عبیداللہ عابد ۔۔۔۔۔۔
10 اپریل 2019 کو روزنامہ جنگ نے وزیراعظم عمران خان کا ایک انٹرویو شائع کیا جوانھوں نے غیرملکی صحافیوں کو دیا۔جس میں انھوں نے کہا کہ وہ مسلح تنظیموں کو ختم کررہے ہیں۔ 1980 کی دہائی کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہناتھا کہ فوج نے 80 کی دہائی میں مسلح تنظیمیں سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے دوران میں بنائیں، اب ان کی مزید ضرورت نہیں۔ مسلح تنظیمیں ختم کرنے میں انھیں فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
یہ انٹرویو صرف روزنامہ جنگ میں شائع ہوا جبکہ اس کے علاوہ کسی بھی اردواخبارمیں یہ باتیں شائع نہ ہوسکیں۔ دیگراخبارات نے عمران خان کا مودی کی حمایت اور کانگریس کی مخالفت میں بیان شائع کیا تاہم مذکورہ بالا بیان شائع نہیں کیا۔
ذرائع کا کہناہے کہ اس بیان پر قومی سلامتی کے محافظ ادارے نے خفگی کا اظہار کیا اور اس کے فورا بعد اخبارات کو ہدایت کی گئی کہ وہ اسے شائع نہ کریں تاہم “جنگ” نے شائع کیا، جس کے بعد بھارتی میڈیا نے اس پر خوب چھلانگیں لگائیں اور پاکستانی فوج کے خلاف خوب پراپیگنڈا کیا۔ ٹائمز آف انڈیا نے اس بیان کو خوب نمایاں اندازمیں شائع کیا۔ جبکہ بھارتی ٹی وی چینلز پر بھی اس بیان پر خوب بحث ومباحثہ ہوا جس میں پاکستانی فوج کے خلاف زہرنکالاگیا۔
اس بیان کے بعد اگلے 72 گھنٹوں کے دوران میں آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی وزیراعظم عمران خان سے دوملاقاتیں ہوئی ہیں۔بالخصوص دوسری ملاقات کی جاری ہونے والی تصویر میں عمران خان کے چہرے کے تاثرات واضح طور پر بہت کچھ بتا رہے ہیں جبکہ آرمی چیف کے چہرے پر بھی شدید تنائو دیکھنے کو ملتا ہے۔
بعض حلقوں کا کہناہے کہ پاکستانی سلامتی کے اداروں کو عمران خان کے اس بیان پر خفت کا سامنا کرناپڑاہے۔ عمران خان کے بارے میں یہ تاثر باربار درست ثابت ہورہاہے کہ وہ جو منہ میں آئے، بلاسوچے سمجھے کہہ دیتے ہیں۔ ان کی اس عادت کے سبب ان کے حامیوں کو مشکلات کا سامنا کرناپڑتاہے۔
یادرہے کہ وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہاہے کہ بھارتی انتخابات میں مودی کی کامیابی ہی سے مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے، انھوں نے کانگریس کی مخالفت میں بھی بیان دیا۔ اس پر تحریک انصاف کے حلقوں کا کہناہے کہ یہ عمران خان کی ایک چال ہے۔