مدیحہ مدثر۔۔۔۔۔
پیاری استاذہ کہتی ہیں کہ "لاالہ الا اللہ "کا رشتہ خون کے رشتوں سے زیادہ گاڑھا ہوتا ہے ۔۔۔ اس کا عملی تجربہ مجھے دونوں بار عمرے کے دوران ہوا جہاں سب بلا تفریق ایک ہوتے ہیں۔۔۔ ہم طواف کر کے بالائی منزل پہ امی کی وہیل چیئر لے گئے سعی کے لیے۔۔۔مجھے بہت بخار تھا۔۔۔گلا ناک سب بند۔۔۔میں اور ماموں زاد بہن اکٹھے تھے، میں بڑی مشکل سے وہیل چئیر گھسیٹ رہی تھی کہ دفعتًا پیچھے سے ایک لمبے چوڑے صاحب برآمد ہوئے،بولے کہ میں کرواتا ہوں، مجھے دیں اور پھر ہمارا جواب جانے بنا چئیر اپنی طرف کرلی۔۔
جہاں اس اچانک خدائی مدد پہ ہم نےلاکھوں شکر ادا کیا رب رحیم کا۔۔۔وہیں ان صاحب نے ہماری دوڑیں لگوادیں، ہم تقریبًا بھاگے جا رہے تھے ان کے پیچھے جبکہ وہ صرف تیز تیز چل رہے تھے۔۔۔رش میں گم ہو جانے کا یقین واثق تھا، سو اُن کے پیچھے بھاگنا لازم ٹھہرا۔۔۔۔
وہ ہر چکر پہ جب دعا کے لیے رُکتے تو نیچے جُھک کر امی کو کہتے:
"اماں میرے لیئے دعا کرنا میرا بیٹا ہو۔۔۔میری سات بیٹیاں ہیں۔۔۔۔”
یقین مانیں وہ اتنی شدت سے بیٹے کے حصول کی دعا کا ہر چکر پہ کہتے کہ ہم اپنے سے زیادہ ان کے لیے دعا مانگتے۔۔۔امی نے پوچھا:”بیٹا کہاں سے ہو؟؟؟”
جواب آیا:” پشاور سے۔۔۔۔”
سعی کے بعد نام پوچھا بولے :”حضرت محمد۔۔۔۔”
ہم نے کہا:”ارے نہیں، اپنا نام بتائیں۔۔۔۔”
گلابی اردو میں بولے :”امارا نام ہے یہ حضرت محمد۔۔۔۔”
ہم نے بے ساختہ مسکراہٹ دبائی کہ پہلی بار یہ نام سن رہے تھے۔۔۔۔
واللہ اعلم ان کا بیٹا ہوا یا نہیں لیکن ہم عمرے کے بعد بھی دعا کرتے رہے کہ اللہ پاک ان کو صالح بیٹا دیں۔۔
دعاؤں کا حریص مسلمان حرم میں تو ہر لحظہ اسی کوشش میں رہتا کہ دعائیں لے سب سے،اس ضمن میں تُرک جوڑے کا ذکر نہ کرنا نا انصافی ہو گی۔۔۔۔
ہمارے لیے امی کی وہیل چئیر سنبھالنا زیادہ مشکل ہوتا تھا جب ہم اوپر جاتے تھے۔۔۔طواف وداع کے لیے ہم پہنچے تو چئیر کا پچھلا پہیہ اٹک گیا۔۔۔۔لاکھ کوشش کے بعد بھی ٹھیک نہ ہوا، ہمارے برابر سے لوگ تیزی سے گزر رہے تھے ، میں تقریبًا رو دینے کو تھی ۔۔۔۔۔
اللہ پاک سے دل میں شکوہ کناں ہوئی کہ
دیکھیں بخار میں پُھنک رہی ہوں اور بیچ راستے میں بے بس کھڑی ہوں۔
نیچے جھکی میں وہیل کو سیٹ کرنے کی ناکام کوشش کررہی تھی کہ ایک بھائی صاحب آگے بڑھے اور مجھے پیچھے ہوجانے کا اشارہ کیا۔۔۔
میں سیدھی ہوئی تو پیاری سی لڑکی کھڑی نظر آئی، جتنی دیر میں انہوں نے وہیل سیٹ کیا ہم نے تعارف کا مرحلہ طے کیا۔۔۔۔
نیا شادی شدہ جوڑا تھا اور بے حد حسین۔۔۔ترک جوڑا
اماں کو طواف وداع پھرانہوں نے کروایا میرے منع کرنے کے باوجود۔۔۔۔۔
انگریزی ان کو صحیح آتی نہیں تھی اور ہم زبان یار من ترکی۔۔۔کی عملی تصویر بنے بیٹھے تھے۔۔سو زیادہ بحث نہ ہوئی اور بھائی صاحب امی کو لے کر آگے آگے چل پڑے۔۔۔۔
ان کی زوجہ میرے ساتھ تھیں، وہ دونوں میاں بیوی ہاتھوں سے دعا کا اشارہ کر، کرکے ہمیں دعا کا کہتے اور میرا دل ان کی محبت سے لبریز شدت سے ان کے لیے دعاگو رہا۔۔۔
طواف کے بعد ہمارا دل حرمین کی جدائی کے خیال سے بہت اداس تھا، ہم نم آنکھوں سے باربار پیچھے دیکھتے وہ ترک جوڑا رش میں گم ہو چکا تھا۔
آخری نظر کعبے پہ ڈالی تو رش میں وہ دونوں میاں بیوی نظر آئے جوش سے ہاتھ ہلاتے۔۔۔۔۔
میں نے بھی ہاتھ ہلایا۔۔۔۔اور سوچنے لگی
کلمے کی طاقت نے ہمارے دلوں کو کیسی بہترین، پرخلوص محبت سے جوڑ رکھا ہے۔ خون کے رشتوں سے زیادہ طاقت لا الہ کے رشتے میں ہے۔ یہ خوبصورت ترین حقیقت میرے دل کو طمانیت سے بھر دیتی ہے۔