روٹی کا رشتہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بشریٰ نواز۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہیں پہ ایک موچی رہتا تھا، اس کا نام گولہ خان تھا، وہ بہت نیک اور خدا ترس تھا، جو کماتا اس میں سے کچھ نہ کچھ اللہ کی راہ میں‎ بھی دیا کرتا۔ ایک دن ابھی اس نے اپنا کام شروع کرنے کیلئے ٹاٹ بچھایا ہی تھا کہ کہیں سے ایک فقیر آ گیا، بے چارا بھوکا بھی تھا۔

خیر! موچی نے سامنے والے ہوٹل سے اس فقیر کو کھانا کھلایا، کھانا کھا کے فقیر نے بہت دعائیں دیں اور موچی کو تحفے میں ایک گملا بھی دیا، ساتھ یہ بھی کہا کہ اس کا خیال رکھنا، روز پانی دینا۔ یہ کہہ کے موچی روانہ ہوگیا، اب اس نے گملے کا خیال رکھا یا نہیں اللہ‎ جانے یا موچی!

کابل میں شدید گولہ باری کی زد میں گولہ خاں کا پورا گھرانہ شہید ہوگیا، جب یہ سانحہ ہوا، وہ خود اس بستی سے دور تھا۔ دور سے اجڑی اور دھواں دیتی بستی اسے بتارہی تھی کہ اب وہاں کوئی زندگی باقی نہیں، پھراس نے را کھ کے ڈھیر بھی دیکھ لیے لیکن وہاں کسی زندگی کو تلاش نہ کرسکا۔

پندرہ سالہ گولہ خان گولہ باری کے انہی دنوں کی پیدائش تھا، نو بہن بھائیوں میں وہ پانچویں نمبر پہ تھا۔ چار بھائی اور بھی تھے۔ پانچ بہنوں اور تین بھائیوں کو یاد کرکے دیر تک روتا،اماں بابا یاد آتے،تب بھی روتے روتے اس کے آنسو بھی ختم ہوجاتے۔ پھر ایک رات وہ باڈر پار کر کے پاکستانی علاقے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا، پھرتا پھراتا، مزدوری کرتا، وقت گزارتا رہا۔ ایک ہنر تھا ہاتھ میں جوتیاں مرمت کرنے کا۔

مزدوری کر کے کچھ روپے جمع کئے اور پھرجوتیاں مرمت کرنے کا سامان لے آیا۔ پہلے تو وہ گھوم پھر کے کام کرتا رہا، وہ ٹھنڈ کا عادی تھا، گرمی اسے نڈھال کردیتی تھی، پھر ایک دن اسے دھریک کے ایک درخت کی ٹھنڈی چھائوں نے اسے ماں کی یاد دلا دی۔ ایسے لگا جیسے ماں نے دھوپ سے بچا کے اپنی چادر میں چھپا لیا ہو، اس نے وہیں پر ڈیرہ ڈالنے کا ارادہ کرلیا۔

دھریک کے نیچے ہی وہ سوجاتا، ادھر ہی نماز پڑھتا۔ اسے یہاں ٹھکانہ بنائے چند دن ہی ہوئے تھے۔ کبھی کام مل جاتا اور کبھی سارا دن کوئی بھی گاہک نہ آتا۔ آج بھی ایسا ہی دن تھا، کوئی گاہک نہیں آیا تھا، بھوک سے برا حال تھا، صبر کے سوا وہ کچھ نہیں‌کرسکتاتھا۔ آنکھیں بند کرکے وہ ماضی میں کھویا ہوا تھا کہ ایک آواز نے اس کی آنکھ کھول دی۔

“خان! کھانا لے لو”
گولہ خان اسے بھی خواب ہی سمجھا کیونکہ بھوکے کو تو نیند میں بھی روٹی ہی نظرآتی ہے۔ اس نے آنکھ کھولی توسامنے اس کا ہم عمر کھانے کی ٹرے پکڑے کھڑا تھا۔ اس نے اپنا نام فرید بتایا اور کہا:
“لو کھانا کھا لو، میں تھوڑی دیر میں برتن لے جاؤں گا”
پھر گولہ خان پہ یہ من و سلویٰ روز ہی اترنا شروع ہوگیا۔

جب سے وہ پاکستان آیا تھا، تھوڑی بہت اردو بول اور سمجھنے بھی لگ گیا تھا وہ اللہ‎ کا شکر ادا کرتا جس نے ایک کوٹھی والوں کے دل میں اس کے لیے رحم ڈالا تھا۔ اس کا بہت دل کرتا کہ وہ فرید سے کوئی بات کرے لیکن اسے شرم سی محسوس ہوتی ، پھر بھی وہ اس کا شکریہ ادا کردیتا۔ ایک دن گولہ خان نے جھجکتے ہوئے پوچھ لیا مجھے کھانا کون بھیجتا ہے؟
“امی دیتی ہیں۔”

“تم نے کچھ کھایا؟” فرید کی جھجھک آہستہ آہستہ کم ہو رہی تھی۔
“جو تمھیں دیا، ہم نے بھی وہی کھایا”
وہ روز مزے کے کھانے کھاتا اور سوچتا میری ماں نے تو کبھی ایسے کھانے دیکھے بھی نہ تھے۔ ماں کی زندگی مشقت کے سوا کچھ نہ تھی۔

ان کے علاقے میں ویسے بھی خوشیوں کا کوئی گزر نہیں تھا۔ ہر کسی کی جان ہتھیلی پہ رہتی تھی۔ ماں اتنے سارے بچوں کو پالتی رہی مگر انھیں محبت نہ دے سکی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ ماں کی محبت کیسی ہوتی ہے؟ بس وہ اتنا ہی سوچ سکتا تھا۔ پیٹ بھر کھانا ہی ماں کی محبت ہے۔ اسے محسوس ہوا کہ ماں ایسی ہی ہوتی ہے جو اولاد کی بھوک کا خیال رکھے۔ اسے محسوس ہوا جیسے کھانا بھیجنے والی اس کی ماں ہے۔

آج جب فرید اسے کھانا دینے آیا تو کھانے کے ساتھ ایک شلوار قمیض بھی تھی۔
“لو ! یہ امی نے بھیجا ہے۔” تھیلا پکڑتے ہوئے اسے لگا کہ یہ میری ماں ہی ہے۔ آج پہلی بار اس نے کہا:
“امی کو میرا سلام کہنا اور شکریہ بولنا”
اب وہ روز کھانا لیتے ہوئے امی کو سلام کہتا۔

جب کبھی انھیں کہیں جانا ہوتا تو امی فرید کے ہاتھ کھانے کے پیسے بھجوا دیتی۔اس نے کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ وہ مجھے کھانا کیوں دیتی ہیں۔ وہ تمام معاملات میں سوچنے کی صلاحیت سے پیدائشی اور خاندانی طور پہ معذورتھا۔ صرف اگلی روٹی کے متعلق ہی سوچ سکتا تھا۔ اسی لیے اسے اپنی کم مائیگی کا زیادہ احساس نہیں تھا۔ یہ بھی اس کے لیے نعمت ہی تھی کیونکہ سوچ کا در وا ہوتے ہی سوچوں کی یلغار اس کی کمزور ہستی کو ریزہ ریزہ کردیتی۔جو بھی تھا گولہ خان خوش تھا۔ کوئی کام آجاتا تو خوشی خوشی کرتا۔ امی اسے کھانا بھیجنا کبھی نہ بھولتی تھی۔ کوئی دعوت ہو، افطاری ہو یا عید ۔ وقت گزرتا رہا۔

کچھ دن سے اسے گاؤں بہت یاد آرہا تھا، کیسے جاۓ؟سوچتا رہا، کچھ سمجھ نہ آئی تو ایک ہفتہ ادھر ادھر گھوم کےواپس اپنے ٹھکانے پہ آگیا۔ آج گھر کے سامنے بہت گاڑیاں کھڑی تھیں، ٹینٹ بھی لگے ہوئے تھے، بہت چہل پہل تھی، کھانوں کی خوشبو بھی فضا میں تھی۔

وہ رونق دیکھتارہا اور کھانے کا انتظار کرتا رہا۔ دوپہر سے شام ہو گئی، کھانا نہیں آیا۔ کیا آج امی مجھے بھول گئی؟ سوال بار بار دل اور دماغ میں آ رہا تھا۔ کیا ہوا؟ امی ناراض تو نہیں ہوگئیں؟مہینوں میں تو کبھی ایسا نہ ہوا تھا، اب کیوں ہوگیا؟ بھوک سے اس کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے۔ وہ اٹھ کے چچا کے ہوٹل سے کھانا لے آیا۔ اچانک اس کی نظر اس لڑکے پہ پڑ ی۔ گولہ خان جلدی سے اس کے قریب گیا اور گھر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔

“یہ رونق کیسی ہے؟ “
“پرسوں امی۔ فوت ہو گئیں”

“کیا بولا تم؟ “
“پرسوں امی کو دل کا دورہ پڑا،بچ نہیں سکیں”۔
لڑکا رونے لگا، گولہ خان کا بھی سرجھک گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ موچی اپنی حیثیت بھول کے لڑکے کے گلے لگ گیا۔ دونوں کا دکھ سانجھا تھا۔ امی کا ان دونوں سے پیٹ کا رشتہ تھا۔ ایک سے پیدائش کا، ایک سے روٹی کا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں