تیجانیہ بنت تیجانی کی والدہ بیٹی سے کہہ رہی تھیں:’’ آپ کو صحرا میں چھٹیاں منانے جانا ہے ، وہاں تمہیں مزے کے کھانے ملیں گے‘‘۔
ماں ایسے کہہ رہی تھی جیسے کسی سمرکیمپ کا ذکر کررہی ہو۔ یہ سن کر تیجانیہ کا مشتاق ہونا فطری تھا ، چنانچہ وہ وہاں پہنچنے کے لئے مچلنے لگی۔ دس روز بعد، براعظم افریقہ کے مغرب میں مغربی صحارا اور سینیگال کے درمیان میں واقع ملک موریطانیہ کے شہر’اطار‘ کی یہ چودہ سالہ لڑکی صحرا میں قائم ایک کیمپ میں دیگرپانچ لڑکیوں کے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کررہی تھی۔ باقی سب کی عمریں سات سے بارہ برس تک تھیں۔ سب کے پیٹ پہلے ہی بڑی مقدار میں بکری کے دودھ سے بھرے ہوئے تھے۔ اب وہ’کسکس‘نامی ایک ایسا افریقی کھانا بھی کھارہی تھیںجو غلہ اور گوشت سے تیار ہوتاہے اور جس میں روغن زیتون خاصا استعمال کیاگیاتھا۔ ’کسکس‘ کے بعد بھی ان کا ناشتہ مکمل نہیں تھا۔
اگلامرحلہ پانی اور باجرے کے آٹے سے تیارکردہ ایک محلول کا تھا۔ تیجانیہ اسے پینے میں مشکل محسوس کررہی تھی لیکن پئیے بغیر اس کی جان نہیں چھوٹ سکتی تھی ۔گلابی لباس پہنے ہوئے ادھیڑعمر عورتیں اسے دھمکا رہی تھیں کہ وہ نہیں پیے گی تو اس کی بانس کے ڈنڈے کے ساتھ ٹھکائی ہوگی۔ ہوسکتاہے کہ آپ یقین نہ کریں تاہم یہ کھانا قے کی صورت میں باہر نکل آنے کی صورت میں تیجانیہ کو وہی قے واپس نگلنا پڑتی۔ تیجانیہ اور دیگرلڑکیوں کے لئے کیمپ سے نکل بھاگنا بھی ممکن نہیں تھاکیونکہ کیمپ صحرا کے عین درمیان میں قائم ہے جہاں اکل وطعام کی تربیت کے نام پر یہ رسم انجام دی جاتی ہے جسے مقامی زبان میں ’’لیبلوہ‘‘ کہاجاتاہے۔ بانس کا ڈنڈہ پکڑے خاتون منتظمہ آمنہ لڑکیوں کو اس قدرکھلاناپلاناچاہتی تھیں کہ وہ پھول کر غبارہ بن جائیں۔
تیجانیہ، جس کے والد لائیوسٹاک کے ڈیلر ہیں، کہتی ہے کہ یہاں اس کا پیٹ ہروقت درد کرتارہتاہے۔ اسے والدین پر سخت غضبناک ہے جنھوں نے اسے یہاں داخل کرایا۔ وہ کہتی ہے:’’ میں موٹی نہیں ہونا چاہتی، میں نہیں سمجھتی کہ موٹاپے میں خوبصورتی کا کوئی پہلو ہوتاہے، مجھے کھیلوں سے محبت ہے لیکن اب میں خوفزدہ ہوں کہ موٹاپے کی وجہ سے زیادہ تیزدوڑنہیں سکوں گی‘‘۔
دنیا بھرمیں عموماً خواتین ایسے جسم کو خوبصورت مانتی ہیں جو موٹاپے سے پاک ہو، وہ اپنے آپ کو سمارٹ یا ’’اوورسمارٹ‘‘ رکھنے کے لئے ڈائٹنگ بھی کرتی ہیں تاہم موریطانیہ میں معاملہ بالکل ہی الٹ ہے ، یہاں کے مردخواتین کو موٹاتازہ دیکھناچاہتے ہیں۔ وہ صرف اسے خوبصورت لڑکی مانتے ہیں جو موٹی ہو، جو لڑکی موٹی نہیں ہوتی، اس کی شادی مشکل سے ہوتی ہے، کوئی مرد اسے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتا، چاہے وہ مردخود نہایت دبلاپتلا ہی کیوں نہ ہو۔
موریطانیہ مجموعی طورپر بدترین خشک سالی اور خوراک کی کمیابی کا شکار ہے، اسے دنیا کے انتہائی غریب ممالک میں شامل کیاجاتاہے تاہم یہاں کے مرد قحط سالی اور خوراک کی کمیابی کی ساری مصیبت خود بخوشی بھگت لیتے ہیں البتہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے دنیا جہان کی خوراک کا اہتمام کرتے ہیں۔ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق یہاں کی 20فیصد خواتین خوب موٹاپے کی شکارہیں جبکہ مجموعی طورپر آدھی سے زائد خواتین ضرورت سے زیادہ وزن کی حامل ہیں۔ ان کے برعکس صرف 4فیصد مرد موٹاپے کا شکار ہیں جبکہ 20فیصد کا وزن زائد ازضرورت ہے۔
اس رسم کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ جو خاتون جس قدرموٹی ہوگی، اسے اسی قدرزیادہ امیرگھرانے کی بیٹی سمجھاجائے گاجبکہ دبلاپن غربت کی علامت قرارپاتاہے۔ چنانچہ یہاں کی خواتین بھی نہیں چاہتیں کہ ان کی بیٹیوں کو کوئی غریب سمجھے ، وہ خوفزدہ ہوتی ہیں کہ ایسا نہ ہو، ان کی بیٹیاں ساری عمر کنواری ہی بیٹھی رہیں۔چنانچہ یہ مائیں بچیوں کواونٹ کادودھ ، زیتون کے تیل میں ڈبوئی ہوئی روٹی اور بکرے کا گوشت خوب استعمال کراتی ہیں۔ ہرلڑکی کو روزانہ14ہزار سے16ہزار حرارے لیناپڑتے ہیں۔
یادرہے کہ ماہرین صحت کے مطابق ایک بارہ سالہ لڑکی کے لئے روزانہ 1500حرارے کافی ہیں جبکہ ایک بالغ مرد باڈی بلڈر 4000تک حرارے لیتاہے۔ ایک چھ سالہ بچی کو مجموعی طورپر ایک دن میں اونٹنی کا 20لٹر دودھ،2کلو باجرہ کی بنائی ہوئی روٹیاں اور 2کپ مکھن کھاناپڑتاہے۔ناشتے کے بعد لڑکیوں کو کیمپ کے اندر قالینوں پر بچھے بستر پر کھایاپیاہضم کرنا ہوتاہے ، کیونکہ دوپہر کے کھانے میں بھی جہاں اور بہت کچھ شامل ہوگا وہاں’کسکس‘ بھی کھاناہوگا جس میں کھجوروں اور مونگ پھلی کااضافہ ہوگا۔
ہرلڑکی کو تین ماہ تک کیمپ میں رکھاجاتاہے ،کیمپ کی منتظمہ ہرلڑکی کی فیس پندرہ ہزار پاکستانی روپوں کے برابر وصول کرتی ہے۔جن علاقوں میں بجلی ہوتی ہے نہ ہی کہیں پانی نظرآتاہے، وہ ایسے کیمپوں کے لئے زیادہ موزوں سمجھے جاتے ہیں۔ والدین کو یہاں بیٹیاں داخل کرانے کے لئے خاصا انتظارکرناپڑتاہے۔ ایک مغربی ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی مارٹن اس رسم کے بارے میں مزید جاننے، اس تجربے سے خود کو گزارنے کے لئے موریطانیہ جاپہنچا۔
