منیش والدین کے لئے روشن مستقبل بن سکتاتھا لیکن دوسال کی عمر میں اس کے جسم نے حرکت کرنا ہی چھوڑ دیاتھا حتیٰ کہ وہ گھٹنوں کے بل رینگ بھی نہیں سکتا تھا۔ یہ بچہ پیدائش کے وقت ہی سے کینسر کے ہلاکت خیز مرض میں مبتلا ہے۔اس کے سر کا حجم غیرمعمولی طورپر بڑھ رہاہے، اس سے ظاہرہورہا ہے کہ اسے کچھ دیگرامراض نے بھی گھیر رکھاہے۔ اس کے والد ترسیم اور والدہ دونوں ڈیلی ویجز پر کام کرتے ہیں۔ وہ قریبی چھوٹے شہر راما منڈی میں کام کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ ترسیم اب تک منیش کے علاج کے لئے 25000روپے کا قرض لے چکاہے۔ یہ دلت جوڑا جانتاہے کہ ان کا بیٹا زیادہ عرصہ تک زندہ رہنے والا نہیں تاہم وہ اس کا بہتر سے بہتر علاج کرناچاہتے ہیں۔
اگرچہ وہ اس بہتر علاج کی استطاعت نہیں رکھتے، ان کے پاس کوئی جائیداد نہیں ہے جسے بیچ کر وہ ڈاکٹروں کو پیسہ فراہم کرسکیں، نہ ہی کوئی فرد انھیں ایک خاص حد سے زیادہ قرض دینے کو تیارتھا۔ججل نامی جس گاؤں میں وہ رہتے ہیں، کینسر کے مریضوں سے بھراپڑا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے ، بٹھنڈا کے ضلعی ہیڈکوارٹر سے 30 کلومیٹر دور،آبادی 3500 کے لگ بھگ ہوگی۔ سکھوں کے ایک مشہور بزرگ دمدمہ صاحب کی زیارت اسی علاقے میں واقع ہے۔ یہ مشرقی پنجاب کا جنوب مغربی علاقہ ہے۔ یہ سارا علاقہ ’مالوا‘ کہلاتاہے۔ یہاں زیادہ تر کپاس کاشت ہوتی ہے۔ صرف ججل ہی نہیں اس پورے علاقہ مالوا میں بہت سے منیش ہیں اور بہت سے ترسیم۔
گاؤں کے سرپنچ ناجر سنگھ نے کہا ’یہاں ایسی کم ہی گلیاں ہیں جہاں کسی نہ کسی کی کینسر سے موت نہ ہوئی ہو۔ یہاں تقریبا 530 گھر ہیں اور 1984 سے لے کر اب تک قریباً ایک سو افرادکینسر کا شکار ہوچکے ہیں۔‘ یہاں بسنے والے ہردیو سنگھ نے بتایا ’ایک بار ارکان پارلیمنٹ کی ایک 19رکنی ٹیم یہاں آئی تھی، انھوں نے حالات کا جائزہ لیا، ہم سب سے ملے، کئی کاغذ کالے کیے لیکن ہوا کچھ نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پانچ سال پہلے وہ اپنے بھائی شیر سنگھ کو کینسر کے سبب کھو چکے ہیں۔ انہیں بلڈ کینسر تھا، کافی خرچ ہوا، بیکانیر ہسپتال لے کرگئے لیکن وہ ٹھیک نہیں ہوئے۔‘ اسی گاؤں کے بھولا سنگھ کا کہنا ہے کہ کینسر کی وجہ سے اس گاؤں میں سالوں سے ماتم کا ماحول ہے، آئے دن کسی نہ کسی شخص کی کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کی خبر آتی ہے۔ مجھے یاد ہے نو دس سال قبل ایک ہی دن دو افراد کی کینسر سے موت ہوئی تھی۔ میرے والد جیت سنگھ بھی بلڈ کینسر کے شکار ہوئے تھے۔‘
کینسر بہت خوفزدہ رکھنے والا مرض ہے بالخصوص اگرمریض غریب کسان اور مزدور کا بیٹا ہو۔کرتاکور کی عمر 90 برس ہے۔کرتارکور نے اپنی تقریباً سوسالہ زندگی میں اپنے وطن میں بہت سی مشکلات کا سامنا کیا۔ اس کی زندگی میں جوامید کی شمع جل رہی تھی، وہ بہت مدھم ہوچکی ہے۔ ایک ایک کرکے اس کے تین بیٹے کینسر کی وجہ سے موت کے گھاٹ اترگئے۔ چھوٹا سنگھ 45برس کا تھا جب اس نے2002ء میں آخری سانس لی اور پھر اسے چتا کی آگ میں جلا کر راکھ بنادیا گیا۔
پھر اگلے ہی سال بلبیر سنگھ 60برس کی عمر میں ہلاک ہوگیا۔ جلوڑ سنگھ بھی 45برس کا تھا جب 2005ء میں موت نے اسے بھی آلیا۔ یہ خاندان 9لاکھ روپے کا مقروض ہوگیا تھا، کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ سارا قرض ان مریضوں کے علاج کی خاطرلیاگیاتھا۔ اب بھی6 لاکھ روپے اداکرنے کو ہیں۔ قرض ادائیگی کی خاطر ٹریکٹر سمیت گھر کا تقریباً سب کچھ بک گیا۔اس سارے عرصہ میںکسی بھی سطح کی حکومت نے اس خاندان کو امداد یا ریلیف دینے کی کوشش نہیں کی۔
یہ اس دور کی بات ہے جب ججل گائوں ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں آرہاتھا اور یہ ریاستی حکومت کے لئے ایک چیلنج بن چکاتھا۔ میڈیا میں ایک ریٹائرڈ سرکاری ٹیچر جرنیل سنگھ کی کہانی بھی شائع ہوئی تھی، اس کہانی میں بھی ججل اور اس سے ملحقہ دیہاتوں میں کینسر کے پھیلتے ہوئے اثرات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذکرکیاگیاتھا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس مرض میں مبتلا ہے جبکہ باقی ماندہ لوگ بھی اس خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ اور اسی نوعیت کی دوسری کہانیاں چھپنے کے بعد ماہرین اور صحافیوں کی بڑی تعداد نے اس گائوں کا دورہ کیا۔ اگلے پانچ برس تک یہی کچھ ہوتارہا لیکن کینسر میں مبتلا ہونے والے مریضوں کا کچھ بھلا نہ ہوا۔ ایک کسان جسوندر سنگھ نے بتایا:’’ ہمیں صحافیوں، سرکاری اہلکاروں اور ڈاکٹرز سے وزیٹنگ کارڈز کے علاوہ کچھ بھی نہ ملا‘‘۔
ماہرین اس گائوں اور گردونواح میں پھیلتے ہوئے کینسر کا سبب ماحولیات سے جوڑتے ہیں بالخصوص پینے کے آلودہ پانی سے جو کسی بھی طورپر پینے کے قابل نہیں ہے۔ پانی کیوں آلودہ ہوا؟ بعض ماہرین کاخیال ہے کہ یہاں فصلوں اور سبزیوں وغیرہ ضرورت سے زیادہ کیڑے مار ادویات کا استعمال کیاجاتا ہے۔ اس علاقے میں ان ادویات کا استعمال مسلسل بڑھ رہاہے۔ سنٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ اور گرین پیس، دونوں اداروں کی تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق اس گائوں میں کیڑے مار ادویات کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔
جون 2005ء میں سنٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ نے انکشاف کیاکہ یہاں کے دیہاتیوں کے خون کے نمونے لئے گئے جن میں ان ادویات کی مقدار موجود تھی۔ افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ یہاں ایسی ادویات استعمال ہورہی ہیں جن کے بارے میں دوا ساز کمپنیاں دعویٰ کرتی ہیںکہ ان میں ایسے اجزا شامل کئے جاتے ہیں جو انسانی صحت کے لئے کم سے کم مضر ہیں لیکن خون کے نمونے ٹیسٹ کرنے سے معلوم ہوا کہ ادویات میں ایسے کیمیکلز شامل ہیں جو انسانی صحت کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔
جنوری 2005ء میں پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ریسرچ چندی گڑھ نے اپنی رپورٹ میں بھی کیڑے مار ادویات ہی کو ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا سبب بتایا اور اس کے نتیجے میں کینسر پھیلا۔ اس رپورٹ میں بتایاکہ ان ادویات کی مقدار نہ صرف انسانی خون میں پائی گئی بلکہ یہاں کی سبزیوں اور پینے کے پانی میں بھی غیرمعمولی طورپر زیادہ موجود تھی۔ پینے کے پانی میں As, Cd, Se,Hg کی بھاری دھاتوں کی مقدار پائی گئی، اسی طرح Heptachlor ،Ethion اورChloropyrifos جیسے زہروں کی مقدار بھی کافی مقدار میں تھی۔
اس رپورٹ میں تجویز کیاگیا کہ پنجاب کے تمام کپاس کی کاشت والے علاقوں میں وسیع پیمانے پر سٹڈی کی جائے۔ ریاستی حکومت کینسر سے نمٹنے کے لئے خصوصی ادارہ قائم کرے، پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ باقاعدگی سے ان علاقوں میں پینے کا پانی چیک کرے، اس میں کیڑے مار ادویات اور بھاری دھاتوں کی مقدارکا جائزہ لے۔ لیکن برا ہو ایسی سیاست کا، ان میں سے کسی بھی تجویز کو حکومت نے اہمیت دینامناسب نہیں سمجھا۔ حتیٰ کہ حکومت نے اس علاقے میں ابتدائی طورپر ان مریضوں کے علاج کے لئے یاکینسر روکنے کی تدابیر کرنے کے لئے بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
جب سے یہ گاؤں کینسر کی زد میں آیا ہے یہاںکے لوگ اس کے بارے میں بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔ یہاںکے باشندے کہتے ہیں:’’ نہ تو کوئی یہاں کا پانی پیتا ہے نہ ہی کوئی اپنے بچوں کی شادی یہاں کرنے کے لیے تیار ہے۔کوئی بھی اس گاؤں میں اپنی لڑکے کی شادی کرتا ہے نہ ہی کوئی لڑکی دینا چاہتا ہے۔
گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ان کی تکلیف کا سبب بھلے ہی کینسر ہے لیکن انہیں دکھ اس بات کا بہت زیادہ ہے کہ کینسر کے سبب اس گاؤں کی بدنامی کی وجہ سے یہاں کے کئی لڑکے اور لڑکیوں کی شادی نہیں ہو پا رہی ہے اور نہ ہی اس گاؤں میں مہمان آتے ہیں۔گاؤں کے ایک شخص راج پردیپ سنگھ نے اخبارنویس سے کہا: ’کسی اور کی کیا بات کریں، اب آپ یہاں آئے ہیں اور اگر ہم آپ کو پانی دیں تو آپ اسے پیئیں گے نہیں۔‘سنہ 2005 میں اس کے والد بلدیو سنگھ کی ریڑھ کی ہڈی میں کینسر ہوا تھا جس کے بعد ان کی موت ہو گئی تھی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اس گائوں کے باسی کینسر کے ایشو پر بات نہیں کرناچاہتے۔ حتیٰ کہ کینسر کے مریضوں نے بھی لب سی رکھے ہیں۔ انھوں نے اس کے بارے میں بات کرنے کے لئے کوڈورڈ’’بیکانیر‘‘ رکھا ہوا ہے۔ بیکانیر جانے کا مطلب ہے کینسر کے علاج کے لئے بیکانیر (ریاست راجستھان کا شہر)جانا۔ جن لوگوں کو اپنے کینسر میں مبتلا ہونے کا شک ہوتاہے ، وہ چیک اپ کے لئے نہیں جاتے۔ بڑا سبب یہ ہے کہ اس پر اخراجات بہت زیادہ اٹھتے ہیں۔
حتیٰ کہ علاج کے بعد بھی بہت سی زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔ مثلاً 70سالہ مختیارسنگھ کو کینسر لاحق ہواتو اس کا ایک گردہ متاثرہوا۔ اس نے علاج کے لئے نہ صرف اپنا ٹریکٹر بیچا بلکہ زمین بھی فروخت کردی۔ وہ اب بھی دو لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ یہ علاج کیسے ہوا اور اس کے بعد اب تک قرض کی ادائیگی کیسے ہوئی؟ اس کا جواب دیتے ہوئے مختیارسنگھ کہتاہے’’ہم نے اپنی ضرورتوں میں کٹوتی کی۔ ہم ایک وقت میں سبزی پکاتے ہیں اور اس کے ساتھ تین وقت کھاناکھاتے ہیں‘‘۔
