ثناغوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجب دل دہلانے والا منظر تھا، جب ایک دو سال کا بچہ اپنے زخمی باپ کے سینے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا تھا اور زخموں سے چور باپ کو اپنے گھاؤ سے زیادہ اس بات کی فکر تھی کہ کہیں اس کے بچے کو وہ شیطان نقصان نہ پہنچا دے۔ ایک طرف بوڑھا باپ اپنے جوان بیٹے کو دھاڑیں مار مار کر جگانے کی کوشش کرر ہا تھا جب کہ نوجوان کا جسم بے جان ہوچکا تھا۔ آہ قیامت سے پہلے قیامت کا یہ منظر۔
جہاں دیکھو خون سے لت پت لاشے بکھرے ہوئے تھے۔ لوگ چیخ رہے تھے، فریاد کر رہے تھے اور خدا کے گھر میں خدا کو یوں پکار رہے تھے کہ جیسے اس کی خدائی کو جھنجوڑ رہے ہوں؟ زندہ بچ جانے والے اپنے جسم میں سانسوں کی روانی پر حیران و پریشان تھے۔ اب بھی انھیں یہی لگتا تھا کہ وہ پھر آکر اپنی گولیوں سے یہاں موجود تمام لوگوں کو مار دے گا۔ موت کا خوف آنکھوں میں وحشت بن کر ٹپک رہا تھا۔ وہ دعائیں کر رہے تھے کہ اس شیطان کی بندوق سے گولیاں ختم ہوجائیں۔ آنکھ کو پانی اور دل کو لہو کرتا یہ منظر نیوزی لینڈ کے شہر کرایسٹ چرچ میں ڈھائی جانے والی قیامت کا ہے، جہاں جنونی انتہاپسند 28 سالہ دہشت گرد جس کا تعلق آسٹریلیا سے تھا نمازیوں پر حملہ کر دیتا ہے اور اس حملے میں 50 مسلمان شہید اور 20 زخمی ہوجاتے ہیں۔
کیا کہا دکھ ہوا؟ ہاں دکھ کی تو بات ہے لیکن کیا ہوگا اس دکھ کا؟ کچھ دنوں میں یہ خبر کھو جائے گی۔ شاید کسی کو یاد بھی نا رہے کہ مسجد پر ہونے والے حملوں میں کتنی جانیں ضائع ہوئیں؟ ظاہر ہے جب مرنے والا مسلمان ہو تو پھر فقط لفظی ہمدردی ہی باقی رہ جاتی ہے۔
یہ کوئی نائن الیون تو نہیں ہے، مسلمان تو مرتے رہتے ہیں، مرتے رہیں گے اور اس سب کے باوجود ان کا موقف وہی رہے گا۔ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ان تمام دہشت گردوں کو نفسیاتی مریض کہہ کر اپنا دامن بچانے والے اس حقیقت سے کب تک منہ موڑتے رہیں گے کہ انتہاء پسندی مغربی میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اسلام کا نام استعمال کرکے دہشت گردی کرنے والے اسلامی دہشت گرد جبکہ کسی اور مذہب اور نظریہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد نفسیاتی دہشت گرد قرار دے دیے جاتے ہیں۔
دہشت گردی کا پیمانہ مرتب کرنے والے اس بات کا جواب دیں کہ یہ اسلامی دہشت گردی کیا ہوتی ہے؟دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، کوئی نظریہ نہیں ہوتا ،یہ تو بنی نوح انسان کے لئے تباہی کے شاخسانے کے سوا اور کچھ نہیں۔ پھر اسلام کا نام لے کر کون سے جذبے کو تسکین پہنچائی جاتی ہے؟ کیا مقصد حاصل کیا جاتا ہے اور پھر مسلمان کو ہی گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔نیوزی لینڈ وہ ملک ہے جہاں غیرملکی تارکین وطن کی تعداد ویزا پالیسی سخت ہونے کی وجہ سے بہت کم ہے۔
چارلی ایبڈو کا واقعہ یاد ہے۔ ہاں وہی جس میں اسلامی نام رکھنے والے دہشت گردنے 12 افراد کو ہلاک کردیا تھا اور اس کے خلاف فرانس کے شہر پیرس میں لاکھوں افراد اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے سڑکوں پر نظر آئے۔ ہاں انھیں ایسا کرنے چاہیے کیونکہ کوئی مسلمان اس حملہ کا شکار نہیں ہوا تھا۔ اب تو مسلمان شہید کئے گئے ہیں۔ سو یہ تو معمول کی بات ٹھہری۔ یہ کیسی لڑائی ہے ؟یہ کسی جنگ ہے جس میں ایک فرد دوسرے کو مذہب کی بنیاد پر قتل کرکے اپنے طور پر خدا کو خوش کر نے کے لئے انسانوں کی بلی چڑھاتے ہیں؟۔
مسلمانوں کے خلاف ہونے والی حالیہ دہشت گردی نیوزی لینڈ میں تاریخ کا سب سے بھیانک باب ہے، جیسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی بھیانک دہشت گردی میں کوئی ساتھ دے رہا ہے، کوئی صرف مذمت کررہا ہے اور کوئی چپ چاپ خون بہتے اور جسم جلتے دیکھ رہا ہے ، یوں اس ظلم میں سب برابر کے شریک ہیں۔
کسی کی ذاتی رائے اور حرکات کا نظریات سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسلامی نظریاتی ریاست ہو یا سیکولر ریاست ہو؟ انتہاپسندی کہیں بھی قابلِ قبول نہیں ہے، لیکن پھر بھی یہ ہر جگہ آگ لگا رہی ہے۔ انسانیت انتہاؤں میں الجھ کر حیوانیت کی غلام بن گئی ہے۔ بدلتے حالات کے ساتھ انسانیت جس تنزلی کا شکار ہے اس کی ایک وجہ ان اخلاق شعار کا معاشرہ سے ناپید ہوجانا ہے جو مدمقابل کا احترام سکھاتے ہیں۔
مختلف نظریے سے تعلق رکھنے والے شخص کی رائے کو مکمل سیلف کنٹرول کے ساتھ سننا اور پھر علمی بنیادوں پر بحث کو کسی منطقی انجام تک پہچانا ایک صحت مند معاشرے کی پہچان ہے لیکن آج انسانیت اس نہج پر آگئی ہے کہ اپنی بات نا ماننے والے کو صفحہ ہستی سے مٹاکر اپنے اعلیٰ ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا، برما، چین اور دنیا کے دیگر کئی ممالک میں مسلمان اقلیت کے ساتھ قابل مذمت رویہ روا رکھا جارہا ہے لیکن ان ممالک میں مسلمانوں کے خلاف کی جانی والی کارروائیوں پر اقوام عالم خاموش ہے۔
یہ خاموشی مسلم دنیا میں ردعمل پیدا کرتی ہے، جسے مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اس وقت ساری دنیا میں نفسیاتی جنگ کا شکار ہیں۔ اس اندیشے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردی کے اس واقعہ کے پیچھے کوئی خاص مقصد کارفرما ہے اور کوئی طاقت مسلمانوں کو غم و غصہ کا شکار کرکے اپنے من پسند نتائج برآمد کرنا چاہتی ہے۔
(پروفیسر ثناء غوری ابلاغ عامہ کی استاد، کالم نگار، بلاگر، مصنفہ اور سیاسی و معاشرتی تجزیہ کار ہیں، وہ معاشرے کے سلگتے ، حساس اور ا ن موضوعات پر بھی بلا جھجک اور بے تکان لکھتی رہتی ہیں جن کے بارے میں ہمارے معاشرے میں سوچنا بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے، پروفیسر ثنا غوری www.badbaan.com کے لئے لکھتی ہیں ،ان سے براہ راست رابطے کے لئے ان کی ای میل آئی ڈی [email protected] پر رابطہ کیاجاسکتا ہے)