جناب وزیراعظم ،شریف برادران اور زرداریوں کا خاندان ایسا کچھ بھی نہیں کھاتا جیسا پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کھاتے ہیں۔ زہریلے کیمیکلز سے پکنے والے پھل اور سبزیاں تو عام پاکستانیوں کو کھانا پڑتی ہیں، یوریا کھاد اور غیر ضروری بالوں کی صفائی والے پائوڈر سے تیار شدہ ڈبہ بند دودھ عام پاکستانیوں کو پینا پڑتا ہے۔ شریف خاندان اور ایسے ہی چند دیگر خاندانوں کو جو خوراک ملتی ہے، وہ خاص اہتمام سے اگائی جاتی ہے، الگ فصلیں، الگ باغات۔ جن کی رکھوالی پاکستان کی پولیس کرتی ہے اور اگر کوئی اہلکار ان باغات سے کچھ کھانے کی غلطی کرلے تو اسے نوکری سے فارغ کردیا جاتا ہے۔ اس سے آپ اب بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر سخت حفاظتی اقدامات کے ساتھ ان شاہی خاندانوں کی خوراک تیار ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس مسٹر جسٹس ثاقب نثار اُس وقت لاہور ہائی کورٹ کے جج ہوا کرتے تھے جب سے ڈبہ بند دودھ تیار کرنے والی نامی گرامی کمپنیوں کے خلاف مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں چل رہا تھا۔ کئی برسوں تک یہ مقدمہ چلا، اُس وقت ثابت ہوگیا تھا کہ یہ نامی گرامی کمپنیاں عام پاکستانیوں کو کس قسم کا”دودھ” پلا رہی ہیں لیکن قانون اپنی مخصوص رفتار سے اپنا سفر طے کرتا رہا، ان کمپنیوں کو کوئی بھی روک نہ سکا، یہ روازنہ کروڑوں ڈبے دودھ فروخت کرتی رہیں، عام پاکستانی حقیقت جان کے بھی یہ ” دودھ” پینے پر مجبور تھے ۔
قانون اب بھی اپنا سفر طے کررہا ہے۔ حالانکہ اب ہر جگہ دہائی مچ گئی ہے کہ کراچی سے خیبر تک یوریا کھاد اور بالصفا پائوڈر ملا دودھ بیچا جارہا ہے۔ کمپنیاں اربوں روپے کمارہی ہیں اور عام پاکستانی یہ ” دودھ” پی رہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار ریٹائر ہوجائیں گے لیکن یہ ڈبہ بند “دودھ” بکتا رہے گا، حکمران خاندان بغیر کھاد کے تیار ہونے والے پھل کھاتے رہیں گے، بغیر کھاد کے تیار ہونے والی سبزیاں کھاتے رہیں گے، بغیر کھاد کے تیار ہونے والا چارہ کھانے والی گائیوں، بھینسوں کا دودھ پیتے رہیں گے۔ کچھ ڈاکٹرز بتاتے رہیں گے کہ زہریلے کیمیکلز سے تیار ہونے والی خوراک کھانے پینے سے اتنے پاکستانی ہلاک ہوگئے، اتنے پاکستانی پیچیدہ امراض کے شکار ہوگئے اور صحافی ڈاکٹروں کی دی ہوئی معلومات پر رپورٹس تیار کرکے چھاپتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