سوڈان کا فوجی حکمران عوام کے سامنے نہ ٹھیر سکا، انٹیلی جنس چیف بھی مستعفی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شمالی افریقہ کے ملک سوڈان میں حکومت کا تختہ الٹنے والے فوجی کونسل کے سربراہ عود ابن اوف نے استعفیٰ دے دیا جبکہ ملک کے سیکیورٹی اینڈ انٹیلی جنس چیف صالح گوش کے مستعفی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

عربی نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق سوڈان کے سرکاری ٹیلی ویژن پر خطاب کے دوران وزیر دفاع اور ملٹری کونسل کے سربراہ عود ابن اوف نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور اپنے جانشین کے لیے لیفٹیننٹ جنرل عبدالفتح برہان کو مقرر کیا۔

جنرل عود ابن اوف کی جانب سے یہ اعلان گزشتہ روز سوڈانی دارالحکومت خرطوم میں ہزاروں مظاہرین کے احتجاج کے بعد سامنے آیا، مظاہرین کی جانب سے یہ مطالبہ آرہا تھا کہ فوج کی جانب سے طویل عرصے سے اقتدار پر رہنے والے صدر عمر البشیر کا تختہ الٹنے کے بعد شہری قیادت لائی جائے۔

ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں عود ابن اوف کا کہنا تھا کہ ’میں بطور فوجی کونسل کے سربراہ اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ہماری قوم کے لیے فائدے مند ہے، بغیر کسی چھوٹے یا بڑے مفاد کو دیکھتے ہوئے، جس سے اس کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے‘، میں یہ تجویز دینا چاہوں گا کہ آپ ساتھ کام کریں اور تیزی سے کسی حل کی جانب پہنچیں۔

مستعفی ہونے والے سربراہ کا کہنا تھا کہ مجھے عبدالفتح برہان پر بھروسہ ہے کہ وہ ملک کو محفوظ راستے پر لے جائیں گے اور انہوں نے مسلح فورسز کے ’اتحاد کو برقرار‘ رکھنے کے لیے قدم رکھا ہے۔

دوسری جانب برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سوڈان کے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی چیف صالح گوش نے بھی استعفیٰ دے دیا۔

ادھر فوجی کونسل کے سربراہ کے مستعفی ہونے پر خرطوم میں موجود مظاہرین نے خوشی کا اظہار کیا۔

رپورٹ کے مطابق لوگ سڑکوں پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے رہے کہ وہ 4 ماہ کے مظاہروں کے بعد صدر عمر البشیر کو ہٹوانے میں کامیاب رہے اور 48 گھنٹے سے کم میں تختہ سنبھالنے والے فوجی کونسل کے سربراہ عود ابن اوف کو بھی جانا پڑا۔

خیال رہے کہ 11 اپریل کو سوڈان کی فوج نے ملک میں جاری مظاہروں کے باعث 30 سال سے زیر اقتدار صدر عمر البشیر کو برطرف کرکے گرفتار کرلیا تھا اور اقتدار سنبھال لیا تھا۔

وزیر دفاع نے ملک میں 2 سال کے لیے فوجی حکمرانی کا اعلان کرتے ہوئے سول جمہوری تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کو مشتعل ہونے سے روکنے کے لیے ایمرجنسی بھی نافذ کردی تھی۔

فوج کی جانب سے صدر عمر البشیر کا تختہ الٹنے پر ہزاروں مظاہروں نے دارالحکومت خرطوم کے وسط کی طرف مارچ کیا تھا اور صدر کی برطرفی کی خوشیاں منائیں تھیں۔

یاد رہے کہ 1989 میں عمر البشیر نے صادق المہدی کی حکومت کو برطرف کیا تھا جس کے بعد ملک میں انتخابی عمل رک گیا تھا۔

عود محمد ابن اوف نے کہا تھا کہ فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے بنائی جانے والی ملٹری کونسل آئندہ 2 سال تک حکومت کرے گی جس کے بعد ’ شفاف اور منصفانہ انتخابات کروائے جائیں گے‘۔

انہوں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ فوج نے آئین معطل کردیا، حکومت تحلیل کردی اور 3 ماہ کے لیے ایمرجنسی بھی نافد کردی۔ تاہم صدر عمرالبشیر کی برطرفی کے بعد فوجی نظام سنبھالنے پر بھی مظاہرین نے غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔

احتاج کرنے والے رہنماؤں نے صدر کی برطرفی کے بعد تشکیل دی گئی ملٹری کونسل کو بھی مسترد کردیا تھا۔

مظاہرین نے ملک میں جمہوری نظام کے نفاذ کے لیے سول قیادت اور سوڈان میں جاری تنازعات کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا جن کی وجہ سے ملک بدترین غربت کا شکار ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں