مدثرمحمود سالار۔۔۔۔۔۔۔
نام تو ان کا رحیم خاتون تھا مگر ہم بچہ پارٹی اور ہماری مائیں انھیں بڑی امی کہتے تھے۔
وہ تھیں تو ہماری نانی اماں مگر پیار سگی ماؤں جیسا کرتی تھیں۔ نرم مزاج ، دھیمے انداز میں گفتگو، سب کا بھلا کرنا اور قرآن سے جڑے رہنا ان کا طرزِ زندگی تھا۔
گاؤں کے تقریبا تمام بچے اور بچیوں کو قرآن کریم پڑھایا،ظاہر ہے اپنی اولاد کو بھی خود پڑھایا۔ ہم چھوٹے تھے تو امی کے پاس بچوں کا رش دیکھتے جو قرآن کریم پڑھنے آتے تھے، امی نے ہی مجھے بھی قاعدہ پڑھایا اور پھر ناظرہ قرآن کریم بھی ان ہی سے پڑھا۔ قرآن کریم کی پہلی استاذ وہی تھیں، ان ہی سے قرآن پڑھنا سیکھا۔ آج میں جب تلاوت کرتا ہوں تو یقیناً یہ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ سینکڑوں بچوں کو قران پڑھانا ان کے لیے صدقہ جاریہ ہی ہے۔
جب میں حفظ کرنے کے بعد چند سال گاؤں میں اپنے دادا جی کے پاس دہرائی کے لیے رہا تو بڑی امی سے بھی تقریباً روز ہی ملنے جاتا، امی کا ساری زندگی یہی معمول رہا کہ وہ ریڈیو پر صبح کی نشریات میں تلاوت سنتی رہتی تھیں اور ساتھ ساتھ گھر کے کام کاج۔ کئی بار مجھے گمان ہوتا تھا کہ اتنی بار قرآن کریم سننے کی وجہ سے ممکن ہے امی کو زیادہ تر حفظ ہوگیا ہو مگر وہ بتاتی نہیں ہیں۔
مجھ پر بہت شفیق رہیں اور ان کا پیار اور توجہ میں کبھی بھلا نہیں سکتا۔ جب کبھی رات کو میں امی کے گھر ہی رہتا تو بار بار پوچھتیں کہ سردی تو نہیں لگ رہی ، لحاف ایک اور نکال دوں؟ صبح وہ میرے جاگنے سے پہلے مصلے پر ہوتی تھیں اور مجھے آواز دے کر بتاتیں کہ لوٹے میں گرم پانی رکھا ہے، اٹھو وضو کرکے نماز پڑھ لو۔
نماز کے بعد جاکر بکری کا دودھ دوہتیں اور میرے لیے چائے بناتیں تو ملائی کی موٹی تہ میرے کپ میں ڈالتیں۔ وہ ملائی والی چائے اب کہاں نصیب۔
سہ پہر کو چائے بناتیں تو خود جاکر محلے کی دکان سے میرے لیے بسکٹ لاتیں۔
مجھے احساس ہوتا تھا کہ امی نہ جائیں میں خود جاکر لے آتا ہوں اور میں کئی بار منع بھی کرتا کہ بسکٹ نہیں کھانے مگر وہ جس محبت اور شفقت سے بسکٹ لینے جاتی تھیں اس کی گہرائی کا اندازہ مجھے تب نہیں تھا۔
بڑی امی کو قرآن پاک کی تلاوت والے مشغلے کے علاوہ مطالعہ سے بھی شغف تھا۔ ہمارے ناناجی بھی اردو ڈائجسٹ کے مستقل قاری تھے اور گھر میں تمام اردو ڈائجسٹ رسالے مجلد کروا کے رکھے ہوئے تھے۔ ہمیں مطالعے کا شوق اور جنون بڑی امی کے گھر سے ہی ملا۔
مجھے یاد ہے ہم بہن بھائی بس اردو ڈائجسٹ ہی کو چپکے رہتے تھے اور پرانے رسالے نکال نکال کرلے آتے اور ادھر ادھر رکھ دیتے ۔ جب گاؤں سے آنے لگتے تو بڑی امی زور دے کر کہتیں کہ میرے رسالے تو چھپا کرنہیں لے جارہے نا۔
اردو ڈائجسٹ کا پرانا ریکارڈ ان کے پاس محفوظ تھا۔ مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے،میں نے انیس سو پچھتر اور اس کے بعد کے تقریباً تمام رسالے امی کے گھر ہی پڑھے تھے۔ پرانے رسالوں کے مضامین اب بھی کبھی کبھار یاد آجاتے ہیں۔ رابطہ رسالہ بھی امی کے گھر میں ہوتا تھا اور مجھے وہ اس لیے دلچسپ لگتا تھا کہ اردو ڈائجسٹ کے مقابلے میں اس کا سائز بڑا اور زیادہ رنگین ہوتا تھا۔
امی کے گھر میں ہی کیکر کے درخت پر لگنے والے چھوٹے چھوٹے پھولوں کی خوشبو سے مانوس ہوا۔
عیدین پر امی نائی کو بلوا کر گڑ والا حلوہ بنواتی تھیں اور سب بیٹیوں کو ڈبے بھر بھر کردیتی جو ہم گاؤں سے لاکر کئی دن تک کھاتے تھے۔ جب گرم گرم حلوہ تیار ہوتا تو امی نائی کو کہہ کر تھوڑا سا پلیٹ ڈلوا کر ہمیں چکھاتیں، وہ گڑ والا حلوہ چاکلیٹ کی طرح مزیدار ہوتا تھا۔
چند سال پہلے بیمار ہونے کے بعد اپنے بیٹے کے پاس واہ کینٹ شفٹ ہوگئی تھیں۔ میں ہفتہ اتوار کو واہ کینٹ جاتا تو کبھی کبھار امی کو واک کرانے لے جاتا اور امی واہ کینٹ کی پرانی باتیں کرتیں۔ گاؤں شفٹ ہونے سے پہلے ہمارے نانا جی اور نانی واہ کینٹ میں ہی رہتے تھے اور غالبا ستر یا اسی کی دہائی میں گاؤں شفٹ ہوئے تھے۔ دو سال پہلے تیس اپریل کو امی کا انتقال ہوگیا۔
میرے لیے ان کی وفات بھی صدمہ ہے اور ان کے جنازے میں شرکت نہ کرنا بھی صدمہ ہے۔ اتفاق یا نصیب کی بات کہ نانا جی کی وفات پر بھی میں بہت دور تھا اور نانی اماں کے انتقال پربھی ہزاروں میل کی دوری کا سامنا تھا۔ میرے لیے یہ بات باعثِ فخر ہے کہ قرآن کا پہلا لفظ بڑی امی نے سکھایا اور پورا قرآن پڑھایا۔
رب کریم ان پر رحمت نچھاور کرے اور مغفرت فرمائے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
5 پر “ایک خاتون،جس سے اپنے تعلق پرمیں فخر محسوس کرتاہوں” جوابات
اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے. آمین
جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائیں اور ان کے درجات بلند فرمائیں
یہی عورتیں اصل پڑی لکھی عورتیں ہیں جو تربیت کر جاتی ہیں ،نام نہاد حقوق نسواں کے لئے سڑکوں پر نعرہ زن عورت جن کے بچے آیا پالتی ھے ان کا معاشرے اور نسل کی تربیت میں کردار آپ کی نانی جیسی عورت کے مقابلے میں صفر ھے۔ اسے کہتے ہیں بغیر شور کئے بہت کچھ کر جانا۔
شکریہ زبیدہ رؤف صاحبہ