عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔۔۔
ممتاز سفرنامہ نگار، ادیب مستنصرحسین تارڑ کہتے ہیں: ’’ یہ شخص ایک شخص نہیں بلکہ ایک عجائب گھر ہے۔ اس عجائب گھر میں کیسے کیسے نوادرات سجے ہوئے ہیں۔ کہیں اس پاک وطن پر نازل ہونے والی آفتوں میں وہ ایک غیب کا فرشتہ بن کر اجڑ چکے لوگوں کے لئے نئی بستیاں آباد کرتے ہیں، کنویں کھودتے ہیں اور تھرپارکر کے صحراؤں کی پیاس بجھاتے ہیں اور کہیں وہ اللہ کے گھر کے بندے بن کرایک ایسے جذبے میں ڈوب جاتے ہیں کہ خدا اس بندے سے خود پوچھتا ہے کہ بتا تیری رضا کیا ہے‘‘۔
یہ بھی ایک عجوبہ ہے کہ محکمہ کسٹمز ہو، انسان اس کا چیف کلیکٹر ہو لیکن وہ بدعنوان نہ ہو، سادگی پسند ، باعمل مسلمان ہو اور اس کے اکاؤنٹس خالی پڑے ہوں۔ ایسے سرکاری افسر ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ کیا آپ نے کوئی ایسا بڑا افسر دیکھا جس کی پہلی ترجیح اس کی ذات نہ ہو، اپنا خاندان نہ ہو ، باقی انسانیت ہو۔
وہ اس کے درد میں مبتلا ہوکرخیبر تا کراچی بلکہ بیرون پاکستان بھی دوڑے پھرتا ہو، اپنی استحقاقیہ چھٹیاں بھی اسی مشن میں لگا دیتا ہو۔ آپ اس کے پاس بیٹھے ہوں، اس کی گفتگو سن رہے ہوں تو گمان گزرتاہے کہ یہ کوئی مستجاب الدعوات شخص ہے، جس کی تاریں براہ راست اوپر والے سے جڑی ہوئی ہیں۔یہ تصویر ہے ڈاکٹرآصف محمود جاہ کی۔
زندگی کا سفر شروع ہوتا ہے
’’سرگودھا میں پیدا ہوئے، والد صاحب کا دین کی طرف رجحان تھا، مجھے فخر ہے کہ میں ٹاٹوں والے سکول میں پڑھا ہوں، پھر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج پہنچا جہاں ایچی سن کالج اور ہارورڈ یونیورسٹی جیسے تعلیمی اداروں سے پڑھ کر آنے والوںسے بہتر پوزیشن حاصل کی۔
پہلی درسگاہ خالقیہ پرائمری سکول، پھر سرگودھا امبالہ مسلم ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ ایف ایس سی کے لئے گورنمنٹ کالج سرگودھا میں داخلہ لیا، سرگودھا بورڈ میں دوسری پوزیشن تھی، یہ اس وقت کی بات ہے جب سرگودھابورڈ میں فیصل آباد بھی شامل تھا، پھر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا، یہاں تھرڈ ائیر یا فورتھ ائیر میں تھا کہ خدمت خلق کا سفر شروع کیا‘‘۔
’’میوہسپتال کے کاریڈور میں گھوم پھر رہا تھا کہ ایک بزرگ کو بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے دیکھا،پوچھا کہ کیوں بیٹھے ہو؟ کہنے لگے کہ ڈاکٹرکو دکھادیا، اس نے یہ پرچی لکھ دی ہے، اب ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں، تب ذہن میں یہ بات آئی کہ جب ڈاکٹربنوں گا تو ایک ایسا ادارہ بناؤں گاکہ جہاں مریض مفت میں چیک ہوں، ان کے ٹیسٹ بھی مفت ہوں اور انھیں ادویات بھی مفت ملیں۔
یہ 1980ء کے بعد کی بات ہے،ان دنوں ایک ’پیشنٹ ویلفئیرایسوسی ایشن‘ہوتی تھی، اس کے ساتھ مل کر کام کیا، بلڈ ڈونیشنز جمع کئے ،یہ آغاز تھا۔1987ء میں ایم بی بی ایس کیا،میوہسپتال میں ہاؤس جاب شروع ہوئی، اسی اثنا میں اقوام متحدہ کے ادارے ’یونیسف‘ کے ساتھ مل کر ’ادویات کے مضراثرات‘ کے بارے میں پراجیکٹ کیلئے کام کیا۔ پھر میری پہلی کتاب ’Cure with Care ‘کے عنوان سے آئی۔ ’علاج اور احتیاط‘ کے نام سے اس کا اردوترجمہ بھی شائع ہوا‘‘۔
میرا ارادہ
’’اس وقت ایک اور بات ذہن میں آئی کہ اللہ تعالیٰ نے روزی، روٹی کا انتظام کردیا تو میڈیکل کو کمائی کا ذریعہ نہیں بناؤں گا لیکن یہ ہوگا کیسے؟ ایسا کوئی نقشہ نہیں تھا۔ان دنوں بہت سے ڈاکٹرز سی ایس ایس کررہے تھے، میرا بھی پروگرام بن گیا، میرا سی ایس ایس ہوگیا اور کسٹم میں جاب ہوگئی۔ جب میں سول سروسز اکیڈمی میں آیا تو اس وقت میں نے اپنا شعار بنالیا کہ دوائیاں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنی ہیں۔اس اعتبار سے پہلی ڈسپنسری سول سروسز اکیڈمی میں قائم ہوئی۔ وہاں لوگوں کو طبی مشاورت دیتا، علاج کرتا، بڑے فخر سے بتاتا کہ میں ڈاکٹر ہوں، ورنہ سول سروس میں آکر میرے اپنے ساتھی اپنے آپ کو ڈاکٹر نہ کہنے کی ہدایت کرتے ہیں‘‘۔
پہلی پوسٹنگ اور پہلی ڈسپنسری
’’1994ء کے شروع میں پہلی پوسٹنگ ملتان میں ہوئی، وہاں باقاعدہ پہلی ڈسپنری کی بنیاد رکھی، وہ سٹاف کے لئے تھی۔ ایک سال گزرا تو فیصل آباد ٹرانسفر ہوگئی، وہاں بھی ’کسٹم ویلفئیر کلینک‘ کا آغاز کیا۔ یہ1995ء کی بات ہے، دوسال تک فیصل آباد میں رہا،اسی سال شادی ہوئی، وہاں گھر کرائے پر لیا، گھر کے ڈرائنگ روم کو کلینک بنالیا، دفتر سے واپسی پر اپنے ڈرائنگ روم میں آئے ہوئے مریضوں کو دیکھتا۔ آہستہ آہستہ امدادی کاموں کا دائرہ پھیلنے لگا۔ فیصل آبادہی میں ہم میڈیکل کیمپ بھی لگانے لگے، کہیں سیلاب آجاتا تو وہاں چلے جاتے۔1997ء کے آخر میں ٹرانسفر لاہور ہوگئی۔
اصل امدادی کام کا آغاز لاہور میں ہوا، جو 1998ء میں ایک مسجد کے ایک کمرے سے شروع ہوا، یہ ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاؤن کی نورانی مسجد تھی۔ مغرب کی نماز پڑھ کر مسجدکلینک آجاتا۔ساتھ ساتھ لکھنے کا کام بھی جاری رہا، 1996ء میں دوسری کتاب ’ہیلتھ کئیر‘ کے عنوان سے آئی۔ پھر ایک کورس کے سلسلے میں جاپان جانے کا اتفاق ہوا ۔ جاپان کے سفر پر کتاب 1998ء میں’سورج دیوتاکے دیس میں‘ کے عنوان سے چھپی، پھر تین سال ائیرپورٹ پر پوسٹنگ رہی، وہاں بڑے سمگلروں کا مقابلہ کیا، بہت چوری ہوتی تھی، وہ روکی، بڑے بڑے کیسز پکڑے، ایک بار 25کلو سونا پکڑا۔ ساتھ ساتھ کلینک کا سلسلہ بھی چلتارہا۔ 2000ء میں میری پوسٹنگ ڈرائی پورٹ ہوگئی‘‘۔
کسٹم ہیلتھ کئیر سوسائٹی
’’98ء میں کسٹم ہیلتھ کئیر سوسائٹی کی بنیاد رکھی، یہ نام اس لئے رکھا کہ زیادہ تر لوگ کسٹم کے تھے، تاہم اس میں ادارے کی کوئی مداخلت نہیں ہے۔ساتھی مدد کرتے ہیں،ادارہ بھی تعاون کرتاہے، جب بھی میں ایسی کسی مہم پر جاتاہوں تو دفتر سے اپنی استحقاقیہ چھٹی لے کر جاتاہوں۔ میں نے 27سالہ ملازمت میں کبھی کوئی چھٹی اپنی ذات کے لئے نہیں کی۔
ہمارے بعض لوگ رضاکارانہ طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں، بعض کو معاوضہ دے کر اپنے ساتھ لگایاہواہے، بارہ، تیرہ لاکھ روپے تنخواہوں کی مد میں جاتے ہیں۔پاکستان کے سارے صوبوں میں ہمارا نیٹ ورک موجود ہے۔ سکول ٹیچرز، ڈاکٹرز۔ زیادہ ترہمیں فنڈنگ مقامی سطح سے ملتی ہے، میرے دوست امریکا، برطانیہ، جاپان میں ہیں، وہ رابطہ کرتے ہیں، میڈیا نے بھی ہمیں بہت سپورٹ کیا۔ ہم نے کسی غیرملکی این جی او کے ساتھ ہاتھ نہیں ملایا۔‘‘
زلزلہ2005
ہمارے کام کو باقاعدہ شناخت 2005ء کے زلزلہ کے بعد ملی۔ بہت بڑا زلزلہ تھا۔ میں ڈپٹی ڈائریکٹر انٹیلی جنس تھا۔مجھے ایف بی آر کے ایک ممبر کا فون آیا کہ تمہاری فلاحی سرگرمیوں کا بہت چرچا سنا،آپ ڈاکٹروں کی ایک فہرست بنائیں، بہت سے ڈاکٹرز کسٹم میں تھے۔ زلزلہ کے بعد دوسرا یا تیسرا دن تھا۔ چنانچہ میں نے کہا کہ ہم زلزلہ زدہ علاقوں میں جانے کیلیے تیار ہیں۔ ہم نے اپنا پورا ہسپتال اٹھایا، مانسہرہ پہنچ گئے، اسے ہیڈکوارٹر بنایا، ایف بی آر، انکم ٹیکس سے فنڈز آتے رہے۔
ان دنوں لاشوں کو دفنانے کے لئے سب سے زیادہ طلب لٹھے کی تھی۔ رمضان کا مہینہ تھا، صبح نکلتے تھے اور شام کو واپس لوٹتے تھے، کبھی افطاری میں کھانے کو کچھ مل جاتا اور کبھی نہیں۔ ایک دن ہم کشمیر میں تھے، لینڈ سلائیڈنگ شروع ہوگئی، ایک بڑا پتھر اوپر سے آیا ،ہم اس کی زد میں تھے، اگرایک لمحہ کی دیر ہوجاتی تو ہم اورہماری گاڑی کا پتہ ہی نہیں چلناتھا‘‘۔
’’اس کے بعد سفر نہیں رکا،2008ء تک ہم کشمیر میں آتے جاتے رہے، متاثرین کے علاج، پھر ان کی بحالی کیلئے کافی کام کیا۔ پھر زیارت میں زلزلہ آیا، ہم وہاں پہنچ گئے، ہم نے انھیں سب سے پہلے 50سے زائد سٹیل کے گھر بناکر دیے۔2005ء کے زلزلہ پر کتاب لکھی:’زلزلہ ، زخم اور زندگی‘۔ اس طرح کی مہمات میں ہماری ٹیم بنتی گئی۔ شروع میں ٹیم لاہور کی سطح تک تھی، اس کے بعد ہمیں دیگر علاقوں سے ساتھی ملناشروع ہوگئے۔ لوگوں کو پتہ چلنا شروع ہوگیا، کینوس بھی بڑھ گیا، 2006ء میں پہلے ایک کمرے کا کلینک تھا، اب ہمیں ایک گھر مل گیاجہاں کلینک چلنے لگا۔
