گلاب کی موت

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مترجم:مدثر محمود سالار۔۔۔۔۔۔۔
میں دریا کے کنارے چہل قدمی کرتے ہوئے اُس پیاری سی لڑکی کو دیکھ کر رُک گیا اور تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس کی حرکات کا مشاہدہ کرنے لگا۔
صبح سویرے بادِ صبا کے جھونکوں سے جہاں طبعیت تروتازہ ہورہی تھی وہیں اُس لڑکی کا بار بار پانی میں ہاتھ ڈال کر پانی سے کھیلنا میرے خیالات کو منتشر کررہا تھا۔

میری اس قصبے میں آمد ایک ہفتہ پہلے ہی ہوئی تھی،غمِ روزگار نے شہر کی رنگین دنیا سے یہاں قصبے میں لاپھینکا۔ چند دن تو نئی جگہ پر اپنا دل لگانے میں لگ گئے، پھر ایک صبح فجر کی نماز کے بعد چہل قدمی کرتے کرتے دریا کی طرف آیا اور صبح کے خوبصورت منظر نے مجھے اپنا دیوانہ بنادیا۔ پھر میں روزانہ صبح دریا کنارے چہل قدمی کرنے آنے لگا۔

ایسی ہی ایک خوبصورت صبح میں نے اُس دلربا کو دیکھا اور اس کی حرکات نے مجھے اس کے پاس جاکر دیکھنے پر مجبور کردیا۔
میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے پاس جا پہنچا، اس نے ایک نگاہ مجھ پر ڈالی اور دوبارہ اپنے کام میں مگن ہوگئی۔

میں دیکھ رہا تھا وہ ایک ٹوکری میں ہاتھ ڈال کر بہت نرمی سے ایک گلاب کا مرجھایا ہوا پھول اٹھاتی ہے اور آہستہ سے پانی میں رکھ کر بہا دیتی ہے۔
اس کا اس طرح گلاب کے پھولوں کو پانی میں رکھنا عجیب سا لگ رہا تھا، میں سوچ رہا تھا یہ ٹوکری اٹھا کر پانی میں الٹا دے اور خوامخواہ وقت ضائع نہ کرے۔
ٹوکری خالی ہوئی تو وہ اٹھی اور جانے لگی، میں نے صبح بخیر کے کلمات کہتے ہوئے جلدی سے پوچھا:” تم یہ کیا کررہی تھی؟”

وہ مسکرائی اور دریا کنارے چلنے لگی، میں اس کے ساتھ ہولیا۔ اس کی معصومیت اور خوبصورتی نے مجھے مسحور کردیا تھا اور میں اس بات کا خیال کیے بغیر اس کے ساتھ چلنے لگا کہ مجھے دفتر جانے کے لیے تیار ہونا ہے۔

"گلاب کا پھول محبت اور زندگی کی علامت ہے، اس کی نزاکت اور خوبصورتی ہمیں محبت کرنا سکھاتی ہے۔ یہ نفیس و حسین پھول ہماری خاص توجہ سے کھلا رہتا ہے۔”

وہ پیاری لڑکی اپنی روانی میں گلاب کے پھول کے متعلق بولے جارہی تھی اور مجھ پر زندگی کے نئے رنگ منکشف ہورہے تھے،میں جس کی زندگی بس دفتری فائلوں میں دو جمع دو چار کرتے گزر رہی تھی، اب اس کی گلابوں بھری باتوں سے اپنے اندر ذوق و رومانس کا پھول کھلتے محسوس کرنے لگا تھا۔

وہ کہہ رہی تھی:
"یہ پھول عزت کے مستحق ہیں، ان سے ہمیں محبت کا پیغام ملتا ہے اور یہ اس محبت کا صلہ پانے کے حق دار ہیں”۔

"میں روز صبح باغ میں جاتی ہوں ان سے ڈھیروں باتیں کرتی ہوں، ان کا لمس مجھے فرحت بخشتا ہے۔گلاب کی نرم پتیوں پر شبنم کے قطرے موتیوں کی جھلملاتے ہیں۔ان شبنمی قطروں کو چھوتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے نرم و نازک بادلوں میں کھیل رہی ہوں”۔

میں نے اس کی باتوں پر سرہلاتے ہوئے اس سے پوچھا:” تم گلاب کے مرجھائے ہوئے پھولوں کو ایک ایک کرکے کیوں دریا برد کررہی تھی؟”

"گلاب کا پھول کھلتا ہے تو توجہ کا طلب گار ہوتا ہے،اس کے پاس آکر اس سے بات کرنا اس کی خوبصورتی میں نکھار لاتا ہے، جب کوئی پھول اپنی طبعی عمر پوری کرکے مرجھانے لگتا ہے تو تب بھی یہ گلاب کا مرجھایا ہوا پھول محبت اور عزت کا حق دار ہوتا ہے”۔

"میں روز مرجھانے والے گلابوں کو نرمی اور احتیاط سے اس آرام دہ ٹوکری میں رکھتی ہوں۔دریا کے کنارے بیٹھ کر ایک ایک پھول کو محبت اور شفقت سے الوداع کہتی ہوں اور آہستہ سے پانی میں ڈال دیتی ہوں”۔

میں اس لڑکی کو حیرانی سے دیکھ رہا تھا،وہ شرما گئی اور اپنی ٹوکری میرے سامنے لاکر کھولی اور مجھے ایک مخملی رومال دکھایا جس پر وہ مرجھانے ہوئے پھول رکھا کرتی ہے۔
میں نے اس کو باغ کے باہر الوداع کہا اور کل دوبارہ ملنے کا کہہ کر گھر کی طرف چل پڑا۔

اس دن کے بعد میں روزانہ چہل قدمی کرتے ہوئے اسے مسکرا کر سلامِ صبح پیش کرتا اور اس کی گلابوں سے محبت کو دل ہی دل میں سراہتا۔ اس کی باتوں نے مجھ خشک مزاج شخص پر محبت کے باب کھول دیے۔

مجھے اُس لڑکی سے محبت ہونے لگی تھی، میں شدت سے صبح ہونے کا انتظار کرتا تاکہ اس گلاب چہرہ کو دیکھ سکوں۔
دن خوبصورت سے خوبصورت ہوتے جارہے تھے اور میں اپنے آپ میں تبدیلی محسوس کررہا تھا۔

آج ہاں آج اس قصبے میں میری آخری رات ہے، کل شام تک میں یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجاؤں گا۔

آپ یہ الفاظ پڑھ کر شاید یہی سوچ رہے ہونگے کہ قصبے والوں کو میری اُس لڑکی میں دلچسپی معیوب لگی ہوگی یا کچھ ایسی ویسی بات زبانِ زد عام ہوگئی ہوگی جس کے سبب مجھے یہاں سے جانا پڑ رہا ہے۔

نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ یہ تین دن پہلے کی بات ہے، میں ایک ہفتہ کے لیے قصبے سے باہر گیا اور تین دن پہلے واپس آیا اور صبح دریا کے کنارے حسب معمول سیر کرنے پہنچا تو دیر تک انتظار کرنے کے باوجود وہ گلابوں والی لڑکی دریا پر نہ آئی۔ میں نے سوچا شاید کوئی گھریلو مصروفیت ہوگی اس لیے آج نہیں آسکی۔

اگلے دن دوبارہ اسے دریا پر نہ پاکر میں پریشان ہوا مگر زیادہ توجہ نہ دی۔
آج دیر تک انتظار کرنے کے بعد میں باغ کی طرف چل دیا۔
باغ کے دروازے پر پہنچ کا دیکھا تو باغ کی مالکن گلاب کے پودوں کی کانٹ چھانٹ کررہی ہے۔ میں نے دروازے کی لکڑی کو ہلکا سا بجایا تو اس نے مڑ کر دیکھا۔
میں نے اندر آنے کی اجازت مانگی اس نے کہا:
"آجاؤ۔ "

میں نے فوراً اس سے پوچھا:”وہ گلابوں والی لڑکی جو صبح دریا پر جاتی تھی وہ کہاں ہے؟ کیا وہ بیمار ہے؟؟”
خاتون نے خالی خالی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور گویا ہوئی:
"یہ پانچ دن پہلے کا حادثہ ہے وہ حسب معمول دریا پر گئی اور نہ جانے کیسے اس کا پاؤں پھسلا اور وہ بھی گلابوں کے ساتھ دریا میں بہ گئی۔
اسے ان مرجھائے ہوئے گلابوں نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے”۔

میں صدمے اور دکھی دل کے ساتھ گھر واپس آیا اور سارا دن اس گلاب لڑکی کو یاد کرتا رہا۔
اب میرا اس قصبے میں رہنا میرے لیے اذیت کا باعث ہوگا کیونکہ میں ہر صبح اسے دریا کنارے نہیں دیکھ سکوں گا۔
میں کل دفتر میں تبادلے کی عرضی دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہاں سے چلا جا آؤں گا۔
ہاں یاد آیا اس نے ہی ایک بار کہا تھا:
” گلابوں کی عمریں مختصر ہوتی ہیں”
(عربی ادب سے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

3 پر “گلاب کی موت” جوابات

  1. محمد عدیل عاصم Avatar
    محمد عدیل عاصم

    خوب صورت پیاری تحریر! ترجمے کا انداز بہت پیارا ہے.

  2. اعظم اعوان Avatar
    اعظم اعوان

    اچھی تحریر ہے ❤️

  3. عنایت اللہ کامران Avatar
    عنایت اللہ کامران

    ماشاءاللہ مترجم بھی بن گئے. انداز تحریر بہت زبردست… دل کے تار ہلا دینے والی تحریر ہے. اصل تحریر کی بہت خوب ترجمانی کی ہے.