عروشہ عامر خان۔۔۔۔۔۔۔۔۔
15 مئی عالمی خاندان کا دن ہے۔خاندان معاشرے کی اکائی ہوتا ہے‘جس سے اگلی نسل کی تعمیرو تربیت کا کام لیا جاتا ہے۔ مغربی معاشرہ جس راہ پر گامزن ہے وہاں خاندانی نظام ناپید ہورہا ہے۔
گرل فرینڈ‘ بوائے فرینڈ کے کلچر میں سرمایہ دارانہ نظام نے ہر قسم کی قید و بند سے بے بہرہ ہو کر آزاد خیالی کی بنیاد رکھی ہے۔جو لوگ رشتہ ازواج سے منسلک بھی ہیں ان میں بھی شرح طلاق حیران کن حد تک پہنچ چکی ہے۔ شماریات کے مطابق ہرپانچ میں ایک امریکی نے کبھی شادی نہیں کی اور ہر دس میں سے پانچ شادیوں کا نتیجہ طلاق ہے۔
مغربی معاشرہ مردو زن کی مساوات‘عورتوں کا معاشی استقلال اور مردو زن کے آزادانہ اختلاط کے طلسم میں خاندانی نظام کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔’ کھل کر جی لے ‘کے تصور نے نو جوان مرد و عورت کی وہ نسل تیار کی ہے جو ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے سے منکر ہے۔
یہ نسل ’زندگی کا مزہ‘ جی رہی ہے اس لیے اس کی خواتین نو ماہ کی مشقت اٹھانے سے گریزاں ہیں اور اس کے مرد معاش کی ذمہ داری سے فراری ہیں۔ مانع حمل اور ضبط ِاولاد کی تدابیر پر بھی اگر اولاد انہیں میسر آجائے تو اسے نگہداشت کے مراکز کے حوالے کردیا جاتا ہے اور بعد میں بو رڈنگ سکول ماں باپ کی آزادی میں اولاد کو روڑا نہیں بننے دیتے ہیں۔
امریکہ میں ہر تیسرا بچہ ماں کی گود سے محروم ڈے کئیر سنٹر کے رحم و کرم پر ہے۔ یہ اگلی نسل جو ماں باپ کے پیار سے ناآشناہو گی مر کر بھی اولاد پیدا کرنے کے لیے رضامند نہیں ہوگی‘ اس کی اول و آخری ترجیح حیوانی جذبات کی تسکین ہو گی‘جس کی ایک ہلکی سی جھلک امریکہ کے سفید چمڑی کے لوگوں کا اقلیت ہوجانا ہے۔
مہذب مغربی معاشرہ ارتقاءکی بلندی میں اس مقام پر ہے جہاں” گے میرجز “نے خاندان کا تصور ہی مٹا دیا ہے اور مقدس رشتوں سے شادی کے بندھن کے گھنائونے واقعات جو قصہ پارینہ تھے اب آنکھوں کے سامنے ہیں۔ جب بہن بھائی سے بیاہی جا رہی ہے اور ماں بیٹے کی اولاد کو جنم دینے کی خواہش مند ہے۔
ایک صحت مند معاشرے میں شرح پیدائش ‘شرح موت سے زیادہ ہوتی ہے یا کم از کم برابر ہوتی ہے لیکن جدید دور کے ترقی یافتہ ممالک میں شرح پیدائش افسوسناک حد تک کم ہے اور جب بات شخصی طاقت کی کی جاتی ہے تو اعداد و شمار منہ چڑاتے ہیں۔
مغربی معاشرے میں 1000 خواتین میں سے83 ہرسال مائیں بنتی ہیں‘ جبکہ بن نکاح ماﺅں میں حمل گرانے کی شرح اپنی انتہا پر ہے یہاں تک کہ ایک امریکی کالج جانے والی نوجوان لڑکی عمر کی بیس بہاریں دیکھنے سے پہلے اس تجربے سے کامیابی سے گزر چکی ہوتی ہے۔
گرتی ہوئی شرح پیدائش کو روکنے کے لیے” گوڈ مدر“ جیسے مکروہ پیشے کو متعارف کروایا جاتا ہے ‘ جس کے لیے قوم پرستی بنیادیں فراہم کرتی ہے۔جنگ عظیم دوئم میں جب بہت ہلاکتیں ہوئیں تو اہل دانش نے قوم کی بیٹیوں کو اپنی کوکھ رضاکرانہ فوجی افسروں کو سونپنے کی اصلاح دی اور تاریخ گواہ ہے کہ زچگی وحمل کی جو تکلیف نوجوان لڑکیاں ذمہ داری کے خوف سے نہیں اٹھا تی تھیں‘ قوم پرستی کے مکر و فریب میں آگئیں۔
خاندانی نظام کے جو چیتھڑے مغرب نے اڑائے ہیں ‘ وہ خدائی ترکیب کی ضد ہیں، وہ ترقی کے جس زینے پر بھی ہوں ذلت،خواری، بدحالی اور عدم وجود ہی ان کی تقدیرہے۔
اس سب کے باوجود مغرب کے دل کا چور اور ضمیر جب بہت آہ و بکا کرتا ہے تو ‘فادرڈے’، ‘مدر ڈے’ اور ‘خاندان کا دن’ کے نام سننے میں آتے ہیں۔
ہمیں اسلام کے دیے ہوئے معاشرتی و خاندانی نظام پر فخر و تشکر کرنا چاہیے جہاں ماں اپنی محبت سے اولاد کو سینچتی ہے،باپ اپنے خون پسینے سے اولاد کو راحت دیتا ہے اور ماں،بہن اور بیٹی کا تقدس معاشرے کو حیا کا تصور دیتا ہے۔
عالمی خاندان کے اس دن پر عہد کرنا چاہئے کہ خاندان کے تحفظ و بقا کے لیے مغربی چالوں سے ہوشیار رہیں گے اور حقوق نسواں کے نام پر خاندان کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہونے دیں گے۔
نوجوان نسل جو اپنے آپ کو تیزی سے مغربی تہذیب میں رنگ رہی ہے، یاد رکھے آج کا مغربی معاشرہ اس شعرکی عملی تصویر ہے
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ‘نا پائیدار ہوگا