Game Changer book title

شاہد آفریدی، گیم چینجر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد عامر خاکوانی۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ بیتی (بائیوگرافی)یا خود نوشت(آٹوبائیوگرافی)پڑھنے سے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ ایک تو ہر بائیوگرافی میں کچھ نہ کچھ سیکھنے، سمجھنے کو مل جاتا ہے۔ جب کوئی شخص اپنی زندگی بھر کے تجربات کو بیان کرے تو اسے احترام کے ساتھ پڑھنا چاہیے ۔

میری ذاتی کتابوں میں کئی آپ بیتیاں موجود ہیں،ان میں مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو اور قائداعظم پر لکھی کتب بھی شامل ہیں۔۔ سپورٹس سے چونکہ دلچسپی رہی، اس لئے مختلف کھلاڑیوں کی کئی بائیوگرافیز بھی پڑھیں اور اپنی لائبریری میں بھی شامل کی۔ اپنے اخبار کے سنڈے میگزین میں بھی بعض ممتاز کھلاڑیوں کی آپ بیتی ترجمہ کرا کر شائع کرائیں۔ سر ویو ین رچرڈ، گلین میگرا، کرٹلی ایمبروز، اے بی ڈی ولیئرز وغیرہ۔ آج کل بھی 92نیوز سنڈے میگزین میں جادوگرسپنر شین وارن کی نہایت دلچسپ آپ بیتی قسط وار شائع ہو رہی ہے۔

تین دن پہلے معروف پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی کی بائیوگرافی گیم چینجر(Game Changer) شائع ہوئی۔ یہ ویک اینڈ اس کی نذر ہوا۔ گیم چینجر بہت دلچسپ کتاب ہے۔ معروف اینکر، صحافی وجاہت ایس خان نے اسے لکھا ہے ، سچ تو یہ کہ لکھنے کا حق ادا کر دیا۔ وجاہت خان بہت خوبصورت انگریزی لکھتے ہیں۔ دو برس پہلے ایک صحافی دوست کو اپنی ویب سائٹ کے لئے وجاہت ایس خان کے ایک مضمون کا ترجمہ کرنا پڑا تو وہ ہانپ گئے، معصومیت سے بتایا،ظالم شیکسپئیرین انگریزی لکھتا ہے، اسے ترجمہ کرنے میں پوری انرجی خرچ ہوگئی۔

شاہد آفریدی کی کتاب نسبتا ً آسان انداز میں لکھی، مگر چاشنی والی خوبصورت نثر کے ٹکڑے اس میں جگہ جگہ موجود ہیں۔ کتاب میں مصنف کے تعارفی باکس میں یہ بتایا گیا کہ انہوں نے بھی کرکٹ کھیلی ہے۔ ایسا ہوگا، مگر کرکٹ ریکارڈز وغیرہ سے لگتا ہے وجاہت ایس خان کو زیادہ دلچسپی نہیں رہی، ان کی کرکٹ میموری بھی خاصی کمزور ہے۔

کسی کو مسودہ دکھا لیتے تو غلطیاں درست ہوجاتیں۔ کئی معروف میچوں کی تاریخیں غلط دی گئیں، جیسے جاوید میانداد کا مشہور شارجہ والا چھکا 1986ءمیں لگایا گیا، مگراس کتاب میں 1987لکھا، بعض اعدادوشمار بھی درست نہیں، بہرحال ان سے کتاب کی اہمیت اور مجموعی تاثر خراب نہیں ہوتا۔ آفریدی کی کتاب میں بہت کچھ ایسا ہے جسے پڑھنا چاہیے۔

شاہد آفریدی پشتون ہیں اور ہر پٹھان کی طرح وہ اس پر نازبھی کرتے ہیں۔کتاب میں بہت جگہ پر انہوں نے پٹھان ہونے کا حوالہ دیا اور اپنی کسی کمزوری یا خوبی کا باعث پشتون ہونے کو ٹھیرایا۔اپنے غصے اورٹمپرامنٹ لوز کرنے پر نادم بھی نظر آئے ، مگر اس کا عذر بھی پٹھان ہونا ہی بتایا۔

