محمد بلال غوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچ بہت کڑوا ہوتا ہے اور ہضم نہیں ہو پاتا۔ چنانچہ معاشرے کے دانشوروں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ شدھ حقائق بیان کرنے سے گریز کریں یا پھر سچ کی اتنی ہی خوراک دیں جو قے کا سبب نہ بنے۔ اسی سوچ کے پیش نظر ایک تلخ حقیقت بیان کرنے سے کتراتا رہا مگر چند روز قبل قبلہ حسن نثار صاحب نے اپنے کالم میں اس حقیقت سے پردہ اٹھا دیا تو مجھے بھی حوصلہ ملا اور سوچا کیوں نہ اس حوالے سے اپنی معروضات پیش کروں۔ ہمارے معاشرے میں بالعموم غربت کو تقدیر کا لکھا سمجھا جاتا ہے مگر میرا خیال ہے کہ غربت ازخود انتخاب سے عبارت ہے۔
فرانسیسی شاعر اور ناول نگار وکٹر ہیوگو کا خیال ہے کہ سب اپنے اعمال کی پیداوار ہیں، یہی اعمال بناتے بھی ہیں اور بگاڑتے بھی ہیں۔ اس قول کی تشریح کی جائے تو کامیاب زندگی کا آغاز دراصل مثبت سوچ سے ہوتا ہے۔ آپ کی سوچ اظہار کا روپ دھارتی ہے۔ اظہار کے لئے چنے گئے الفاظ اعمال کی صورت گری کرتے ہیں۔ اعمال بتدریج عادات و اطوار کے قالب میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔ عادات و اطوار سے کردار متشکل ہوتا ہے اور شخصیت کا سانچہ ترتیب پاتا ہے۔ اب اگر یہ شخصیت کامیاب افراد کے مثل ہو گی تو آپ ترقی و خوشحالی اور کامیابی و کامرانی کے زینے طے کرتے چلے جائیں گے اور اس کے برعکس اگر آپ کی شخصیت قنوطیت پسند اور ناکام افراد کے جیسی ہو گی تو پے در پے ناکامیاں آپ کا مقدر ہو جائیں گی۔
تلخ حقیقت یہی ہے کہ آپ کو اپنے ارد گرد جتنے غریب، بے روزگار اور ناکام افراد دکھائی دیتے ہیں وہ قسمت کے مارے نہیں ہوتے بلکہ اپنی سوچ، عادات و اطوار اور مزاج کے سہارے اس جگہ پہنچتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں امریکی صحافی نپولین ہِل نے ’’تھنک اینڈ گرو رِچ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی، جو اس دور میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب قرار پائی۔ اس کتاب کے لئے نپولین ہِل نے 500ایسے سیلف میڈ افراد کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جو غربت زدہ معاشرے سے اٹھے اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہو گئے۔
اس نے اپنی کتاب میں سیلف میڈ افراد کی خصوصیات جمع کیں تو معلوم ہوا کہ ان سب میں ’’مثبت سوچ‘‘ قدر مشترک ہے۔ چند برس قبل ایک اور محقق تھامس سی کورلے نے غریب سے امیر ہونے والے 177کامیاب افراد کی کتابِ زیست کا مطالعہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر انہیں کون سے ایسے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ وہ مٹی میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو وہ سونا بن جاتی ہے۔ کئی برس کی عرق ریزی کے بعد تھامس سی کورلے نے اپنی تحقیق کا نچوڑ یہ نکالا کہ کامیابی اور ناکامی کے درمیان 11عادات کا سنگِ گراں حائل ہے۔
سب سے پہلی عادت کا تعلق جلدی اٹھنے سے ہے۔ جلدی اٹھنے سے مُراد سحر خیزی نہیں بلکہ آپ کو کہیں کسی کام پر جانا ہو تو مطلوبہ وقت سے تین گھنٹے پہلے بیدار ہوں تاکہ متوقع رکاوٹیں حائل نہ ہو سکیں۔ عین ممکن ہے آپ نہانے کے لئے واش روم جائیں تو پانی نہ ہو، کپڑے استری کرنا ہوں اور بجلی نہ ہو، راستے میں کسی وجہ سے ٹریفک جام ہو یا پھر گاڑی خراب ہو جائے، ان تمام الجھنوں سے نمٹنے کے لئے تین گھنٹے پہلے اٹھیں تاکہ کام پر بروقت پہنچ سکیں۔
دوسری عادت کا تعلق صحت سے ہے۔ کورلے کے مطابق تحقیق کے دوران اسے معلوم ہوا کہ 76فیصد کامیاب افراد ورزش ضرور کرتے ہیں۔