’’2009ء میں سوات کا بحران سامنے آتاہے، وہاں سے لوگ آنا شروع ہوگئے،مئی کا مہینہ تھا، تیس لاکھ مہاجرین مردان، صوابی، کاٹلنگ کے علاقوں میں آگئے۔ ہم اپنی ٹیم کے ساتھ کئی ٹرکوں میں سامان بھر کے مردان پہنچ گئے۔ وہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ حاملہ خواتین تھیں، ان کے لئے میٹرنٹی کا کوئی انتظام نہ تھا۔ ہم نے مردان کے نزدیک ایک مقام پر ایک مکمل’ میٹرنٹی ہوم‘ قائم کیا، وہاں پہلا بچہ جو پیدا ہوا، اس کا نام ’آصف خان‘ رکھاگیا۔ اس وقت اقوام متحدہ کی رپورٹس آتی تھیں کہ اس بحران سے پاکستان کی معیشت تباہ ہوجائے گی۔ آئی ڈی پیز آئیں گے تو واپس نہیں جائیں گے۔ مگر وہ لوگ مئی میں آئے اور جولائی میں واپس چلے گئے۔ اس پر میری کتاب ’سوات، ہجرت اور خدمت‘ کے عنوان سے آئی۔
ڈوبتے شہر
’’ ہم ہنزہ اور گلگت جانے کے لئے تیار بیٹھے تھے، فیملی بھی ساتھ تھی،اسی دوران میں فون آیا کہ سیلاب آیا اور نوشہرہ سے جنوبی پنجاب تک بہت سے علاقے ڈوب گئے۔جب ہم کنڈر پہاڑ نوشہرہ پہنچے تو وہاں پانی بیس فٹ بلند تھا، اس وقت وہاں ہمارے سوا کوئی دوسری تنظیم نہیں پہنچی تھی۔ اس کے بعد ہمیں عطیات ملنا شروع ہوگئے، شارجہ کے حکمران کے دو فنانشل ایڈوائزرز تھے، وہ پاکستانی تھے، ان میں سے ایک عزیز الرحمٰن آئے، انھوں نے سب کا کام دیکھا، ہم سے بھی تعاون کیا، اس کے بعد ہم نے بحالی کا کام یعنی گھر بنانے شروع کردئیے۔
پہلا گھر نوشہرہ میں بنایا، پھر چارسدہ اور پشاور میں۔ پھر اس وقت کے وزیراعلیٰ شہبازشریف کے ساتھ میٹنگ ہوئی۔ وہ کہنے لگے کہ آپ لوگوں نے چار سو، پانچ سو گھر خیبرپختونخوا میں بنالئے ہیں، اب پنجاب میں بھی بنائیں۔ یوںہم نے جنوبی پنجاب کے علاقوں مظفرگڑھ اور محمود کوٹ میں بھی کام شروع کیا۔ مجموعی طور پر ہم نے تقریباً 800گھر اور مساجد تعمیر کیں‘‘۔
’’نوشہرہ میں 500سال پرانی ایک مسجد تھی جو آدھی دریائے کابل کے اندر تھی اور آدھی باہر۔ہم نے اسے تعمیر کیا، اس وقت اس پر تیس چالیس لاکھ روپے لگے۔ پھر گھر بناکے بھی دیناشروع کردئیے۔ 2012ء میں شارجہ کی حکومت نے ہمیں موبائل ہسپتال بھی لے کر دیا، یوں ہمیں میڈیکل کیمپ لگانے میں آسانی ہوگئی۔ اس پر کتاب ’’ڈوبتے شہر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔‘‘
سیلاب زدگان کی خدمت
2010ء ہی میں عطاآباد جھیل کا واقعہ ہوگیا، پہاڑ گرا اور پھر وہاں ایک جھیل بن گئی۔28کلومیٹر چوڑی اور480 فٹ گہری۔ آدھا شہر اس میں ڈوب گیا۔ ہم اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچے۔ ہمیں ہنزہ سے ایک ہیلی کاپٹر شیش کٹ گاؤں میں لے گیا۔ہم نے وہاں امدادی کام کئے۔
’’2011ء اور 2012ء میں ہم سیلاب زدگان ہی کی خدمت کرتے رہے۔ اس دوران میں گھر، مساجد اور ادارے بنتے رہے۔مظفرگڑھ میں ہم نے پوری پوری بستیاں بنائیں۔ کمیونٹی سنٹر، ہسپتال اور ایک سکول مظفرگڑھ میں بنایا۔2014ء میں وزیرستان سے آئی ڈی پیز کی آمد شروع ہوگئی۔ ہم بھی وہاں پہنچے اور بنوں میں اپنا ہیڈکوارٹر بنالیا۔ ان دنوںگرمیاں تھیں، ہم آئی ڈی پیزکے کیمپوںمیں جاکر کام کرتے رہے۔ ہم سولر فین اور سولر پینلز سے بھرے ٹرک لے کر وہاں پہنچے۔ ایک انٹری پوائنٹ پر کلینک بنایا، دوسرا بنوں اور تیسرا لکی مروت میں۔ 2014ء میں قائم کردہ یہ کلینک ابھی تک چل رہے ہیں۔ باقاعدگی سے ادویات جاتی ہیں، عیدپیکج، ونٹرپیکج، رضائیاں وغیرہ سب کچھ جارہاہے‘‘۔
بلاامتیازخدمت
’’جہاں ہماری خدمات کے مراکز بنتے ہیں، پھر وہ چلتے ہی رہتے ہیں۔2015ء میں چترال میں سیلاب آگیا۔ وہاں وادی کیلاش، بمبوریت میں ساری سڑک ٹوٹی ہوئی تھی، ہم نے پیدل سفر کیا، گدھوں پر سامان رکھاہواتھا،ہم تھک گئے تو دس، بیس کلومیٹر گدھے پر سواری کی، وادی کیلاش میں ہم نے بہت کام کیا۔ وہاں کے کافروںکو ہم نے گھر بناکردیے۔
ہم نے بمبوریت میں ایک بڑی خوبصورت مسجد بنائی۔ اس کے بعد ایک دوسری مسجد اور ایک کمیونٹی سنٹر بھی بن گیا۔ اب وادی چترال میں ہمارے چھ کلینکس ہیں۔ رمضان المبارک اور عیدین پر ہماری باقاعدہ ریلیف سرگرمیاں چل رہی ہیں۔ بڑی عید پر ہرگاؤں میں قربانیاں ہوتی ہیں۔ہم جہاں بھی گئے تو ہم نے بلاتخصیص رنگ ونسل و مذہب، سب کے لئے کام کیا۔ ہم گرجوں میں بھی پہنچے اور عیسائیوں کو بھی امداد فراہم کی، انھیں سامان دیا‘‘۔
علیحدگی پسندوں کے علاقے میں پاکستان زندہ باد کے نعرے
2013ء میں بلوچستان کے علاقے آوران میں زلزلہ آیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں علیحدگی پسندوں کی اکثریت تھی۔ میرے ساتھیوں نے مجھے کہا کہ آپ آوران نہ جائیں۔ انہی دنوں ایک میجرجنرل کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ بھی ہوئی تھی۔ بہرحال میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچا، ہم ایک مسجد میں رہے۔ وہاں غربت کی انتہا تھی،سڑک ٹوٹی ہوئی تھی، ہمیں پچاس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں چھ گھنٹے لگے۔
زلزلے سے گھر اور مساجد سب ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ان کے گھر بنائیں گے۔ ہم نے لوگوں کے تعاون سے پختہ گھر بناکر دیے۔ ہمارا وہاں کے لوگوں سے ایسا تعلق قائم ہوا کہ گاؤں کے لوگ ہمیں کھانا دیتے تھے حالانکہ پہلے وہ پنجابیوں کا نام بھی نہیں سننا پسند کرتے تھے۔ ہرگھرانے کی خواہش ہوتی کہ کھانا ان کے ہاں سے آئے۔
ہم نے پچاس، ساٹھ گھر بناکردیے، جب ہم وہاں سے رخصت ہوئے تو گاؤں کے لوگ رو رہے تھے۔انھوں نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے، حالانکہ اس سے پہلے یہاں علیحدگی پسندوں نے دیواروں پر پاکستان مخالف نعرے لکھ رکھے تھے اور یہاں چودہ اگست اور یوم قائداعظم بلیک ڈے کے طورپر منایاجاتاتھا جبکہ سکول میں بلوچستان کی آزادی کا ترانہ پڑھا جاتاتھا۔
تھرمیں خدمات
2014ء میں تھر میں بچوں کی ہلاکتوں کی خبریں آنا شروع ہوگئیں،ہم اپنی پوری ٹیم کے ساتھ وہاں ہرنگر اور ہرگوٹھ گئے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم نے پہلے پہل جب وہاں کیمپ لگایا تو ہمارا منرل واٹر ختم ہوگیا۔ وہ سارا گاؤں ہندؤں کا تھا۔ہمیں پیاس لگی تو وہاں سے ایک بندہ کہنے لگا کہ سائیں! آپ کو دس کلومیٹر دور جاناپڑے گا ورنہ وہاں ہماری عورتیں گئی ہوئی ہیں، وہ شام تک آجائیں گی تو ہم آپ کو پانی پلادیں گے، ابھی تو ہمارے گھر میں بھی پانی نہیں ہے۔ چنانچہ ہم ایک کنویں تک گئے ، وہ ایک فاؤنڈیشن کی طرف سے کھودا گیاتھا۔
تب میں نے طے کیا کہ ہم بھی یہاں اپنی طرف سے آٹھ، دس کنویں کھدوائیں گے۔ اب تک ہم وہاں میٹھے پانی کے700کے قریب کنویں کھدواچکے ہیں۔ پہلے ہم مینوئلی آپریٹیڈ کنویں بناتے تھے، پھر ہم نے سولر پینلز لگانے شروع کردیے، ہم نے تھر کے لوگوں کو نہ صرف میٹھا اور صاف پانی دیا بلکہ انھیں روزگار بھی فراہم کیا، ہم تھر کو سرسبزوشاداب بنانے کے مشن پرگامزن ہیں‘‘۔
اللہ کی طرف سے آئے ہوئے مہمان
’’2016ء کے آخر میں ہمارے ایک دوست ترکی سے آئے،انھوں نے کہا کہ شام کے مسلمانوں کا بہت برا حال ہے، اپنی خدما ت کا دائرہ بیرون ملک تک بھی بڑھادیں۔چنانچہ میں ترکی گیا، وہاں کے لوگوں کی حالت زار دیکھی، وہاں ’عرفہ‘ جاناہوا ،کیمپوں میں گئے، ترکی والوں کا کمال ہے کہ انھوں نے شامی مہاجرین کو اپنا شہری بناکر رکھاہواہے۔ وہ انھیں پناہ گزین یا مہاجرین نہیں کہتے بلکہ ’اللہ کی طرف سے آئے ہوئے مہمان‘ اور اپنے بھائی قراردیتے ہیں۔ وہ ہرمہاجر کو100لیرا دیتے ہیں،چاہے کوئی چھوٹا ہو یا 100سال کا بوڑھا۔ ترک بچے کے لئے تعلیمی ادارے میں داخلے کے لئے ٹیسٹ ہوتاہے لیکن شامی بچے کیلئے ایسی کوئی پابندی نہیں۔ہمیں شامی مہاجرین کے لئے بھی لوگوں کی طرف سے کافی امداد اور عطیات ملے،کافی سامان کنٹینروں میں بھر کے بھیجا‘‘۔
اب ہم کیا کررہے ہیں؟
’’2010کے بعد جب بھی کوئی ڈیزاسٹر آتا تو لوگ پوچھناشروع ہوجاتے کہ آپ نے ابھی تک کام کیوں نہیں شروع کیا،اب ہماری ٹیمیں باقاعدہ تشکیل پاچکی ہیں، ابھی مارچ میں بلوچستان میں سیلاب آیا، بلوچستان میں جعفرآباد کے علاقے کے بارے میں پتہ چلا کہ وہاں لوگ گندے جوہڑوں کا پانی پیتے ہیں، وہاں کنویں تو نہیں کھدوائے جاسکتے، وہاں ہم نے ہینڈپمپ لگوانا شروع کر دیئے۔ پندرہ ہزار روپے میں ایک ہینڈپمپ لگ جاتاہے۔چونکہ وہاں قریب سے ایک نہر بھی گزررہی ہے، اس لئے بیس یا تیس فٹ پر پانی مل جاتاہے۔ اب تک ہم ساڑھے چار سو یا پانچ سو ہینڈپمپ لگواچکے ہیں۔ وہاں بیماریوں میں کمی آچکی ہے، جعفرآباد میں ہم نے ایک کلینک بھی بنادیاہے‘‘۔
’’2005ء کے زلزلے کے وقت میرے بچے بہت چھوٹے تھے، ان سارے فلاحی کاموں میں میری اہلیہ کا کردار بہت مثالی رہاہے۔بچوں کو بھی میں ساتھ لے کر آزادکشمیر میں گیا، میں نے انھیں آفت زدہ لوگوں کی زندگی دکھائی۔ اس وقت پورے ملک میں36 ڈسپنسریاں خدمات فراہم کررہی ہیں، کمیونٹی سنٹرز کے علاوہ 10سکولز بھی ہیں۔خواتین کے لئے ’اپنا روزگار‘ سکیم بھی شروع کردی ہے، انھیں کڑھائی سلائی سکھاتے ہیں، جب وہ سیکھ جائیں تو ہم انھیں سلائی مشین فراہم کردیتے ہیں۔
ہم نے ’تھرگرین‘ کے نام سے ایک مہم شروع کردی، اب وہاں قریباً30 فارم بن چکے ہیں،70ایکڑ اراضی پر فصل کاشت ہورہی ہے۔ سبزیاں بوئی جا رہی ہیں، گندم کی پہلی فصل کاشت ہوچکی ہے۔ مزید 10، 12ایکڑ اراضی کو سرسبزوشاداب بنانے پر کام جاری ہے۔ جہاں مولیاں، ساگ ، مٹر پیدا ہورہے ہیں۔ ہمارا ارادہ ہے کہ ہم اس سال کے اختتام تک مزید100فارم بنالیں گے۔ہمارے کام کا اثر یہ ہواہے کہ اب مزید بہت سے ادارے تھر میں کود پڑے ہیں اور وہ بھی بڑی تعداد میں کنویں کھدوا رہے ہیں۔ ڈرپ ایریگیشن شروع ہوچکی ہے‘‘۔
کچھ ذاتی زندگی کے بارے میں
رسول اکرم ﷺ کی ذات اقدس کو اپنی انسپائریشن قراردینے والے ڈاکٹرآصف محمود جاہ کے والدصاحب ٹیچر تھے، والدین حیات ہیں،آٹھ بہن بھائی ہیں،ایک بھائی ڈاکٹر، دوسرا پروفیسر، ایک بھائی پرائیویٹ جاب کرتے ہیں، ایک کا اپنا بزنس ہے، تین بہنیں ہیں، جن میں سے ایک ٹیچر ہیں۔ ڈاکٹرصاحب مجموعی طور پر 23کتابوں کے مصنف ہیں،ٹیلی میڈیسن بھی جاری ہے کہ لوگ فون پر مشورے لیتے ہیں۔وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی سرکاری ملازمت ان کی رفاہی سرگرمیوں پر اثرانداز نہ ہو، چنانچہ وہ صبح 9سے شام 5بجے تک مکمل طور پرکسٹم افسر ہوتے ہیں اور اس کے بعد ڈاکٹر۔
حکومت پاکستان نے 2016ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران کسی بھی سرکاری افسر کو دوران ملازمت اس طرح کا اعزاز نہیں ملا۔ڈاکٹرآصف محمودجاہ کو یہ اعزاز ان کی سماجی خدمات کے زمرے میں دیاگیا۔ کہتے ہیں: ’’میں نے شوکت خانم ہسپتال کیلئے بہت کام کیاہے،اس کے لئے فنڈز بھی اکٹھے کئے، عمران خان سے بھی روابط رہے۔
ان کا بہت زیادہ کنٹری بیوشن ہے، یہی وہ شخص ہیں جو ملک کو آگے لے کر جائیں گے، عبدالستار ایدھی نے بہت متاثرکیا، ہم نے ان کے نام سے ایک کنواں بھی کھدوایا،آج کل میں اعجاز رضوی کی شاعری پڑھتاہوں، رومی کو پڑھ رہاہوں۔ سفرنامے اور آپ بیتیاں بہت پسند ہیں۔ بالخصوص مستنصرحسین تارڑ کے سفرنامے ۔‘‘ڈاکٹرآصف محمود جاہ کے تین بچے ہیں، بڑی بیٹی ڈاکٹربن گئی ہے، وہ اب ہاؤس جاب شروع کرے گی، دوسرے نمبر پر بیٹا ہے، حافظ قرآن ہے، بی ڈی ایس کررہاہے، سب سے چھوٹی بیٹی لمز میں پڑھ رہی ہے۔