شاہزیب خانزادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کابینہ کا اختلاف حکومت کی کارکردگی پر واضح طور پر اثرانداز ہورہا ہے،پارٹی کے بڑے بڑے نام دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے ہیں، کابینہ کے جونیئر وزراء اس دھڑے بندی میں اپنی اپنی سائڈ چنتے نظر آرہے ہیں، وہ اختلاف جو پی ٹی آئی کے اندر تھا اب وفاقی کابینہ میں دکھائی دے رہا ہے، ایک بار پھر سے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین میں اختلافات خبروں میں ہیں، یہ اختلافات نیا نہیں بلکہ انٹراپارٹی انتخابات، پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم اور اختیارات کے معاملہ پر اختلافات سامنے آتے رہے ہیں۔
وفاقی کابینہ میں کچھ اراکین شاہ محمود قریشی تو کچھ جہانگیر ترین کے موقف کے حامی ہیں، اہم بات ہے کہ پارٹی کے بڑے بڑے نام دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے ہیں، کابینہ کے جونیئر وزراء اس دھڑے بندی میں اپنی اپنی سائڈ چنتے نظر آرہے ہیں، شاہ محمود قریشی کے گروپ میں ڈاکٹر شیریں مزاری، شفقت محمود، اسد عمر اور نعیم الحق شامل ہیں جبکہ جہانگیر ترین کے گروپ میں فواد چوہدری، پرویز خٹک اورعمر ایوب نظر آرہے ہیں۔
یہاں معاملہ صرف جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے درمیان اختلافات کا نہیں بلکہ کابینہ کے اجلاسوں میں بھی دونوں گروپوں کے وزراء کے درمیان تلخ کلامی ہوچکی ہے چاہے وہ اسد عمر اور فواد چوہدری کے درمیان ہو، جہانگیر ترین کے حامی وزراء نے پیر کو کھل کر جہانگیر ترین کی حمایت کی مگر شاہ محمود قریشی کے حق میں اب تک کوئی نہیں بولا ہے،شاہ محمود قریشی نے پیر کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین کے سرکاری اجلاسوں میں بیٹھنے پرن لیگ کو بولنے کا موقع ملتا ہے۔
اب اگر جہانگیر ترین کابینہ اجلاس میں آئے ہیں تو وزیراعظم عمران خان کی مرضی سے آئے ہوں گے اس کے باوجود شاہ محمود قریشی انہیں کہہ رہے کہ آپ سپریم کورٹ سے نااہل ہوئے ہیں طریقہ کار تبدیل کریں۔
کابینہ کا یہ اختلاف حکومت کی کارکردگی پر واضح طور پر اثرانداز ہورہا ہے، سرکاری ٹی وی جو وزیراطلاعات فواد چوہدری کے ماتحت ہے مگر ان کی وزارت میں واضح طور پر نعیم الحق کا گروپ مداخلت کررہا ہے، وزارت خزانہ اسد عمر کے پاس ہے تو اس میں جہانگیر ترین مختلف طریقوں سے مداخلت کرتے نظر آتے ہیں، وزیراعظم عمران خان خاموشی سے یہ معاملات دیکھ رہے ہیں، شاہ محمود قریشی سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے اپنے اعتراضات وزیراعظم کے سامنے رکھے ہیں؟ تو انہوں نے جواب نہیں دیا۔
جہانگیر ترین نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کابینہ اجلاس میں شرکت کی وجہ بتائی، انہوں نے شاہ محمود قریشی پر تو زیاد ہ تنقید نہیں کی مگر وزیرخزانہ اسد عمر کی لاعلمی کا اظہار ضرور کیا، جہانگیر ترین نے بتایا کہ کابینہ اجلاس میں وزیرخزانہ سے زراعت کے بارے میں پوچھا گیا تو اسد عمر نے وزیراعظم سے کہا کہ انہیں اس حوالے سے پتا نہیں ہے، اس کے بعد وزیراعظم نے مجھے بلانے کا فیصلہ کیا۔
سی پروگرام میں جب جہانگیر ترین سے ملکی معیشت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ فیصلے کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے وقت پر فیصلے نہ ہوں تو نقصان ہوتا ہے، یہ وہ اعتراض ہے جو بہت سے ماہرین معیشت اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنما اسد عمر پر اٹھارہے ہیں کہ انہوں نے فیصلوں میں دیر کی ہے۔
جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے اختلافات حکومت بننے سے پہلے کے ہیں، عمران خان نے کہا تھا کہ جب وہ حکومت میں آئیں گے تو جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی لڑائی ختم ہوجائے گی، وزیراعظم مضبوط ہو تو کابینہ کی میٹنگ ریگولر بلائے گا اور ایسی چیزیں نہیں ہوں گی، اب کابینہ کی میٹنگیں تو ریگولر ہورہی ہیں مگر اس کے باوجود اختلافات موجود ہیں۔
ڈیڑھ سال گزر چکا ہے لیکن پی ٹی آئی کا فلیگ شپ پشاور میٹرو بس پراجیکٹ مکمل نہیں ہوسکا، اب خبر صرف پشاور میٹرو بس پراجیکٹ کا التواء نہیں رہی بلکہ پراجیکٹ کی بنیاد پر ہی سوالات اٹھائے جارہے ہیں، پراجیکٹ کا معائنہ کرنے والی خیبرپختونخوا حکومت کی انکوائری ٹیم نے پشاور میٹرو بس پراجیکٹ پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق انسپکشن ٹیم نے بی آر ٹی منصوبے میں ناقص منصوبہ بندی پر حکومت کو کارروائی کی سفارش کردی ہے، ذرائع کے مطابق انسپکشن ٹیم کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بی آر ٹی منصوبے کا ڈیزائن غلط اور جلد بازی میں بنایا گیا، سروس روڈ کے مین روڈ سے منسلک ہونے سے ٹریفک کے مسائل پیدا ہوئے اور مزید پید ہوں گے، ڈیزائن میں تبدیلی کے باعث منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہوا، پیدل چلنے والوں کیلئے سڑک عبور کرنے کیلئے مناسب انتظام بھی نہیں کیا گیا۔
تحریک انصاف کی حکومت پر الزام لگتا رہا ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد اپنا کوئی پراجیکٹ شروع نہیں کیا، خیبرپختونخوا میں جو پراجیکٹ مکمل کرنے تھے وہ مکمل نہیں کیے مگر ن لیگ دور کے جن پراجیکٹس کی تکمیل ہونے والی ہے ان پر اپنی تختی لگادی ہے اور تاثر یہ دیا ہے کہ تحریک انصاف سے پہلے کسی کو ایسے پراجیکٹس بنانے کا خیال نہیں آیا، لیکن اب گزشتہ حکومت نہیں بلکہ اس سے بھی گزشتہ حکومت پیپلز پارٹی کے دور میں شروع کیے گئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی اونرشپ کا لگ رہا ہے۔