عائشہ غازی، دفاعی تجزیہ نگار، ڈاکومنٹری فلم میکر، شاعرہ

بعض سوال جن کے جواب نہیں مل رہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عائشہ غازی۔۔۔۔۔۔
کے پی کے سے لاہور تک اور لاہور سے کشمور تک ذاتی طور پر مجھے خود ہندو کمیونٹی سے مل بیٹھ کر بات کرنے کا موقع ملا… ہر جگہ میں نے ان کو مطمئن پایا.. سندھ کے ہندو کہنے لگے ہم یہاں مسلمانوں سے زیادہ خوش اور خوشحال ہیں.. بونیر کے ہندو جو لبرلز کے مطابق شدت پسندی کے گڑھ میں رہتے ہیں، وہ کہنے لگے ہمارے ہاں تو کوئی اقلیت اکثریت والی بات ہی نظر نہیں آتی.. ہمارا تو زیادہ خیال رکھا جاتا ہے.. لاہور کے مندر کا ہندو پجاری کہنے لگا یہ جبری مذہب تبدیل اور اغوا وغیرہ نہیں ہوتا، لڑکی کی اپنی مرضی ہوتی ہے….(اور ان سب بیانات کا ثبوت میرے پاس موجود ہے)….لیکن

ایکسپریس ٹریبیون سے لے کر بی بی سی اردو تک کو دیکھ کر ایسا کیوں لگتا ہے اقلیتیں جہنم میں ہیں..؟ کیا ان کی خواہش کچھ واقعات کو بنیاد بنا کر بدامنی کی آگ لگانا ہے…؟ انہیں کسی سے کوئی ہمدردی نہیں، یہ صرف اپنے آقائوں کے اشارے پر آگ لگا کر جلنے کا تماشہ دیکھنا چاہتے ہیں.. چاہے ہندو جلیں یا مسلمان.. جب مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہتے ہیں تو انہیں تکلیف کیوں ہے؟

پھر ایک شدت پسند جعلی لبرل طبقہ ہے جو رہف محمد (سعودی) کے گھر بلکہ ملک سے بھاگنے اور تبدیلی مذہب کے اعلان کے طور پر “میرا جسم میری مرضی” کے تحت مختصر کپڑے پہن کر جلوہ افروز ہونے پر وارے نیارے جاتا ہے کہ اتنی ننھی سی عمر میں اس نے “گھٹن اور جبر” سے بغاوت کی.. لیکن نچلی ذات کی ہندو لڑکیاں اگر یہی بغاوت کر لیں تو ان کا سیاپا بالکل متضاد پیرائے پر شروع ہو جاتا ہے.. کیوں؟

سوچتی ہوں “میرا جسم میری مرضی” والی آنٹیاں نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی سندھی لڑکیوں کے اپنی مرضی کی شادی کے حق میں باہر کیوں نہیں نکلتیں؟ ان پر “مرضی” فارمولااس لیے نہیں کہ وہ ساتھ میں مذہب بدل کر مسلمان ہو جاتی ہیں؟

معاملے میں حکومت خصوصی دلچسپی لے رہی ہے اور “دین میں جبر نہیں” کا اعلان کر رہی ہے.. تحقیقات سے پہلے ہی اخبارات سے لے کر حکومت تک اسے جبری اغوا کا معاملہ قرار دے چکی ہے.. جبکہ لڑکیوں کی ویڈیو اور تصاویر سے معاملہ جبری نہیں لگتا… بہرحال جب تک معاملے کی باقاعدہ تحقیق نہ ہو، حکومت اور اخبارات کا جبری اغوا پر عوامی رائے بنا دینا نا انصافی کیوں نہیں..

اگر”ریاست مدینہ”والوں کو یہ معلوم ہے کہ دین میں جبر نہیں جو کہ بالکل سچ ہے تو انہیں یہ کیوں معلوم نہیں کہ اسلام قبول کرنے کے لیے اٹھارہ سال کی عمر تک کسی کو جبری روکنا بھی اسلام کے سراسر منافی ہے..

لیکن اس سب میں سب سے زیادہ حیرت انگیز یہ ہے کہ ایسے واقعات سندھ کی ہندو بچیوں کے ساتھ ہی کیوں ہوتے ہیں، خیبر اور پنجاب میں کیوں نہیں؟ جتنا ایکشن حکومت نے ان بچیوں کے لیے لیا ہے، اسے اتنا ہی ایکشن لینا چاہیے لیکن سندھی وڈیروں کی نجی جیلوں میں قید بچیوں کے لیے سرکاری، عدالتی یا میڈیا کی سطح پر ایسا ایکشن دیکھنے کو کیوں نہیں ملتا..؟

سوال تو اور بھی بہت ہیں… لیکن فی الحال دعا ہےکہ ان بچیوں کو انصاف ملے چاہے وہ اس حساس موضوع پر بننے والے دھڑوں میں کسی کے حق میں ہو یا خلاف… اگر جبر یہ ہے کہ زبردستی مذہب تبدیل ہوا، شادی ہوئی تو بھی مجرموں کو عبرت کا نشان بنایا جائے…. اور اگر جبر یہ ہے کہ زبردستی واپس پرانے مذہب اور شوہر سے الگ کیا جارہا ہے تب بھی بچیوں کو تحفظ ملے..


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں