سراج الحق، امیرجماعت اسلامی پاکستان

کیا حل صرف جماعت اسلامی ہی ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔
تحریک انصاف کے بہت سے حامی دانشور،کالم نگار اب تحریک انصاف کے کارکن صحافی نہیں رہے ہیں، جناب ہارون الرشید سمیت بڑی تعداد میں اصحاب الرائے عمران خان کی پالیسیوں اور صفر کارکردگی سے مکمل طور پر مایوس ہوکر قوم سے معافی مانگ چکے ہیں۔

تاہم اب بھی کچھ کالم نگار اور دانشور کسی نہ کسی انداز میں تحریک انصاف کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن ناکامی سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے کچھ کارکنان بھی اب تک ڈٹے ہوئے ہیں، تاہم ان کی حالت نہایت مضحکہ خیز ہے جیسے کچھ عرصہ پہلے تک ایم کیوایم کے کارکنان کی تھی جو اپنے قائد کے بیانات کے ساتھ ادھر ادھر لڑھکتے رہتے تھے۔ ان کے لئے قائد کے بیانات کا دفاع مشکل تر ہوتا چلاجارہاتھا لیکن وہ بہرحال دفاع کرتے تھے۔

تحریک انصاف کے بعض حامی دانشوروں اور کارکنان کے اخلاص پر ہرگز شبہ نہیں کیا جاسکتا، تاہم ان کی اور قوم کے ایک بڑے حصے کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے پلڑوں میں بھی نہیں بیٹھنا چاہتے۔ لیکن انھیں کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔

ایسے ماحول میں جماعت اسلامی کا یہ بیانیہ زیادہ بڑے پیمانے پر سنا جارہا ہے کہ “حل صرف جماعت اسلامی”۔ تحریک انصاف کے کارکنان اپنی حکومت سے مکمل طور پر مایوس ہوکر جماعت اسلامی کی طرف دیکھتے ہوئے جھجھک رہے ہیں۔ یہی حال قوم کے ایک بڑے حصے کا بھی ہے۔ انھیں یقین نہیں ہے کہ جماعت اسلامی اقتدار میں آسکتی ہے۔

سبب یہ ہے کہ جماعت اسلامی “ہرقیمت” پر تبدیلی لانے کے حق میں نہیں ہے، مقتدر قوتوں نے ” ہرقیمت ” پر تبدیلی بپا کرکے دیکھ لیا ہے،اب “وہ” پچھتاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ قوم بھی “ان” کا پچھتاوا دیکھ رہی ہے۔ ایسے میں جماعت اپنی ٹھوس بنیادوں پر سیاست کررہی ہے تو وہ غلط نہیں کررہی ہے۔

جماعت الیکٹ ایبلز کی سیاست نہیں کرتی، عمران خان بھی ایلکٹ ایبلز کو ساتھ ملاکر سیاست کرنے کے حق میں نہ تھے لیکن پھر اقتدار عطا کرنے والوں کے اشارے پر الیکٹ ایبلز کو ساتھ ملایا۔ ان الیکٹ ایبلز کے ساتھ جس قسم کی حکومت چل رہی ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ آنے والے دنوں میں یہی الیکٹ ایبلز عمران خان کا ناک میں دم کرنے والے ہیں، دیکھتے رہئے گا۔

اسی طرح اقتدار حاصل کرنے کے لئے جماعت اسلامی بہت سے دوسرے کام کرنے کو تیار نہیں ہے جن سے اقتدار تو مل جاتا ہے لیکن اس کے بعد رسوائی بھی ملتی ہے جیسے کہ اب تحریک انصاف کو مل رہی ہے۔

اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جماعت اسلامی جن بنیادوں پر سیاست کررہی ہے، وہ سو فیصد درست ہے، اس کے مخالفین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن مسئلہ وہی ہے کہ پھر ملک کی زمام کار جماعت کے ہاتھ میں کیسے آئے گی؟ یہ سوال جماعت والوں کے بھی سوچنے کا ہے اور اس قوم کے اس بڑے طبقے کا بھی جو بہرحال ملک و قوم کےبارے میں اخلاص کے ساتھ سوچتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں،”حل تو صرف جماعت اسلامی ہی ہے”، کوئی اس حل کو قبول کرے یا نہ کرے، فی الحال حل بہرحال یہی ایک ہے۔ پاکستان کی مقتدر قوتوں کو بھی جماعت اسلامی کی راہ میں رکاوٹ نہیں کھڑی کرنی چاہئے، انھیں جماعت سے ہرگز خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ اسی میں قوم و ملک کا فائدہ ہے۔

جماعت اسلامی کو جہاں بھی اختیار ملا، اس نے پوری شفافیت اور ذمہ داری کے ساتھ اپنی اہلیت ثابت کی۔ آپ جماعت اسلامی کے وزرا کی کارکردگی دیکھ لیجئے ، پہلے ایم ایم اے کے دور حکومت میں ، پھر عمران خان کے ساتھ اتحادی حکومت کے دوران بھی۔ صوبہ خیبر میں جماعت سے تعلق رکھنے والے کسی بھی وزیر نے خود اور اپنے شعبے کو کرپشن سے مکمل طور پر پاک رکھا، جہاں تک کارکردگی کا سوال ہے، سراج الحق سے عنایت اللہ خان تک، عمران خان بھی تسلیم کیا کرتے تھے کہ ان کی کارکردگی تحریک انصاف کے وزرا سے کہیں زیادہ بہتر رہی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “کیا حل صرف جماعت اسلامی ہی ہے؟”

  1. مدثر محمود سالار Avatar
    مدثر محمود سالار

    جماعت اسلامی کو سیاست کے میدان میں اپنے انداز میں مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جب ہر حربہ کرکے دیکھ لیا اور جان لیا کہ اقتدار میں آکر ہی تبدیلی لائی جاسکتی تو اقتدار میں آنے کے لیے تیاری کریں۔ گلی محلے مین آپ کے صادق و امین امیدوار کو کوئی ووٹ دینے کو تیار نہیں تو یہ جماعت میں خرابی ہے نہ کہ عوام مین۔ انسان کو اس کے محلے والے بہتر جانتے ہین کہ کون کتنا سچا اور کھرا ہے۔ جماعتیوں کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے پہلے اپنا دامن صاف کریں پھر عوام سے ووٹ کا مطالبہ کریں۔