مشرقی دنیا ہو یا مغربی، سیاہ رنگ کو عمومی طور پر ماتمی رنگ سمجھا جاتا ہے، یہ جارحیت اور احتجاج کا رنگ بھی ہے۔ زبان و بیان میں بھی سیاہ رنگ کا استعمال زیادہ تر منفی انداز میں ہوا۔
کہا جاتا ہے کہ فلاں کا دل سیاہ ہوچکا ہے، اس کا واضح مطلب ہے کہ وہ ایسی گمراہی میں پڑگیا ہے کہ اس کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اسی طرح ’’کالی بھیڑ‘‘ کی اصطلاح بھی اردو زبان بولنے اور پڑھنے والوں کے لیے واضح ہے۔ انگریزی زبان میں کسی کو ’’بلیک لسٹ‘‘ قرار دینے کے معانی ہیں، اس پر کسی عمل میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی۔ اسی طرح کسی کو ’’بلیک گارڈ‘‘ کہا جائے تو مطلب ’’برا نوجوان‘‘ ہوگا۔ ’’بلیک میل‘‘ کے معانی بھی سب پر کھلے ہوئے ہیں۔ بجلی دور دور تک غائب ہوجائے اور اندھیرا چھا جائے تو اس صورتحال کو ’’بلیک آؤٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ قوت بصارت سے محرومی، شعور کے خاتمہ اور کسی چیز کو مٹا دینے کے عمل کو بھی ’’بلیک آؤٹ‘‘ ہی کہا جاتا ہے۔ ’’بلیک مارکیٹ‘‘ کی اصطلاح بھی منفی معانی میں ہی ہے۔ مجموعی طور پر سیاہ رنگ منفی معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی فرد اپنی شادی کا لباس سیاہ رنگ کا تیار کرائے تو لوگ پورے تیقن سے کہیں گے کہ اس کی ذہنی صحت خراب ہے۔ چنانچہ مغرب اور عرب دنیا میں زیادہ تر عروسی لباس سفید ہوتا ہے جو پاکیزگی کی علامت ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ سیاہ لباس کو جنازوں اور تعزیت کے مواقع پر ہی پہنتے ہیں۔ تاہم موریطانیہ میں ایسا نہیں ہے۔
شمالی افریقہ کے اس مسلمان ملک میں مور قبیلے سے تعلق رکھنے والی دلہن عروسی لباس پر سیاہ چادر اوڑھتی ہے۔ یہ یہاں کی بدوی روایت ہے۔ البتہ دولہا مکمل سفید لباس ہی میں ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر دلہن کے لیے سیاہ عروسی ملبوسات اس کے پیدا ہوتے ہی تیار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان پر کڑھائی کی جاتی ہے اور موتی ٹانکے جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ اس لباس کے جمالیاتی، طبی اور مذہبی معانی بیان کرتے ہیں۔ ایک موریطانی استانی آمنہ کے مطابق:
اول: موریطانی لڑکیوں اور خواتین کے حسن کی مثال پیش کرنی ہو تو ان کی پیلی جلد اور سفید دانتوں کی بات کی جاتی ہے۔ سیاہ ملبوسات میں یہ دونوں چیزیں زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔
دوم: یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس کپڑے سے یہ لباس تیار کیا جاتا ہے، وہ امپورٹڈ ہوتا ہے اور ہمسایہ ملک مالی سے درآمد کیا جاتا ہے۔
سوم: موریطانی قوم کہتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا کے آخری معرکوں میں جس لشکر کی کامیابی کی پیش گوئی فرمائی تھی، وہ سیاہ لباس والا ہوگا۔
یہاں کے دیگر عجیب رواجوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دلہن وہی اچھی جس کا وزن کم از کم 100 کلو گرام ہو۔ ایسی ’’صحت مند‘‘ دلہنیں تیار کرنے کے لیے باقاعدہ فارم صحراؤں میں قائم ہیں۔ جہاں انہیں خوب کھلایا پلایا جاتا ہے۔ یہاں لڑکی کی شادی کے سارے معاملات اس کی ماں ہی طے کرتی ہے، باپ کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی کو پسند کرتا ہے تو اس (لڑکے) کی والدہ کچھ تحائف لے کر لڑکی کے گھر جاتی ہے اور رشتہ مانگتی ہے۔ اگر لڑکی کی ماں راضی ہوجائے تو شادی طے پاتی ہے۔ اگر کسی لڑکے کو موٹی لڑکی مل جائے تو وہ خوش قسمت تصور ہوتا ہے۔ جتنی موٹی دلہن ہوگی، اسی قدر شاندار شادی کی تقریب ہوگی۔