عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعظم عمران خان کو اپنی ٹیم میں تبدیلی بہرصورت کرنی چاہئے تھی، تاہم تبدیلی سوچ سمجھ کر ہی کرنی چاہئے تھی، افسوس کہ انھوں نے تبدیلی کی لیکن کھوٹے سکے ایک جیب سے نکالے اور دوسری جیب میں ڈال لئے۔ تبدیلیاں ازحد ضروری تھیں، اس کے بغیر عمران خان کی حکومت ایک قدم آگے نہیں چل پارہی تھی۔ فوادچودھری بہت سے لوگوں کو ٹیم سے نکالنا ضروری تھا لیکن جو تبدیلیاں ہوئیں، وہ ظاہر کررہی ہیں کہ گھوم پھر کر گدھا برگد کے نیچھے ہی آکھڑا ہوا ہے۔ یہ پنجابی زبان کے محاورے کا اردو ترجمہ ہے کہ "بھوں چوں کے کھوتا بوڑھ تھلے”۔
ٹیم میں تبدیلیاں مجھ سمیت بہت سوں کے لئے حیران کن ہیں کیونکہ چند ہفتے قبل خود عمران خان نے اپنی ٹیم پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا تھا،اس کی کارکردگی کو مثالی قرار دیاتھا۔ اس سے پہلے بھی وہ ایسا ہی اعتماد ظاہر کرچکا تھا۔ بہت سوں کا سوال ہے کہ چند ہفتے قبل تک کھلاڑیوں کی تبدیلی مثالی تھی تو پھر اچانک کیا ہوگیا؟
تحریک انصاف کے علاوہ تمام پارٹیوں کا خیال ہے کہ کابینہ میں تبدیلیوں کا حکم "کہیں اور” سے آیا ہے،اب اپوزیشن سیاست دان اس ساری صورت حال میں منہ پر ہاتھ کرکے کھی کھی کررہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جنھوں نے حکومت عطاکی، وہی تبدیلیاں کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
جاوید چودھری سمیت متعدد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو تبدیلیوں کی خبر ٹیلی ویژن چینلز سے ہوئی۔ اگر ایسا ہی ہے تو عمران خان جیسے لیڈر کی ساکھ اس سے شدید متاثر ہوگی، بالخصوص جب کہ ان کے ساتھی گزشتہ آٹھ، نو برس سے دعویٰ کرتے ہیں خان صاحب کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتے۔
اب تو یہ بات بھی بخوبی سمجھ آرہی ہے کہ بشریٰ بی بی سے نکاح کا منصوبہ کہاں تیار ہوا تھا اور عثمان بزدار جیسی شخصیت کو وزیراعلیٰ بنانے کا "مشورہ” کہاں سے آیا تھا،چودھری نثارعلی خان نے آج تک رکن پنجاب اسمبلی کا حلف کیوں نہیں اٹھایاتھا، اس کے باوجود ان کی رکنیت کیوں محفوظ رہی، اور اطلاعات ہیں کہ وہ آنے والے دنوں میں حلف اٹھائیں گے، پھر عثمان بزدار مستعفی ہوجائیں گے اور چودھری نثارعلی خان کا نام نئے وزیراعلیٰ کے طور پر لیا جارہا ہے۔