کامیاب افراد کی شخصیت میں تیسری اہم ترین عادت مطالعہ کی ہے۔ ہمارے ہاں تو بھلے چنگے پڑھے لکھے افراد مطالعہ سے جان چھڑاتے ہیں اور نوجوان نسل تو بالکل بیزار دکھائی دیتی ہے مگر تھامس سی کورلے کے مطابق کامیابی کے حصول کے لئے مطالعہ کو حرزِ جاں بنانا از حد ضروری ہے۔ اس نے جتنے بھی کامیاب افراد کے معمولاتِ زندگی ملاحظہ کئے ان میں تفریحی ناول، رومانوی کہانیوں، شاعری یا فکشن کے بجائے ایسی کتابوں کی ورق گردانی کو جزو لازم کی حیثیت حاصل تھی جن سے کچھ سیکھنے کو ملے۔
کامیاب افراد کی چوتھی خصوصیت ہے مثبت سوچ۔ جو لوگ دوسروں کی کامیابی پر جلتے کڑھتے رہتے ہیں، وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اس کے برعکس کامیابی ان کے قدم چومتی ہے جو مثبت اور تعمیری سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔
پانچویں عادت ہے بھیڑ چال سے گریز۔ بالعموم لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ آج کل کس چیز کا رجحان ہے، لوگ کس طرف جا رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں اور پھر بغیر سوچے سمجھے اس طرف دوڑ لگا دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں ایک مرتبہ کمپیوٹر کی تعلیم شروع ہوئی تو دھڑا دھڑ کمپیوٹر ایجوکیشن کے مراکز کھلنے لگے اور داخلہ لینے والوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ لیکن کامیاب افراد اس بھیڑ چال سے متاثر نہیں ہوتے، وہ اپنی سمت خود متعین کرتے ہیں، وہ وقت کے سانچوں میں ڈھل نہیں جاتے بلکہ وقت کے سانچے بدل جاتے ہیں۔
چھٹی خوبی ہے اپنے مقاصد کا تعاقب۔ کامیاب افراد اپنا ہدف طے کرتے ہیں اور پھر پوری تندہی کے ساتھ اس کے حصول میں لگ جاتے ہیں۔ مشکلات سے گھبرا کر ہمت نہیں ہارتے بلکہ ثابت قدمی سے ڈٹے رہتے ہیں۔
ساتویں عادت، جو تمام کامیاب افراد میں پائی جاتی ہے، آمدنی کے ایک سے زائد ذرائع رکھنا ہے۔ کامیاب افراد کبھی اپنے تمام انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھتے یعنی وہ محض ایک ہی آپشن پر نہیں سوچتے، صرف ایک ہی ذریعہ آمدنی پر انحصار نہیں کرتے بلکہ ان کے پاس ایک سے زائد آپشنز ہوتے ہیں۔
آٹھویں بات، جو کامیاب افراد کو ممتاز و منفرد کرتی ہے، لوگوں سے رائے لینا اور مشورہ کرنا ہے۔ بیشتر ناکام افراد خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور کسی سے مشاورت کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔ اگر مشورہ کر بھی لیں تو اسے خاطر میں نہیں لاتے۔ اس کے برعکس کامیاب افراد ادنیٰ اور حقیر سمجھے جانے والے افراد سے صلاح لینے میں بھی تامل نہیں کرتے۔
کامیاب افرادکی نویں مشترکہ عادت ہے اچھے آداب۔ آپ نے یہ جملہ ضرور پڑھا یا سنا ہو گا ’’باادب بانصیب، بے ادب بدنصیب‘‘ اس سادہ سے جملے میں کامیاب زندگی کا فلسفہ موجود ہے۔
کامیاب افراد کی 10ویں خاصیت یہ ہے کہ وہ دوسروں کے لئے ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں آگے بڑھنے والے افراد کی ٹانگیں کھینچنا معمول کی بات ہے لیکن دوسروں کی ٹانگیں کھینچے والے اس تگ و دو میں خود بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی کو آگے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جائے تو انسان خود بھی ایک قدم آگے بڑھ جاتا ہے۔
کامیاب افراد کی11ویں عادت ہے اچھے لوگوں کی صحبت۔ کچھ لوگ مِثل غذا ہوتے ہیں، جن کی آشنائی لازم ہے بعض افراد مِثل دوا ہوتے ہیں جو تریاق کا کام کرتے ہیں اور ان کی حاجت رہتی ہے مگر چند دوست مثلِ وبا ہوتے ہیں، جن سے بچنا لازم ہے۔
آپ نے ہمہ یاراں دوزخ اور ہمہ یاراں جنت والا محاورہ تو سنا ہو گا۔ اگر آپ شکست خوردہ، ہارے ہوئے، مایوس، ناامید اور منفی سوچ کے حامل لوگوں میں بیٹھتے ہیں تو انہی کی طرح ناکام ہو جائیں گے۔ اس کے برعکس آپ کا اٹھنا بیٹھنا مثبت اور تعمیری سوچ کے حامل، مہم جو، پُرعزم افراد میں ہے تو بہت جلد آپ بھی ان کی صف میں شمار ہونے لگیں گے۔