محمد عامر خاکوانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں بعض حلقے مذہب کے حوالے سے معذرت خواہانہ (Apologetic)رویہ اپنائے رکھتے ہیں۔ معروف شخصیات خاص کر شوبز، سپورٹس سیلی بریٹیز میں یہ مسئلہ اکثر نظر آتا ہے۔ انہیں شائد یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں لوگ رجعت پسند سمجھ کر مسترد نہ کر دیں یا پھر مذہبی سمجھ کر مذاق اڑائیں گے۔ مذہبی، اخلاقی اقدار کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ان کے حوالے سے بھی مضبوط سٹینڈ لینے کی کوئی جرات نہیں کرتا۔ ان لوگوں کا یہ خدشہ ویسے بلاوجہ نہیں۔
اگر بغور دیکھیں تو بعض ٹرینڈز، بیرئرز دانستہ طور پر ایسے بنانے کی کوشش ہوتی بھی رہی ہے۔دانستہ طور پر ایک منظم پروپیگنڈے کے تحت بعض معاملات کو یوں مقدس بنا دیا جاتا ہے کہ کوئی اعتراض کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ اگر غلطی سے کچھ کہہ بیٹھے تو ایسا طوفان اٹھایا جائے کہ غریب اس کے گردوغبار تلے دب جائے اور آئندہ زندگی بھر ایسی جسارت نہ کرے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ تین چارسال قبل ٹی وی پر ایک اشتہار چلا، جس میں ایک دراز قد، سمارٹ سی لڑکی کرکٹ کھیلنے کے جنون میں اپنے والد کو ناراض کر کے گھر سے چھپ کر چلی جاتی ہے اور پھر اپنی میچ وننگ کارکردگی سے ہیرو بن جاتی ہے،تب اس کا والد نم آنکھوں سے اسے قبول کر لیتا ہے۔اس کا یہ تھیم سوچا سمجھا اور منظم سوچ کے تحت تھا۔
ایک لڑکی کو کرکٹ کی خاطر والدکی ناراضی مول لینا اور گھر سے چلے جانا دکھایا اور پھر اسے لمبے رن اپ کے ساتھ باﺅلنگ کرتا دکھایا گیا، اس کے کلوز اپ شاٹس بھی جس میں شامل تھے۔ مجھے یاد ہے کہ محترم اوریا مقبول جان نے اس پر اعتراض کیا، کالم لکھا اور شائد پروگرام بھی کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اشتہاری ایجنسیوں والے اور ٹی وی چینلز دانستہ طور پر اس قسم کے اشتہار بناتے اور چلاتے ہیں، ان کا مقصد عورت کو سیکس سمبل کے طور پر بیچنا ہے، ورنہ ایک لڑکی کو باﺅلنگ کرتے پیچھے کے بجائے آگے کی جانب سے کیمرے میں کیوں دکھایا گیا؟( یہ اعتراض تکنیکی طو رپر بالکل درست ہے، کرکٹ دیکھنے والے یہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ کیمرہ ہمیشہ باﺅلر کے عقب سے آتا ہے ، چونکہ مقصد بلے باز کو سامنے سے دکھانا ہے، اس کے بغیر وہ گیند کھیلتا نظر بھی نہیں آ سکتا،سامنے سے باﺅلر کو دکھانے کی کوئی تک ہی نہیں،ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب ماہرین اس کے رن اپ پر تکنیکی بحث کر رہے ہوں۔)
اوریا مقبول جان کے اس اعتراض پر یوں طوفان اٹھایا گیا جس کی دوسری مثال نہیں ملتی ۔ میڈیا پر بھی بہت کچھ کہا گیا، مگر سوشل میڈیاپر تو ایک خوفناک مہم چلائی گئی، ہدف اوریا مقبول جان تھے۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے غلط باتیں کی ہیں، عورتوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور عریانی اشتہاربنانے والے نہیں بلکہ اسے دیکھنے والوں کے ذہن میں ہے۔
عریانیت کے وزن پر ”اوریانیت “کی اصطلاح بنائی گئی۔ ہمارے کئی لبرل، سیکولر دوست اس سب میں پیش پیش تھے۔ ایسی تیز دھار، نوکیلی مہم دوسروں کا حوصلہ پست کرنے کے لئے اٹھائی جاتی ہے۔ یہ اور بات کہ اوریا مقبول جان کا یہ کچھ نہ بگاڑ سکے۔
اوریا صاحب سے ہمیں بھی بعض فکری اختلافات ہیں، خلافت کے حوالے سے ان کی تعبیر وتشریح سے اگلے روز جناب سجاد میر نے بھرپور اختلاف کیا اور میرے جیسوں کی نمائندگی کی۔ ثقافتی یلغار اور اخلاقی اقدار پر ہونے والے حملوں کے رد میں اوریا صاحب ایک شمشیر براں ہیں۔ کسی سے نہ دبنے ، پیچھے نہ ہٹنے والے جری شمشیر زن جو آخری ساعت تک لڑتے رہنے پر کاربند رہتا ہے۔
تمہید خاصی طویل ہوگئی۔ شاہد آفریدی کی کتاب گیم چینجر پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ آفریدی نے ان تمام ایشوز پرنہایت مضبوط، غیر متزلزل موقف اپنایا ہے اور کھل کر الفاظ چبائے بغیر بات کی ہے۔ اس نے کرکٹ ٹیم میں مذہبی رنگ درآنے کا دفاع کیا اور کہا کہ مذہب کھلاڑیوں کو زیادہ مضبوط اور ڈسپلنڈ بناتا ہے۔( فطری طور پر اشارہ اس جانب ہوگا کہ جس لڑکے نے صبح اٹھ کر فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنی ہے، وہ رات نائٹ کلب میں تو نہیں گزارے گا۔)
آفریدی نے کتاب میں ایک تصویر بھی شائع کی جس میں یونس خان، آفریدی، عمرگل، سعید اجمل اور دیگر کھلاڑی نماز کی ٹوپی پہنے عبادت کی تیاری کر رہے ہیں۔اس تصویر کا کیپشن Power of Prayer (نماز کی طاقت)رکھا ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں مذہبی رنگ انضمام الحق کے دنوں میں آیا، جب وہ سعید انور کی تبلیغ کے نتیجے میں مذہب کی طرف مائل ہوئے۔ انضمام نے ڈاڑھی رکھ لی اور کھلاڑیوں کو باجماعت نماز پڑھنے کی ترغیب دی ۔
سپورٹس رپورٹرز گواہ ہےںکہ ان دنوں خود کھلاڑی اور ٹیم مینجمنٹ یہ تسلیم کرتی تھی کہ نماز کی وجہ سے کھلاڑی ڈسپلن کے پابند ہوئے ہیں، رات کوکمروں سے غائب ہوجانے کے واقعات اب نہیں ہوتے۔انضمام الحق کو مگر ہمارے لبرل، سیکولر لکھاریوں نے قطعی معاف نہیں کیا۔ ان پر ہمیشہ یہ الزام لگا کہ وہ کرکٹ ٹیم میں مذہب داخل کرنے کا باعث بنے۔
شاہد آفریدی جو نسبتا معتدل اور ماڈرن مجھے جاتے ہیں، انہوں نے بھی اپنی کتاب میں وہی باتیں کیں جو انضمام الحق کہتے تھے ، آفریدی نے ڈٹ کر اپنے موقف کا اظہار کیا اور اس سے نہیں گھبرائے کہ یہ کتاب یورپ اور آسٹریلیا میں بھی فروخت ہوگی۔
اسی طرح شاہد آفریدی نے معروف مذہبی، اخلاقی اور مشرقی اقدار کا بھی ڈٹ کر دفاع کیا۔ بتایا کہ ان کی شادی مکمل ارینجڈ تھی۔ ان کے والد نے بلایا اور کہا کہ ہم تمہارا ایک جگہ رشتہ طے کر رہے ہیں۔ شاہد آفریدی لکھتے ہیں کہ میں نے سرجھکا کر جواب دیا، ٹھیک ہے بابا۔ والد بھی شائد یہ توقع کر رہے تھے کہ میں کوئی اعتراض کروں گا، یوں خاموشی سے مان جانے پر انہوں نے مجھے گلے لگا لیا اور میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔
شاہد آفریدی جیسے مقبول کھلاڑی سے جو سمارٹ ، ڈیشنگ ہونے کے ناتے بے شمار دلوں کی دھڑکن تھا، ایسے ارینج میرج کرنے کی کون توقع کر سکتا ہے؟ روایتی پٹھان کلچر کے مطابق شاہد آفریدی نے اپنے والد کے حکم کے آگے سر جھکایا اور شاہد اس پر پوری طرح مسرور نظر آئے۔ اپنی بیٹیوں کا انہوں نے بڑی محبت سے ذکر کیا۔ واضح الفاظ میں کہا کہ انہیں مکمل اجازت ہوگی کہ جو مرضی ان ڈور کھیل کھیلیں، مگر صر ف ان ڈور۔ کرکٹ ، فٹ بال یا کوئی بھی ایسا کھیل جسے پبلک کی موجودگی میں گراﺅنڈ میں کھیلنا پڑے، اس کی میری بیٹیوں کو قطعی اجازت نہیں ہوگی۔
شاہد آفریدی کو احساس تھا کہ اس کے یہ جملے کیا قیامت ڈھا سکتے ہیں۔ کہا ،” فیمنسٹ حلقے جو چاہے کہیں، مگر میں اپنی بیٹیوں کو آوٹ ڈور کھیل کی اجازت نہیں دے سکتا۔ ایک پٹھان، روایتی والد کے طور پر یہ میرا فیصلہ ہے، جس سے ان کی ماں بھی متفق ہے۔ “سچ تو یہ ہے کہ شاہد آفریدی کے ان جملوں نے میرا دل موہ لیا۔
ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ، جو اسلام کے نام پر بنا اور جسے اسلامی کلچر کا اعلیٰ وارفع نمونہ ہونا چاہیے، آج یہاں پر یہ فضا بنا دی گئی ہے کہ شاہد آفریدی جیسی بات کہنا بھی آسان نہیں رہا۔ کوئی شخص یہ بات کہے کہ لڑکیوں کو پبلک میں فٹ بال نہیں کھیلنی چاہیے اورویمن کرکٹ نہیں ہونی چاہیے ، یہ جملہ کہنا ایسا ہے جیسے کوئی بدترین گالی دے دی گئی ہو۔ جیسے یہ ہی الفاظ فضا میں سنائی دیں گے، نفرت آمیز آوازوں، نعروں، تنقید ، طنزو تشنیع کا طوفان امنڈ آئے گا۔
اسے عورت مخالف، میل شاونسٹ، رجعت پسند، طالبان، مذہبی جنونی اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ دیا جائےگا۔ حالانکہ ایسا کہنےوالا اپنے انداز میں بالکل مناسب اور فطری ردعمل دے رہا ہے۔ ہم اپنی بچیوں کو گھر میں بھی دوپٹہ پہننے، آرام سے چلنے ، جسم کو ڈھانپنے کی تلقین کرتے ہیں۔
سیدہ فاطمہ ؓ کی پاکباز،منور شخصیت کی مثال دیتے ہیں کہ کس طرح شرم وحیا کا اعلیٰ ترین نمونہ انہوں نے پیش کیا اور ہماری بیٹیوں کو ان کی تقلید کرنی چاہیے۔ میری بیٹی لائبہ خاکوانی الحمداللہ فرسٹ ائیر کی طالبہ ہے، جب بھی وہ میرے سامنے آتی ہے، بڑا دوپٹہ لے کر جسم اچھی طرح ڈھانپنے کا اہتمام کرتی ہے۔ اپنی ان بچیوں کو ہم ہزاروں، لاکھوں ننگی، بے لحاظ آنکھوں کے سامنے بھاگنے، دوڑنے، ان کے لطف کا ساماں بنا کر پیش کر دیں؟ جس کا دل مانتا ہے، کرے، مگر ہمیں تو ایسا نہ کرنے کا حق ملنا چاہیے۔
میڈیا، لبرل قوتیں، مغربی اقدار مل کر ایسی فضا بنا دیتی ہیں کہ اپنی بچیوں کو گھر میں محفوظ بنا کر رکھنے والے نَکو، شرمندہ، پریشان، خائف نظر آئیں۔ شاہد آفریدی اس اعتبار سے داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے جرات ، دلیری کے ساتھ سٹینڈ لیااور اپنی بات کہی۔ اسلام ، پاکستان،پٹھان اقدار اور پاک فوج ، ان سب کے بارے میں شاہد آفریدی نے محبت ،خلوص اور غیر معمولی انسیت کے ساتھ باتیں کی ہیں۔
بھارت کے حوالے سے وہ روایتی پاکستانی نظر آئے۔ ہرجگہ یہ لکھا کہ جنگ کے بجائے کھیل کو فروغ دے کر کشیدگی کم کی جائے، مگر بھارتی ٹیم کو ہرانے کی شدید خواہش آفریدی کی تحریر سے چھلکتی نظر آئی۔
ہم میں سے کون ہے جو ایشیا کپ میں شاہد آفریدی کے بھارتی سپنر ایشون کو لگائے چھکے بھول سکتا ہے۔ ایسی شاندار فتح جو پاکستانی شائقین کو شاید کبھی نہ بھولے۔ شاہد آفریدی کی کتاب” گیم چینجر“ میں کھیلوں کے علاوہ بھی خاصا کچھ ہے، ان پر تنقید کرنے والوں کو یہ پہلو بھی سامنے رکھنے چاہئیں۔
ایک تبصرہ برائے “شاہد آفریدی کی کتاب‘‘ گیم چینجر’’ خوشگوار حیرت کا باعث بن گئی”
اس کتاب کو پڑھنے کا ارادہ تھا لیکن اس تبصرے کے بعد جلد سے جلد پڑھنے کو دل کر رھا ھے۔