اس گائوں کے لوگوں کو صرف ایک کینسر نے ہی شکنجے میں نہیں جکڑا بلکہ وہ وقت سے پہلے بوڑھے بھی ہوجاتے ہیں، ان کے جوڑوں میں ہمہ وقت درد رہتاہے اورکمردرد بھی۔ اس کے علاوہ امراض قلب،فالج، جلد کے امراض، دمہ اور جوڑوں کا درد بھی لاحق ہوتاہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ ان مسائل کا تعلق بھی ماحولیاتی آلودگی سے ہی ہے۔ صحت کے یہ سارے مسائل اب اس قدر عام ہوچکے ہیں کہ اس گائوں والے انھیں اپنی قسمت کا حصہ سمجھتے ہیں۔ بانجھ پن کا مسئلہ بھی عام ہے، خرابی مردوں اور عورتوں ، دونوں میں پائی جاتی ہے۔نفسیاتی عوارض بھی عام ہورہے ہیں۔ ان کے سبب خاندان بکھر رہے ہیں۔
اس گاؤں کے ہرگھرانے پر ایک سے تین لاکھ روپے کا قرض ہے۔ جب یہں کی حالت زار کو دیکھاجائے اور پھر اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ کسان خودکشی کرتے ہیں ، خودکشی کا سبب قرض۔ اس گائوں میں بھی گزشتہ بیس برسوں کے دوران 10کسان خودکشی کرچکے ہیں۔ بہت سی ایسے کسان ہیں جو قرض چکاتے ہوئے اپنی ساری زمین فروخت کرچکے ہیں اور اب کھیتی باڑی نہیں کرتے۔کبھی وہ اپنی زمینوں پر کام کرتے تھے لیکن اب وہ وڈیرے کی زمینوں پر کام کرتے ہیں۔
بھارت میں ہرحکومت ہرقیمت پر’’سبز انقلاب‘‘ لانے پر تلی ہوئی ہے، اس کے لئے وہ کسانوں کو کھادیں اور کیڑے مار ادویات فراہم کررہی ہے۔ بظاہر ان کا مقصد ہوتاہے فصلوں کی زیادہ پیداوار اور ان کی حفاظت لیکن یہی چیزیں اس وقت بھارتی دیہاتوں کے باسیوں کے لئے مہلک بن چکی ہیں۔ اگرچہ بٹھنڈہ، مانسا، مکتسر اور فریدکوٹ کے سینکڑوں دیہات ان مسائل سے متاثر ہورہے ہیں تاہم ججل کا حال زیادہ برا ہے۔صرف اسی ایک گاؤں میں ایک سو کے قریب ہلاکتیں۔ بھارت میں کینسر کے 70فیصد مریضوں کا تعلق پنجاب اور ہریانہ سے ہوتاہے۔بکانیر میں 2012ء میں کینسر کے7000 مریضوں کا علاج ہوا۔ یہ وہ دو ریاستیں ہیں جو گندم کی کل ملکی پیداوار کا ایک تہائی حصہ فراہم کرتی ہے۔صرف پنجاب میں 34000 لوگ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوچکے ہیں۔
ججل پر حکومتی غفلت اور اندھیرا چھایا ہواہے لیکن اس تاریکی میں جرنیل سنگھ امید کی کرن بنے ہوئے ہیں۔ وہ گائوں والوں کو کیڑے مار ادویات کے بغیر فصلیں اگانے کے لئے قائل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ نہ صرف خود ایسا کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی یہی راستہ دکھارہے ہیں۔ ان کی کوششیں بارآور ہورہی ہیں۔ اب باقی لوگ بھی اسی راستے پر گامزن ہیں۔
ججل کی یہ کہانی پڑھنے کے بعد چندلمحوں کے لئے اپنے پاکستان کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ یہاں کتنے فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے؟کیا بازاروں میں فروخت ہونے والا غذائی سامان صحت مند ہے یا زہر آلود؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہاں پھل وقت سے پکانے اور سبزیوں کا حجم بڑھانے کے لئے ضرورت سے زیادہ کیمیکلز کا استعمال ہورہاہے؟ کیا یہاں کے کسان بھی بھارتی پنجاب کے کسانوں کی طرح زیادہ فصل کے لالچ میں اپنے ہاتھوں اپنی قوم کی ہلاکت کا سامان کررہے ہیں؟افسوسناک امریہ ہے کہ مذکورہ بالا سب سوالات کے جوابات ’ ہاں‘ میں ہیں۔ پاکستان میں قوم کو ان خطرات سے بچانے کے لئے ادارے اور ان کا کافی عملہ موجود ہے لیکن وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کو تیارنہیں۔ ان اداروں کو پوری طرح فعال کی ضرورت ہے اور اس سے بھی زیادہ ضروری عوام میں شعورصحت کی سطح بلندکرنا ہے۔