عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والدین نے اپنی بچی کو سڑک کے کنارے رکھا اور پھر غائب ہوگئے۔ یہ بچی’کیٹی پوہلر‘ تھی، اس کے ساتھ کیا بیتی اور اب وہ کہاں اور کس قسم کی زندگی بسر کررہی ہے، یہ ایک حیرت انگیز کہانی ہے۔
بچی کاوالد اسے صبح منہ اندھیرے قریباً 4بجے شہر میں ایک قریبی مارکیٹ میں چھوڑ آیاتھا۔ اس نےیہ قصہ کچھ یوں سنایا:”میری بیوی سات مہینے کی حاملہ تھی، ہم اسقاط کا سوچ رہے تھے۔ میں اکثر اس بچے کو زندگی میں چلتاپھرتا محسوس کرتاتھا اس لئے اسقاط کا سوچتے ہوئے بھی برا لگتاتھا۔بالآخر ہم نے اسقاط نہ کرانے کا ہی فیصلہ کرلیا اگرچہ ہم اس کی پرورش کرنے کے قابل نہیں ہوں گے، ہم نے سوچا کہ ہمیں اسے اس دنیا میں آنے دیناچاہئے“۔
بچی کی والدہ نے بتایا کہ ”سیکورٹی اہلکار ہمارا پیچھا کررہے تھے، ہم اپنی ماں کاگھر پہلے ہی چھوڑ چکے تھے، اپنے جیٹھ کے گھر میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ میری ماں بوڑھی تھیں، میں نہیں چاہتی تھی کہ میرے حمل کی وجہ سے پورا خاندان مشکلات سے گزرے۔ ہم گاﺅں کے لوگوں سے خوفزدہ تھے، چنانچہ اس کے بعد ہم ’سوزہو‘ میں ایک کشتی میں چھپے رہے۔ پھروضع حمل کا وقت قریب آن پہنچا لیکن ہم کسی ہسپتال میں جانے کی جرات نہ کرسکے کیونکہ یہاں کے ہسپتالوں میں ڈیلیوری کے لئے حکومت سے اجازت لیناپڑتی تھی۔ نتیجتاً ہم نے یہ سارا کچھ خود ہی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔بچی پیداہوئی، وہ بہت صحت مند تھی“۔ والدہ کہنے لگی کہ ”جب میں نے ’جنگ زی‘ کو جنم دیا، تو میں نے سوچا کہ بچی کسی کو دیدیں گے تاکہ جب چاہیں، اس سے مل آئیں لیکن ہم کسی ایسے فرد کو تلاش نہ کرسکے جو اسے گود لے۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا، شوہر کہنے لگا کہ اسے مارکیٹ میں رکھ آتے ہیں“۔
”اسے پیدا ہوئے تیسرا دن تھا کہ میں نے ایک صبح اس کا دودھ تیار کیا، پھر اسے سینے سے لگایا اور مارکیٹ کی طرف چل پڑا۔ بچی سورہی تھی۔ میں نے اسے آخری بار چوما اور ایک جگہ پر رکھ دیا۔ یہ بائیسکل ٹھیک کرنے والی دکان تھی جو ظاہر ہے کہ اُس وقت بند تھی۔ اس نے بیٹی کے پاس ایک چینی زبان میں خط بھی رکھ دیا اور واپس چل پڑا۔ پھرمجھے اس کے رونے کی آواز سنائی دی۔آج بھی اس کے رونے کی وہ آواز مجھے واضح طور پر سنائی دیتی ہے“۔
اس کہانی کا اگلا موڑ سترہ اگست1996ءکو آیا جب ایک امریکی جوڑا کین پوہلر اور اس کی اہلیہ چین آئے، انھوں نے یہاں سے ایک بچی گود لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ ہانگ زو سے 120کلومیٹر دور سوزہو کے ایک یتیم خانے پہنچے جہاں سے انھوں نے اس بچی کو گود لیا۔ یوں یہ بچی مشی گن امریکا چلی گئی۔ انھیں وہ خط بھی دیاگیا جو اس بچی کے پاس اس کا والد رکھ کر چلاگیاتھا۔
خط میں لکھاتھا: ”میری یہ بچی24جولائی 1995ءکو صبح کے وقت ’سوزہو‘(چین کے ایک شہر) میں پیدا ہوئی۔ غربت اور دیگرمسائل کی وجہ سے ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا کہ ہم اسے سڑک کے کنارے رکھ آئیں۔ (اے خط پڑھنے والے) اگرآپ کو ہم والدین سے کچھ ہمدردی ہے تو کم ازکم دس یا بیس سال بعد ’ہانگ زو‘ کے ٹوٹے ہوئے پل پر ہمیں ضرور ملنا“۔ یادرہے کہ اس پل پر ہرسال سات جولائی کو محبت کرنے والے آپس میں ملتے تھے۔ خط کے نیچے دل شکستہ ماں اور باپ ، دونوں کے دستخط موجود تھے۔
والد کا خیال تھا’ جس نے بھی اس بچی کو گود لیا، وہ اگلے دو، تین، پانچ سالوں میں بچی سے ہمیں ملنے نہیں دے گا۔ دس یا بیس سالوں کے دوران میں بچی کو معلوم ہوجائے گا کہ اس نے کسی گھر میں لے پالک کے طور پر پرورش پائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے خط میں دس یا بیس سال کے الفاظ شامل کیے تھے‘۔
جس روز بچی کی عمر دس سال مکمل ہوناتھی، اس سے ایک رات پہلے والد اور والدہ دونوں سو نہ سکے، انھیں امید تھی کہ اگلی صبح جب وہ پل پر پہنچیں گے تو بچی اور اس کو گود لینے والے ضرور آئیں گے۔ چنانچہ اگلی صبح سویرے سات بجے وہ پل پر پہنچ گئے، وہ ہر اس جوڑے کو دیکھ رہے تھے جس کے پاس دس سال کے لگ بھگ عمر کی کوئی بچی تھی۔ ایک جگہ بیٹھ کر وہ انتظار کررہے تھے، وقت گزر رہاتھا، آٹھ بچ گئے، پھرساڑھے آٹھ، ساڑھے نو اور دس بج گئے۔ وہ ساڑھے تین بجے سہ پہر تک انتظار کرتے رہے، پھر امید ٹوٹ گئی ۔
وہ تین بج کر چالیس منٹ پر گھر کی طرف چل دیے۔ان کے ہمسائیوں کو علم تھا کہ وہ ٹوٹے ہوئے پل پر بچھڑی ہوئی بیٹی کو دیکھنے گئے ہیں۔ جب وہ گھر پہنچے ہمسائے کہنے لگے:” ہم تم لوگوں کو پہلے ہی کہتے تھے کہ وہ آپ کو بچی دکھانے کے لئے نہیں آئیں گے“۔ بچی کا والد سخت مایوس تھا، واپس آکر اس نے رات کا کھانا بھی نہ کھایا۔
وہ اور اس کی بیوی سن 2004ءتک ہرسال پل پر جایاکرتے تھے۔ اب انھیں کوئی خاص امید نہ تھی لیکن پھر بھی وہ انتظار کرتے تھے کہ شاید وہ ان کی بیٹی کو لے آئیں۔اسی لئے وہ ہر سال 24جولائی کو ندی کے پل پر سارا دن انتظار کرتے رہتے تھے کہ کوئی بچی کو لے کر آئے گا۔تاہم ان کی امید پوری نہیں ہورہی تھی۔
پوہلر خاندان کیٹی کے اصل والدین کے بارے میں آگاہ تھے، انھوں نے اپنے ایک چینی دوست سے کہا کہ وہ ٹوٹے ہوئے پل پر جائے اور وہاں کیٹی کے والدین سے ملے اور انھیں بتائے کہ ان کی بیٹی مکمل طور پر محفوظ، صحت مند اور خوش ہے۔ انھوں نے چینی دوست کو تاکید کی کہ وہ کیٹی کے والدین کو ان کا اتاپتا نہ بتائے۔بدقسمتی سے چینی دوست اور کیٹی کے والدین ایک دوسرے سے نہ مل سکے۔ اس کے بعد چینی دوست نے ان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور ان تک پوہلر فیملی کا پیغام پہنچایا۔ یہ معاملہ میڈیا تک بھی پہنچ گیا جہاں سے ’چھانگ‘ نامی ایک شخص نے اس کہانی کو پکڑلیا۔
وہ ’جیانگ زو‘ کا رہنے والا تھا لیکن ان دنوں امریکی ریاست پینسلوانیا میں مقیم تھا۔اس نے کیٹی کے اصل والدین سے رابطہ کیا اور دوسری طرف پوہلر فیملی سے بھی رابطہ کیا۔ فیملی نے اسے بتایا کہ انھوں نے بچی کو ابھی تک اس کے اصل والدین کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا۔ہاں! اگراس نے خود کبھی ان سے اس بابت سوال کیا تو وہ بتادیں گے۔بالآخر یہ مرحلہ بھی آن پہنچا جب 2016ءمیں کیٹی نے ماں باپ سے پوچھ ہی لیا اوراسے ساری کہانی معلوم ہوگئی۔ چنانچہ اس نے چین جانے اور اپنے اصل والدین سے ملنے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ اپنے یوم پیدائش پر ٹوٹے ہوئے پل پر جاناچاہتی تھی۔
ادھر بیٹی کی20 ویں سالگرہ پر والد اور والدہ نے بھی ہرصورت وہاں جانے کا فیصلہ کیاہواتھا۔ اس روز حیرت انگیز طور پر سڑکوں پر کوئی ایک بھی گاڑی نظر نہیں آرہی تھی، اس لئے وہ تیز سے تیز رفتار کے ساتھ گاڑی کو پل کی طرف بھگارہے تھے۔ گاڑی میں اس فیملی کی دوسری بیٹی یعنی کیٹی کی چھوٹی بہن بھی تھی، وہ بھی سوچ رہی تھی کہ نجانے بڑی بہن سے پہلی ملاقات کیسے ہو، وہ اسے ملتے ہی زور سے گلے لگا کر سوچ رہی تھی، اگراس نے اسے بہن کے طور پر قبول کرلیا تو اسے بہت خوشی ہوگی۔ بالآخر انھوں نے ایک دوسرے کو ڈھونڈ لیا۔
ماں’چھیان فینزیانگ‘ بیٹی کو گلے لگا کر خوب روئی، وہ سخت پشیمان تھی کہ وہ بیس سال تک اپنی بیٹی کی پرورش نہ کرسکی۔ وہ روتے ہوئے بیٹی سے بہت کہہ رہی تھی کہ بالآخرمیں نے تمھیں دیکھ ہی لیا، تمہاری ماں تم سے معافی مانگتی ہے،لیکن بیٹی چینی زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے اس کا ایک حرف بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔
کیٹی نے چند روز اپنے اصل خاندان میں گزارے۔ ماں اسے طرح طرح کے کھانے کھلاتی رہی، بہت سے مقامات کی سیر کراتی رہی، والد نے کیٹی کو مارکیٹ میں وہ جگہ بھی دکھائی جہاں وہ اسے چھوڑ کرگیاتھا۔ پھر کیٹی کے واپس جانے کا دن بھی آگیا، والد نے بیٹی کو وہ رقم تھمائی جو بیس سال تک ،ہر سال جمع کرتے رہے۔ یہاں کے رواج کے مطابق والدین ہرسال اپنی سب سے بڑی بیٹی یا بیٹے کو کچھ رقم دیتے ہیں جو خوش بختی کی علامت ہوتی ہے۔
کیٹی پوہلر اب واپس مشی گن (امریکا) کے ایک کالج میں پڑھنے جاتی ہے،ساتھ ہی ساتھ وہ چینی زبان بھی سیکھ رہی ہے۔ اس کا والد ہر روز اسے ’صبح بخیر‘ اور ’شب بخیر‘ کا پیغام بھیجتاہے، کیٹی کو امید ہے کہ ایک روز دونوں خاندان ملیں گے۔
سن 1999ءسے سرکاری ریکارڈ مرتب ہوناشروع ہوا، اس کے مطابق 80 ہزار چینی بچے امریکیوں نے گود لئے ہیں جن میں سے85فیصد لڑکیاں ہیں۔ان میں سے 40سے50 فیصد بچے ہی دوبارہ اپنے اصل والدین کو دیکھ پاتے ہیں۔باقی ماندہ بچوں میں سے کچھ مہنگے اخراجات اٹھنے کے سبب والدین کو تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے جبکہ بعض کوشش کرتے ہیں لیکن انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
کیٹی کی یہ کہانی جان کر بہت سے چینی بچے کیٹی سے رابطہ کررہے ہیں کہ وہ اپنے اصل والدین سے کیسے مل سکتے ہیں جبکہ ایسے والدین بھی رابطہ کرتے ہیں جنھوں نے بچوں کو اپنے سے جدا کیاتھا۔ کیٹی کہتی ہے کہ اس سے روزانہ تین ، چار افراد فیس بک کے ذریعے رابطہ کرتے ہیں۔
پس منظر
ستّر کی دہائی کے اواخر میں چین نے ملک میں ’صرف ایک بچہ پالیسی‘ نافذ کردی، دنیا کے دوسرے ممالک میں والدین کو ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ مختلف مانع حمل تدابیر سے بچوں کی تعداد کم کریں تاہم چین نے1979ء میں ایسی سخت گیر پالیسی نافذکی جس کی دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے قریباً ایک عشرہ تک دوبچوں کی پالیسی نافذ رہی تھی۔
بہت بڑی تعدادمیں والدین پر سخت جرمانے عائد کئے گئے ، جو والدین جرمانے ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، سیکورٹی اہلکار ان کے گھروں سے سامان لوٹ کر لے جاتے۔ نتیجتاً ہزاروں والدین سخت جرمانوں کے خوف سے اپنے بچوں کو اپنے سے جدا کر دیتے تھے۔ وہ بچوںکو پیدا ہوتے ہی کسی سڑک کنارے چھوڑ آتے تھے بالخصوص بیٹیوں کو تاکہ وہ بیٹے حاصل کرنے کی کوشش کرسکیں۔ ان میں سے بعض بچے وہیں مرجاتے تھے جبکہ بعض راہ گیروں کی نظرمیں آجاتے تھے، انھیں یتیم خانوں میں پہنچا دیا جاتا تھا جہاں سے بے اولاد جوڑے انھیں حاصل کرلیتے تھے۔یہ لے پالک بچے عشروں بعد اب جوان ہوچکے ہیں، بعض جوانی کی عمر سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں۔ ان میں سے بعض لڑکیاں ایک فطری جذبے کے تحت اپنے اصل والدین کو تلاش کرنے لگیں، دوسری طرف والدین بھی اپنے بچوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ اب چین میں بعض رضاکار ایسے بچھڑے ہوئے والدین اور بچوں کو ملانے کی کوشش کررہے ہیں۔ظاہر ہے کہ ڈی این اے رپورٹس کی بنیاد پر ہی یہ ملاپ ممکن ہوتے ہیں۔
80ء کی دہائی کے وسط میں پالیسی میں ترمیم کی گئی، اب صرف دیہاتوں میں ایسے والدین کو دوسرا بچہ پیدا کرنے کی اجازت دیدی گئی جن کے ہاں پہلے بیٹی تھی۔یوں 36برسوں تک قریباً چین پچاس فیصد گھرانوں کو دوسرا بچہ پیدا کرنے کی اجازت فراہم کی گئی۔اس سارے عرصہ کے دوران میں40 فیصد والدین نے پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک سے زیادہ بچے پیدا کئے، جس کا خمیازہ انھیں مختلف سزائوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ 40کروڑ30لاکھ انٹرایوٹرائنزڈیوائسز بچہ دانیوں میں انتہائی بے رحمی کے ساتھ رکھی گئی، بڑی تعداد میں خواتین کی انتہائی غیرانسانی اندازمیں اسقاط حمل کیاگیا۔