اس نے بھی اتناہی کھایا جتنا خواتین یالڑکیوں کو کھلایاپلایاجاتاہے، اس نے بھی خواتین کی طرح ناشتہ میں زیتون کے تیل سے تَر روٹی کھائی، ساتھ اونٹنی کے دودھ سے بھرابڑا برتن بھی پیا۔ اسے بتایاگیا کہ یہاں کی خواتین کو دن میں اسی قسم کاکھانا دویاتین مرتبہ کھاناپڑتاہے۔ مارٹن کہتاہے کہ جب بھی وہ کھانا کھاکے فارغ ہوتا، یوں محسوس ہوتا جیسے وہ سرسے پاؤں تک خوراک سے بھرا ہواہے۔ دودن بعد جب اس نے اپنا وزن کیاتو وہ120 پونڈز سے بڑھ کے 130پونڈز ہوچکاتھا۔ وہ کہتاہے کہ اگردو دن میں میرا یہ حال ہواتو ان لڑکیوں اور خواتین کے موٹاپے کا کیاعالم ہوگا جنھیں ساری عمر اتنی مقدار میں یہ خوراک کھاناپڑتی ہے۔
لڑکیوں کو کھلاپلاکرموٹاکرنے کا رواج گیارھویں صدی عیسوی سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے مختلف حصوں میں پایاجاتاتھا۔تاہم بعدازاں کئی علاقوں سے یہ ظالمانہ رواج مٹنا شروع ہوگیا تاہم موریطانیہ میں یہ برقراررہا۔ اگرچہ اس رسم کے نقصانات سامنے آرہے ہیںتاہم اسلامی جمہوریہ اسے غیرقانونی قراردینے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ سن 2003ء میں حکومت نے بچوں کے استحصال کے خلاف ایک مہم شروع کی تھی ، اس دوران موٹاپے کے خلاف شعورپھیلانے کی کوشش بھی کی گئی تھی اور لوگوں کو اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات سے بھی آگاہ کیاگیاتھا۔ بعدازاں جب مغربی فیشن کے اثرات یہاں پہنچنے لگے تو اس سے متاثر ہوکر یہاں کی شہری خواتین ’سلم‘ ہونے کی کوشش کرنے لگیں۔ اگست 2008ء میں یہاں فوجی بغاوت کے نتیجے میں سویلین حکومت ختم ہوگئی۔ جس کے بعد اس ظالمانہ رسم کے خلاف کوششیں ختم ہو کر رہ گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس علاقے میں80فیصد لڑکیاں اب بھی اس ظالمانہ رسم کی شکار ہوتی ہیں۔ فوجی بغاوت سے پہلے دیہاتی علاقوں میں یہ شرح50سے60فیصد تک کم ہوگئی تھی اور شہروں میں20سے30فیصد۔
سوال یہ ہے کہ یہ چھوٹی لڑکیاں کیسے اتنی زیادہ مقدارمیں ثقیل غذا کھاسکتی ہیں؟ کیمپ کی منتظمہ آمنہ بنت الحسان کہتی ہیں:’’ میں بہت سخت ہوں، میں ان لڑکیوں کی بانس کی چھڑی کے ساتھ پٹائی کرتی ہوں، ان کے پاؤں کی انگلیوں کو ڈنڈوں کے درمیان دباتی ہوں۔ میں انھیں باقی لڑکیوں سے الگ کرلیتی ہوں اور پھر انھیں سمجھاتی ہوں کہ دبلی پتلی عورتیں کم تردرجے کی ہوتی ہیں۔‘‘ تاہم وہ انکارکرتی ہے کہ وہ لڑکیوں پر ظلم کررہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں:’’ نہیں، نہیں!! یہ خود ان کی بھلائی کے لئے ہے۔ اگریہ غریب بچیاں ہڈیوں کا ڈھانچہ رہیں گی تو انھیں شوہرکیسے ملے گا‘‘۔
اس رسم کا ایک دوسرا ظالمانہ پہلو وقت سے پہلے شادی کا ہے۔ محض 12سے14برس کی عمر میں یہ موٹی لڑکیاں ایسے لگتی ہیں جیسے اب ان کی شادی نہ ہوئی تو ان کی عمر ڈھل جائے گی۔حقیقت یہ ہے کہ پھولتے ہوئے جسم میں موجود دماغ سکڑتارہتاہے۔ کیونکہ ایسی بچیوں کے دو ہی کام ہوتے ہیں، کھاناپینا یا پھر سونا۔ اس طرح نشوونما پانے والی لڑکیاں جسمانی طورپر بالغ معلوم ہوتی ہیں لیکن ذہنی طورپر نابالغ۔آپ خود ہی اندازہ کرلیں کہ ایسی لڑکیاں اچھی بیویاں کیسے بن سکتی ہوں گی!! تیجانیہ چاہتی ہے کہ وہ فرنچ زبان کی استانی بنے تاہم کیمپ کی منتظمہ آمنہ نے بتایا کہ لڑکی کے والدین پہلے ہی اس کی شادی طے کرچکے ہیں۔ استانی بننا اس کا کام نہیں ہے، اس کی یہی ملازمت ہوگی کہ وہ بچوں کو جنم دے اور اپنے شوہر کے لئے راحت وسکون کا ذریعہ بنے۔
’اطار‘شہر میں کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جو اس ظلم کے خلاف دیاجلارہی ہیں، مثلاً 26سالہ زینب بنت محمد۔ وہ پانچ فٹ چارانچ قد اور200پونڈز سے زائد وزن کی حامل خاتون ہیں، پرچون کی ایک دکان چلاتی ہیں، وہ ان خواتین میں شامل ہیں جو موٹاپے سے نفرت کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’’ جب میں بچی تھی تو مجھے بھی زبردستی کھلانے کی کوشش کی گئی تھی، پہلی بارمجھے بھاری بھرکم کھاناکھلایاگیاتو میں نے قے کردی، ساتھ ہی میرے سینے میں جلن شروع ہوگئی اور میں ہیضے کا شکار ہوگئی۔ اس کے باوجود مجھے کیمپ میں ہی رکھاگیا، جہاں میرا وزن تیزی سے بڑھنے لگا‘‘۔تیرہ برس کی عمر میں زینب کی شادی ایک بڑی عمر کے آدمی سے کردی گئی۔سولہ برس کی عمر میں وہ دوبیٹوں کی ماں بن چکی تھی۔ کچھ عرصہ بعد بہت سی دیگرٹین ایجرز کی طرح اسے بھی طلاق دیدی گئی۔ اس کے فوراً بعد بہت سے نوجوانوں نے اس سے شادی کی کوشش کرنے لگے، وہ کہتی ہے: ’’ تب مجھے احساس ہوا کہ موریطانیہ میں موٹی خواتین کس قدر پسند کی جاتی ہیں۔
لوگ میری تعریف کرتے ہوئے کہتے :’’آپ اس شہر کی سب سے خوبصورت لڑکی ہو‘‘۔ ’’دلچسپ بات ہے کہ بہت سے مردوں کے مابین صرف اس لئے جھگڑے ہوئے کہ ان میں سے ہرایک کہتاتھا کہ صرف اسے ہی مجھ سے شادی کرنے کا حق حاصل ہے‘‘۔ اگرزینب موٹی نہ بھی ہوتی تواس کی بڑی بڑی آنکھیں اور کرشماتی مسکراہٹ ہی اس کی خوبصورتی کو دوچندکررہی تھی۔ تاہم مردوں کی نظر میں یہ دونوں خصوصیات کوئی وقعت نہیں رکھتی تھیں۔ ’’ جب میں نے یہ دیکھاتو پھر میں نے مزید موٹی ہونے میں دلچسپی لیناشروع کردی‘‘۔ بالآخر ایک انتیس سالہ نوجوان باباسلامہ نے زینب کا دل جیت لیا۔ بابا سلامہ موریطانوی نوجوانوں کی اکثریت کی طرح بہت دبلاپتلاہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ وہ زینب کو برترحیثیت بھی دیتاہے۔ وہ کہتاہے:’’ زینب حد سے زیادہ خوبصورت ہے، مجھے اس سے محبت بھی حد سے زیادہ ہے‘‘۔
اب زینب کہتی ہے:’’میں جلدتھک جاتی ہوں اور جب چلتی ہوں تو سانس پھول جاتاہے۔ اس لئے میں اب اپنا وزن کم کرناچاہتی ہوں تاکہ تواناشخصیت بن سکوں۔ میں ڈائٹنگ کرنا چاہتی ہوں لیکن ڈرتی ہوں کہ مردوں کی محبت سے محروم ہوجاؤں گی‘‘۔ اسے یہ ڈربھی ہے کہ اس کا اپنی سہیلیوں میں وہ ’’شاندار‘‘مقام ختم ہوجائے گا جس پر ہرکوئی ناز کرتاہے۔ اس کی ایک سہیلی حور کہتی ہے کہ وہ زینب کے خوبصورت جسم سے حسد محسوس کرتی تھی، 26سالہ حورکا اپنا قدساڑھے پانچ فٹ ہے جبکہ وزن180پونڈز ہے۔ اگرچہ وہ اس وزن کی وجہ سے بھی مختلف مسائل کاسامنا کررہی ہے تاہم اس کا شوہر اسے ہڈیوں کا ڈھانچہ کہہ کر اپنی ناپسندیدگی کا اظہارکرتاہے۔
شوہر کی پسندیدگی حاصل کرنے کے لئے حور نے وزن بڑھانے کے لئے ادویات کا استعمال شروع کردیا۔اس قسم کے ادویات کے انسانی صحت پر برے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں، مثلاً کم فشارخون( لوبلڈپریشر)، آنکھوں اور گردوں کی خرابی۔ یہ اس رسم کا ایک تیسرا خطرناک پہلو ہے۔ اس رسم کے خلاف جدوجہد کرنے والی آمنہ کی ایک ہمسائی نے دوران حمل فربہ کرنے والی ایسی دوائی استعمال کرلی تھی جوجانوروں کے لئے تھی، کسی نے اسے بتایاتھاکہ یہ دوائی استعمال کرنے سے اس کا بچہ موٹا پیدا ہوگا لیکن وہ خاتون اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھی۔ موریطانی ڈاکٹر محمد اولدمدنی کہتے ہیں کہ اس رسم کی وجہ سے یہاں کی خواتین کی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہیں، ذیابیطس اور ڈپریشن کے مریضوں میں اضافہ ہورہاہے۔
ہوسکتاہے کہ جلد ہی موریطانیہ کے شہری علاقوں میں یہ رسم مکمل طورپر ختم ہوجائے کیونکہ یہاںبڑھتا ہوا شعور ظاہر بھی ہورہاہے، لوگ سمجھ رہے کہ یہ طرزعمل انسانی صحت کے لئے کس قدرخطرناک ہے، لڑکیاں موٹاہونے سے صاف انکار کررہی ہیں، وہ کھیل کود میں حصہ لینے کے لئے سلم رہناچاہتی ہیں، حتیٰ کہ اب خواتین کے جم بھی بن چکے ہیں جہاں فربہ لڑکیاں یاخواتین پسینہ بہاکر اپنا موٹاپا ختم کررہی ہیں۔ البتہ دیہاتی علاقوں میں مردوں کی پسند کو خاطر میں لاتے ہوئے لڑکیوں کو موٹاکرنے کا عمل اب بھی جاری وساری ہے۔