افغانستان نے رواں ہفتے دوحہ میں طالبان سے ملاقات کرنے والے وفد کی فہرست شائع کردی جس میں کئی سرکاری افسران بھی شامل ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق صدارتی محل سے شائع ہونے والی 250 افراد کی فہرست میں افغان صدر اشرف غنی، چیف آف اسٹاف عبدالسلام رحیمی اور انتخابات میں ہارنے والے رہنما امراللہ صالح سمیت افغان انٹیلی جنس کے سابق سربراہ بھی شامل ہیں۔
فہرست میں افغانستان کے قبائلی عمائدین، نوجوانوں کے رہنما اور 52 خواتین بھی شامل ہیں۔
طالبان کی افغان حکومت سے اس سے قبل ملاقات خفیہ طور پر 2015 میں پاکستان میں ہوئی تھی جو افغان طالبان کے رہنما ملا عمر کی ہلاکت کی خبر کے ساتھ فوری ختم ہوگئی تھی۔
18 سالہ امریکی مداخلت کے بعد واشنگٹن کے طویل عرصے سے زور دینے پر قطر میں ہونے والی 3 روزہ مذاکرات کا آغاز جمعے سے ہوگا۔
کابل حکومت اور طالبان میں بہت بڑا فرق ہے کیونکہ طالبان اشررف غنی اور ان کی حکومت کو امریکا کی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں جس سے بات کرنے سے وہ طویل عرصے سے انکار کرتے آرہے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ رواں ہفتے ہونے والے مذاکرات میں کسی بھی سرکاری افسر کی حاضری صرف ‘ذاتی حیثیت’ میں ہوگی۔
امریکا جس نے گزشتہ ستمبر سے اب تک دوحہ میں طالبان سے متعدد بار مذاکرات کیا ہے، کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ اس مذاکرات کا حصہ نہیں ہوگا۔
طالبان کی جانب سے دوحہ میں مذاکرات کی سربراہی کرنے والے افراد کی حتمی فہرست کا تاحال اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
طالبان نے رواں سال فروری کے مہینے میں ماسکو میں ہونے والے مذاکرات میں افغان نمائندوں سے ملاقات کی تھی تاہم اس میں اشرف غنی حکومت کا کوئی بھی فرد شامل نہیں تھا۔
سابق صدر حامد کرزئی کے ترجمان جو ماسکو مذاکرات میں موجود تھے، کا کہنا تھا کہ حامد کرزئی نے دوحہ میں ہونے والے انٹرا افغان کانفرنس کی حمایت کی ہے تاہم وہ اس میں شرکت نہیں کریں گے۔
رواں ماہ اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے طالبان کے وفد کے 11 افراد پر سے سفری پابندی ختم کردی ہے تاکہ وہ مذاکرات کا حصہ بن سکیں۔
اس فہرست میں اسلامی تحریک شریک بانی اور اس کے اعلیٰ رہنما ملا عبدالغنی برادر سمیت طالبان کے اعلیٰ مذاکرات کار اور سابق ڈپٹی وزیر برائے امور خارجہ محمد عباس ستانکزئی شامل ہیں۔(بشکریہ ڈان)