پشتو محاورے بھی کئی جگہوں پر برمحل استعمال کئے ، مصنف وجاہت ایس خان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس پشتو زبان اور کلچر کو عمدگی سے انگریزی کے محاوروں کے ساتھ بلینڈ کر کے دلکش سماں پیدا کر دیا۔ بعض جگہوں پر مجھے لگا کہ کوئی خاص تاثر یا مثال راوی شاہد آفریدی سے زیادہ وجاہت ایس خان کی تخلیق کردہ ہے۔جیسے اپنی جارحانہ بیٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے لکھاکہ یہ مشین گن کی طرح ہے، جو سب گنوں سے بہت زیادہ رفتار سے فائرنگ کرتی ہے، مگر یہی رفتار مشین گن کی قوت بھی ہے اور کمزوری بھی ، کیونکہ مشین گن دوسری گنوں کے مقابلے میں زیادہ جام بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح میر ی بیٹنگ بھی بار بار جام (ناکام)ہوجاتی ہے اورتسلسل نہیں رہتا۔یہ وجاہت کا تاثر لگا۔

شاہدآفریدی کی کتاب کو میڈیا نے اپنے عمومی مزاج کی طرح سنسنی کی نذر کر دیا۔ اس میں سے چبھتے ہوئے جملے اور متنازع واقعات نکال کر فلیش کر دئیے ۔ یہ تاثر بھی بنا کہ آفریدی نے عمران خان پر تنقید کی ہے اور نواز شریف کی کارکردگی کو سراہا۔ اس پر پی ٹی آئی کے نوجوانوں نے سوشل میڈیاپر شاہد آفریدی کے خلاف محاذ کھول دیا اور خوب تاک تاک کر نشانے لگائے۔ ایک ایسا ہی کاٹ دار جملہ رات کسی فیس بک پوسٹ میں پڑھا،”جس کھلاڑی کو بیس سال تک کھیلتے ہوئے گیند نظر نہیں آئی، اب اسے آٹھ ماہ میں پتہ چل گیا کہ عمران خان کی ٹیم ناقص ہے ۔“

اگر پرجوش ناقدین نے کتاب پڑھنے کی زحمت کی ہوتی یا میڈیا کے جغادری اپنا مورچہ جمانے سے پہلے چند گھنٹے کتاب پر لگا دیتے تو یہ تاثرپیدا نہ ہوتا۔ شاہد آفریدی عمران خان کا فین ہے، عمران کو وہ بے پناہ پسند کرتا رہا، کتاب میں بہت بار یوں تاثر ملا جیسا نوجوان آفریدی عمران خان کو دیوتاﺅں کی طرح چاہتا ، پسند کرتا، ویسا بننا چاہتا ہے۔

بطور کھلاڑی آفریدی نے دل کھول کر عمران خان کی ستائش کی۔کئی بار یہ لکھا کہ کپتان ہو تو عمران خان جیسا، جو فرنٹ پر رہ کر لیڈ کرتا تھا ، ہر کھلاڑی کا بہترین استعمال کرتا اور انہیں مکمل رہنمائی فراہم کرتا۔اس کتاب میں اس نے پاکستان کی ڈریم ٹیم بنائی۔ اس گیارہ رکنی ٹیم کا کپتان عمران خان کو بنایا۔ پاکستان اور انڈیا کے کھلاڑیوں کی مشترکہ ڈریم ٹیم بنائی، جس میں ٹنڈولکر، ویراٹ کوہلی، دھونی ، کمبلے ، سہواگ شامل ہیں، اس ٹیم کا کپتان بھی عمران خان کو بنایا۔

آفریدی نے یہ البتہ ڈنڈی ماری کہ ڈریم ورلڈ ٹیم میں اپنا نام شامل کر دیا۔ حالانکہ کسی بھی پیمانے پر آفریدی ورلڈ ڈریم ٹیم کا حصہ نہیں بنتا۔سپنر کے طور پر اور نہ سپننگ آل راﺅنڈر کے طور پر۔اپنی کتاب میں مگر اتنی دھاندلی کی اجازت تو ہونی چاہیے۔

شاہد آفریدی نے عمران خان کی نسبت پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف زرداری پر سخت تنقید کی۔ بطور صدر زرداری صاحب کی کرکٹ ٹیم سے ایک ملاقات ہوئی، شاہد آفریدی اس میں صدر زرداری کے رویے سے سخت مایوس ہوئے، لکھا کہ انہیں ہماری فتوحات، پاکستانی کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔زرداری صرف تصویربنوانے آئے تھے، فوٹوگرافروں کو دیکھ کر ایک مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائی اور پھر چلتے بنے۔

زرداری پر مزید طنزیہ جملے بھی کسے۔ بلاول پر تنقید زیادہ سخت ہے۔ زرداری حکومت میں اعجاز بٹ بورڈ کے چیئرمین تھے، اعجاز بٹ کے رویے سے نالاں ہو کر آفریدی نے ریٹائرمنٹ کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ انہی دنوں میں بقول شاہد آفریدی بلاول بھٹو کے لوگ اسے ملے اور اعجاز بٹ کے ساتھ معاملات سیٹل کرنے کی پیش کش کی، شرط یہ رکھی کہ آفریدی بلاول بھٹو کے جلسوں میں شریک ہو گا۔ شاہد آفریدی نے فطری طور پر یہ نان سینس تجویز مسترد کر دی۔ ایک کرکٹر کس طرح سیاسی جماعت کے جلسوں میں شریک ہوسکتا تھا؟

بلاول سے ایک ملاقات کا ذکر بھی کیا ۔ لکھا کہ میں سمجھا تھا کہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہے، اسی انداز میں سوچتا، بولتا ہوگا۔ ملاقات کے بعد اندازہ ہوا کہ بلاول تو ایک کٹھ پتلی ہے، اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، پیچھے کوئی اور ڈوریاں ہلاتا ہے۔ عمران خان پر سیاسی حوالوں سے شاہد آفریدی نے تنقید کی ۔ یہ وہی تنقید ہے جو عمران کے بہت سے حامی بھی ان پر کرنے لگے ہیں۔

آفریدی نے لکھا کہ بطور کرکٹر عمران خان بہترین ٹیم منتخب کرتے تھے، پچ کو وہ بہت اچھا پڑھتے اور اپنی ٹیم سے کام لیتے۔ سیاست میں مگر ایسا نہیں۔ ان کی پارٹی میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ان کا نام استعمال کر رہے ہیں، مگر ان کے ہاتھ صاف نہیں۔ آفریدی نے لکھا کہ اب جب عمران خان وزیراعظم بن گئے تو انہیں اب بہتر ٹیم منتخب کر کے ڈیلیور کرنا چاہیے۔ شاہد آفریدی نے عمران خان کے اسلام آباد دھرنے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ جب ان کے دھاندلی کے الزامات کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا تو وہ اسلام آباد پر چڑھ دوڑے ، مگر مطلوبہ لوگ جمع نہ کر پائے ۔

اپنے دھرنے کو زندہ رکھنے کے لئے روز تقاریرکرتے اور کئی بار سٹنٹ کی نوبت آتی۔ ایسی ہی ایک تقریر میں عمران نے مجھے پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ اس تقریر کے بعد مجھے بے شمار فون آئے، کسی نے کہا کہ شامل ہوجاﺅں، کسی نے منع کیا۔ میرے اپنے بھائیوں میں سے بعض کا دباﺅ تھا کہ پی ٹی آئی کا ساتھ دیا جائے۔ میں نے مگر اس سے مختلف فیصلہ کیا۔ کھلاڑی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔

یہیں پر شاہد آفریدی نے ضمناً ذکر کیا کہ میاں نواز شریف بہرحال ڈیلیور کرنا جانتے ہیں۔ مثال دی کہ کراچی، پشاور، کوئٹہ تینوں صوبائی دارالحکومت ہیں، ان کی حالت دیکھ لیں اور لاہور کو دیکھیں، جہاں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔ شاہد آفریدی نے اعتراف کیا کہ خیبر پختون خوا میں عمران خان کی صوبائی حکومت نے کئی اچھے کام کئے، مگر ابھی انہیں بہت کچھ مزید کرنا ہے۔

شاہد آفریدی کی کتاب میں بہت سے انکشافات موجود ہیں۔ جاوید میانداد کے رویے سے وہ بہت شاکی ہیں، وقار یونس کو بدترین کوچ قرار دیا۔ شعیب ملک پر تنقید کی اور کہا کہ اسے بورڈ نے غلط کپتان بنایا، ملک میں‌ کپتانی والا سٹف نہیں۔

کتاب میں بعض حوالوں سے کھل کر لکھا اور کئی پہلوﺅں پر دانستہ بات نہیں کی، مصلحتا ً یا جہاں پر ان کے پسندیدہ کھلاڑیوں وسیم اکرم، انضمام الحق پر حرف آتا ہو۔ میچ فکسنگ سکینڈل کے حوالے سے کھل کر لکھا اور کئی انکشافات کئے۔ اس پر کرکٹ بورڈ کو نوٹس لےنا چاہیے ۔

مجھے شاہد آفریدی کا بھارت کے حوالے سے خاص پاکستانی نیشنلسٹ سٹانس، اسلام کے متعلق غیر معذرت خواہانہ رویہ اور اپنی بیٹیوں کے حوالے سے ایک محبت کرنے والے مگر پٹھان ،مشرقی اخلاقیات کی پاسداری والا مضبوط موقف اچھا لگا۔ پنجابی، سرائیکی محاورے کے مطابق آفریدی نر آدمی لگا۔ بعض اور پہلو بھی دلچسپ ہیں، ممکن ہے کچھ اور بھی لکھا جائے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں