم حضور اکرم (ص)کو ہوا تو آپ حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لاۓ ,ان کے سر پہ اپنا دست شفقت پھیرا،آسمان کو دیکھا اور دعا کی :”بار الہا ,فاطمہ تیری کنیز ہے ,اس سےراضی رہنا !”

حضرت فاطمہ ہمیشہ باپردہ رہا کرتیں ,آپ کا فرمان ہے کہ باپردہ خاتون کی مثال ایسی ہے جیسے سیپ میں موتی !

ایک بار آپ بیمار ہوگئیں ,حضور نے ایک بزرگ صحابی کو ساتھ لیا اور اپنی لخت گر کی عیادت کو تشریف لے گئے -دروازہ پہ پہنچ کے داخلے کی اجازت مانگی۔ سیدہ نے عرض کیا: تشریف لائیے۔ حضور نے ان صحابی کا ذکر کیا کہ وہ بھی میرے ساتھ ہیں۔ حضرت فاطمہ کہنے لگیں “ابا جان !میرے پاس ایک عبا کے سوا کوئی دوسرا کپڑا نہیں کہ پردہ کرلوں۔ “

رسول اللہ نے اپنے شانوں سے چادر مبارک اتار کے بیٹی کو دی کہ بیٹی! اس سے پردہ کرلو اور فرمایا: اے لخت_جگر! دنیا کے مصائب سے دل شکستہ نہ ہو، تم جنت کی عورتوں کی سردار ہو !”

عزائم جن کے اونچے اور اونچے بخت ہوتے ہیں
زمانے میں انھی کے امتحاں بھی سخت ہوتے ہیں !

ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دوسری شادی کا ارادہ کر لیا (ابو جہل کی بیٹی سے ) تو حضرت فاطمہ بہت غمزدہ ہوئیں اور اپنے بابا کو بتایا کہ علی مجھ پہ سوکن لانا چاہتے ہیں! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پہ سخت چوٹ لگی،آپ مسجد میں تشریف لاۓ اور منبر پہ چڑھ کے فرمایا:

“فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ,جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی، جس نے اسے دکھ پہنچایا اس نے مجھے دکھ پہنچایا، میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرنا چاہتا لیکن اللہ کی قسم !اللہ کے رسول کی بیٹی اور دشمن خدا کی بیٹی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں!”

اس خطبہ نے حضرت علی کے دل پہ اثر کیا اور انھوں نے دوسری شادی کا ارادہ ترک کردیا (مومن مردوں کے لئے اس میں کافی رہنمائی ہے)- حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رب العالمین نے چھ بچوں سے نوازا تھا،حضرت حسن ،حسین ،محسن ،ام کلثوم، رقیہ اور زینب رضوان اللہ علیہم اجمعین.ان میں سے محسن اور رقیہ بچپن میں انتقال کر گئے تھے اور باقی بچوں نے تاریخ اسلام میں اعلیٰ مقام پایا –

حضرت حسن اور حسین کو رسول اللہ ص نے نوجوانان جنت کے سردار قرار دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل ،بیٹی سے ہی باقی رہی ۔ انا شانئک ھو الابتر ! سیدہ فاطمۃ الزھرا نے تقریبا 27 یا 29 سال کی عمر پائی۔ آپ 3 رمضان کو جنت کے سفر پہ روانہ ہوئیں۔ ہم سب کے لئے آپ کی زندگی مشعل راہ ہے –
سیدہ، زاہرہ ،طیبہ،طاہرہ
جان احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام !


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں