سانحہ نیوزی لینڈ: اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔۔
فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی، عبداللہ شجاعت کی تحریر ہے، شئیر کرنے کے قابل ہے۔ انھوں نے لکھا:
"ہر ریاست اور ہر فرد دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ مثبت لوگوں سے سیکھنے اور ان سے محبت و اکرام کا رویہ رکھنے کی ضرورت ہے”۔

"نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے برملا اس سانحہ کو دہشت گردی کہا۔ انہوں نے اگر مگر کے بنا یہ بات کہی”۔

"آج مسلمانوں کے ساتھ مل کر ان کے دکھ اور درد میں شریک ہیں۔
کل کچھ عیسائی اور یہودی افراد بھی مساجد کے باہر رضاکارانہ طور پہ حفاظت کی غرض سے موجود تھے”۔

"سانحہ کے وقت ایک غیر مسلم خاتون نے مسلمانوں کی جان بچانے کی اپنی تئیں بھرپور کوشش کی۔ ان کے آنسو اور کرب صاف جھلک رہا تھا۔
کسی سے نفرت اور جنگ کی آنچ سے ایسے لوگوں کو بچائیں”۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سانحہ نیوزی لینڈ کے غم کو اپنی قوت میں تبدیل کریں۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم پوری دنیا میں ان تمام لوگوں کو اپنے ساتھ کھڑا کرلیں جنھوں نے اس سانحہ پر دکھ محسوس کیا، نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سے لے کر دنیا کے ہر عام فرد تک، سب کو اپنے اردگرد اکٹھا کرلیں۔

سوشل میڈیا کے ذریعے ہم یہ اتحاد قائم کرسکتے ہیں اور اسے مضبوط کرسکتے ہیں، ان کے ساتھ بحث و مباحثوں میں نہیں الجھنا، صرف اسلام اور مظلوم مسلمانوں کی تصاویر ان کے سامنے رکھنی ہیں۔اس طرح ہم انھیں باور کراسکتے ہیں کہ مسلمانوں کے بارے میں یہ تاثر کس قدر غلط ہے کہ وہ انتہاپسند ہیں حالانکہ وہ بے چارے مظلوم ہیں، ان کا تاثر جان بوجھ کر خراب کیاجاتا ہے، ان کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں، انھیں مسائل کے چنگل میں پھنسایا جاتا ہے۔ ہم یہ اتحاد قائم کرکے دنیا کی اکثرآبادی کی نظروں میں اسلام اور مسلمانوں کا تاثر درست کرسکتے ہیں، انھیں اسلام کے مطالعے کی طرف راغب کرسکتے ہیں۔

ہمارا کام بس اتنا سا ہے کہ ہم ان سے مخلصانہ تعلق قائم کرلیں، پھر وہ خود اسلام اور مسلمانوں کا مطالعہ کرلیں گے، یہ اتحاد ازحد ضروری ہے، یہی اتحاد اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی شکست ہوگا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں