بشریٰ نواز۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب دیکھنا ہر ایک کا حق ھے لیکن خواب تو انبیاء کے ہی سچے ھوتے ہیں۔ ہوسکتاہے کہ اولیاء اللہ کے خواب بھی سچے ہوتے ہوں لیکن جو خواب غریب دیکھتا ہے ، وہ ہمیشہ جھوٹا ہی ہوتا ہے۔
خوابوں کی ابتدا جھونپڑی سے ہوتی ہے اور پھر یہ خواب محلوں تک پہنچتے ہیں، خواب سب کو آتے ہیں اور سبھی دیکھتے ہیں۔ خواب امیر کا ہو یا غریب کا اس کی بنیاد روزمرہ کے خیال ہی بنتے ہیں۔
کچھ خواب دیکھے جاتے ہیں اور کچھ دکھائے جاتے ہیں۔مثلآ کسی عاشق کا خواب محبوب کی محبت کا پالینا ہے، تاجر کا خواب اس کے کاروبار کی ترقی، غریب کا خواب غریبی کا مٹ جانا۔ اسی طرح ایک دانشور کا خواب قوم کی فلاح اور اس کے نظریات پہ قوم کا متفق ہوجانا،
سیاست دان کا خواب اقتدار حاصل کرنا اور پھر عوام کا خون نچوڑنا جب کہ عوام کا خواب خوشحالی اور تنگدستی سے چھٹکارا پانا ہوتا ہے لیکن یہ خواب پورے کہاں ہوتے ہیں۔
سبز خواب سیاستدان غریب اور پسے ہوئے عوام کو دکھا کر ووٹ خریدنے کا مکروہ دھندا کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ سبز خواب تو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتے۔ سیاستدان آتے رہتے ہیں اور قوم کو الو بناتے رہتے ہیں۔ کسی نے روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پہ لوٹا، کسی نے قرض اتارو ملک سنوارو کانعرہ لگا کر۔ یہ سلسلہ اب تک جاری وساری ہے، یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا، کسی کو کچھ خبرنہیں۔
کہاجاتا ہے کہ عوام کے لیے ہمیشہ غیر جمہوری حکومتیں ہی بہتر ثابت ہوئی ہیں لیکن یہ خیال بھی غلط ثابت ہوا۔ غیر جمہوری حکومتوں سے وابستہ خواب بھی ڈوب گئے۔
2008 ء میں شروع ھونے والا جمہوریت کاایک نیا مرحلہ تاحال جاری ہے۔ پہلے پیپلز پارٹی نے محترمہ کی شہادت کا خوب بدلہ عوام سے مہنگائی اور لوٹ مار کی صورت میں لیا۔ پھر مسلم لیگ نے اپنی مرکزی قیادت کی جلاوطنی کا خراج سود سمیت وصول کیا، اب تحریک انصاف کی حکومت کی باری لے رہی ہے۔
فراز نے کہاتھا:
اب تک دل خوش فہم کو تھیں تجھ سے امیدیں
یہ آخری شمع بھی بجھانے کے لیے آ
اس حکومت نے سب سے زیادہ بلند بانگ دعوے کیے، عوام کو بڑی امیدیں تھیں لیکن لگتا ہے کہ یہ حکومت عوام کی کھال پچھلی حکومتوں کی نسبت زیادہ کھینچے گی۔ اپوزیشن میں بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر باتیں کرنا آسان ہوتا ہے لیکن حقائق کچھ اور ہوتے ہیں۔
کہتے ھیں جو کچھ جال دیکھتاہے مچھیرا دیکھ لے تو اس کا کلیجہ پھٹ جائے۔ جس پٹرول اور ڈیزل کے بارے میں لچھے دار باتیں کرکے اپنے جلسوں میں عوام سے داد لی جاتی تھی، اب پتہ چلا کتنا مہنگا ہے۔ اس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اسدعمرصاحب! کہاں گئی وہ 30 روپے لٹر والی بات؟؟
بجلی کے بل لہرا لہرا کر لوگوں کو دکھائے جاتے تھے، اب بجلی کی قیمت سے زیادہ ٹیکس لگایاجارہا ہے، عوام پریشان ہیں، صرف واپڈا ملازمین کی موجیں آج بھی لگی ہوئی ہیں۔
جب ڈیزل یا پٹرول بڑھتا ہے تو ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے، اجرت بڑھانے کے بارے میں صرف بیان اور وہ بھی اس حد تک کہ ” ہم چاہتے ہیں” اور پھر طویل خاموشی ۔ مہنگائی راتوں رات ساتویں آسمان پر چڑھے جاتی ہے۔
یہ کیسی عوامی حکومت ہے جسے ووٹ دینے کی اتنی بھیانک سزا قوم کوسہنا پڑرہی ہے، عیاشی حکمران کریں اور سزا عوام بھگتیں۔ کسی شاعر نے کہاتھا
آنکھوں کا تھا قصور چُھری دل پہ چل گئی
لیکن اب یوں کہنا پڑے گا ۔۔
ہاتھوں کا تھا قصور چُھری گھر پہ چل گئی
قوم کے خواب ڈوب رہے ہیں۔ احتساب کا نعرہ، صرف نعرہ ہی رہ گیا۔ لوٹا ہوا مال تو واپس ملتا نظر نہیں آتا البتہ اس کی قیمت عوام ہی دیتی نظر آتی ہے۔۔۔
اس کمزور اور لولے لنگڑے جمہوری نظام میں سکت کہاں رہ گئی ہے، آئین کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ اب تو وزیراعظم کی تضحیک معمولی صوبائی وزیر کرتے نظر آتے ہیں، فیڈریشن بھی برائے نام رہ گئی ۔
اللہ پاک کا احسان ھے ایک ادارہ ان کی ریشہ دو انیوں سے بچا ہوا اور اسی کی وجہ سے ملک بھی۔ بھائی! ایسی بادشاہی سے تو فقیری بھلی۔۔۔
بہرحال قوم کے خواب ڈوب چکے۔۔.۔۔۔۔
ایک تبصرہ برائے “اب تک دل خوش فہم کو تھیں تجھ سے امیدیں”
“اللہ پاک کا احسان ھے ایک ادارہ ان کی ریشہ دو انیوں سے بچا ہوا اور اسی کی وجہ سے ملک بھی۔ بھائی! ایسی بادشاہی سے تو فقیری بھلی۔۔۔”
مگر اس ایک کی ریشہ دوانیوں کوئی ادارہ نہیں بچا۔