فلسطین اور فلسطینیوں کی کہانی کو انتہائی اختصار سے پڑھنا چاہیں تو معروف مغربی دانشور نوم چومسکی کی لکھی ہوئی یہ بات پڑھ لیں جو دراصل ایک فلسطینی کے جذبات ہیں جو ایک اسرائیلی صیہونی سے مخاطب تھا:
’’تم نے میرا پانی لے لیا، زیتون جلا ڈالے، گھر مسمار کر دیا، روزگار چھین لیا، زمین چرا لی، باپ قید کر دیا، ماں مار ڈالی، میری دھرتی کو بموں سے کھو د ڈالا، میرے راستے میں فاقے بچھا دیے، مجھے کہیں کا نہ رکھا اور اب یہ الزام بھی کہ میں نے تم سے پہلے راکٹ کیوں پھینک دیا‘‘۔
جی ہاں!سن 1948ء سے پہلے یہ فلسطینی لبنان اور مصر کے درمیان جس علاقے میں رہتا تھا، وہ سارے کا سارا فلسطین ہی کہلاتا تھا۔ یہ سرزمینِ انبیاء بھی کہلاتی ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام،حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بہت سے دیگر پیغمبر یہاں پیدا ہوئے یا باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے۔
ان سے بھی پچھلی تاریخ میں جھانکیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام آج سے 4000 سال پہلے یعنی قریباً 2000 قبل مسیح میں دریائے فراق کے کنارے واقع شہر ’ار‘ سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے۔ انھوں نے اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کو یہاں آباد کیا جبکہ دوسرے بیٹے اسماعیل کو مکہ میں۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے، انھیں اسرائیل بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی محبوب قوم بنائے رکھا لیکن جب اس محبوب قوم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو اسے مغضوب قرار دیا۔ اسے قیامت تک کے لئے راندہ درگارہ قرار دیا۔ قرآن مجید میں اس قوم کی ساری کہانی نہایت تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی احادیث مبارکہ میں بھی اس قوم کے بارے میں آگاہ کیا گیا کہ یہ قوم ساری عمردھکے کھاتی رہے گی۔ تاریخ کے ادوارنے اس بات کو سچ ثابت کیا۔
فلسطین کے علاقے میں عبرانی قوم کے لوگوں کے آثار ولادت مسیح سے قریباً 1100 سال قبل ملتے ہیں۔ تب حضرت سیموئیل علیہ السلام جو اللہ تعالیٰ کے نبی تھے، یہاں حکمرانی کرتے رہے۔ وہ بنی اسرائیل ہی سے تھے۔ جب وہ عمررسیدہ ہوئے تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت طالوت علیہ السلام کو بادشاہ مقرر کردیا۔ان کے انتقال کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے۔ انھوں نے پہلے ہیبرون اور پھر بیت المقدس میں اپنا دارالحکومت قائم کیا۔ وہ 33 برس حکمران رہے، بعد ازاں ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکومت سنبھالی جو 39 سال قائم رہی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد اسرائیل کی متحدہ ریاست دو حصوں سامریہ اور یہودیہ میں تقسیم ہو گئی۔ یہ دونوں ریاستیں ایک عرصہ تک آپس میں لڑتی رہیں۔اس انتشار اور لڑائی کا فائدہ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اٹھایا، اس نے 598 قبل مسیح میں حملہ کر کے یروشلم سمیت تمام علاقوں کو فتح کر لیا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی، بادشاہ اور ہزاروں شہریوں کو گرفتار کر کے بابل میں قید کر دیا۔ 539 قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ خسرو نے بابل کو فتح کیا اور قیدیوں کو رہا کر کے لوٹا ہوا مال واپس یروشلم بھیج دیا۔ 332 قبل مسیح میں یروشلم پر سکندر اعظم نے قبضہ کیا۔
ولادت مسیح سے 168 سال قبل یہاں ایک یہودی بادشاہت کا قیام عمل میں آیا لیکن وہ اگلی ہی صدی میں سلطنتِ روما کے ہاتھوں فتح ہوگئی۔ آنے والے برسوں میں یہودیوں نے بغاوتیں کیں لیکن کچلی گئیں۔ اسی زمانے میں اس علاقے کا نام فلسطین پڑ گیا۔
سن 636ء میں مسلمان فاتحین نے فلسطین کو پرامن طورپر فتح کر لیا۔اگلے 463 سال تک مسلمان اکثریت جبکہ یہودی اقلیت میں تھے۔ گیارہویں صدی کے بعد یہ علاقہ غیر عرب سلجوق، مملوک اور عثمانی سلطنتوں کا حصہ رہا۔ 1189ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا اور یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی۔ اگلی چار صدیوں تک عثمانی حکمران رہے۔ خلافت عثمانیہ کے آخری برسوں میں برطانیہ نے اس خطے پر قبضہ جمالیا۔اس کے بعد 17ویں صدی کے اواخر میں یہودیوں نے برطانوی چھتری تلے یہاں منتقل ہونا شروع ہوگیا۔ جب جرمنی میں نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کو مصائب کا سامنا کرناپڑا تو یہاں یہودیوں کی آبادکاری میں تیزی آگئی۔عربوں نے صورت حال کو بھانپتے ہوئے یہودیوں کی آبادکاری کے خلاف احتجاج شروع کردیا جو پرتشدد مظاہروں میں بدل گیا۔
برطانویوں نے دنیا بھر کے یہودیوں کو یہاں جمع ہوکر ’اسرائیل‘ کے نام سے ریاست قائم کرنے کی دعوت دی۔ یوں فلسطینی اپنے ہی گھر سے نکال دئیے گئے۔ انھیں بہت چھوٹے سے علاقے تک محدود کر دیا گیا۔ 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء میں اپنی افواج واپس بلالیں اور 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی حکومت کے قائم ہوگئی۔
عربوں نے تقسیم کو قبول کرنے سے انکار کردیااور مصر، اردن، شام، لبنان، عراق اور سعودی عرب نے نئی اسرائیلی ریاست پر حملہ کر دیا، تاہم ان کے حملے کے نتائج الٹ ہوگئے، اسرائیلی فوج نے عربوں کے مزید علاقے چھین کر اپنی حدود میں اضافہ کرلیا۔ 1949ء میں اسرائیل اور عربوں کے درمیان صلح کے معاہدے ہوئے جس کے نتیجے میں اردن نے غرب اردن جبکہ مصر نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کرلیا۔ فلسطینی اب ان دونوں ملکوں کے باجگزار بن گئے۔
29 اکتوبر 1958ء کو اسرائیل نے برطانوی و فرانسیسی مدد کی بدولت مصر سے صحرائے سینا چھین لیا۔ پھر1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے ایک طرف مصر سے غزہ کی پٹی بھی چھین لی، دوسری طرف مشرقی یروشلم کے علاقہ، شام کی گولان کی پہاڑیوں اور غرب اردن کے علاقہ پربھی قبضہ کر لیا۔ ہر نئی لڑائی کے نتیجے میں اسرائیل زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کرتاچلا گیا۔1967ء میں اسرائیل نے بیت المقدس (جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصیٰ ہے) پر بھی قبضہ کرلیا اور اس کا نام یروشلم رکھ دیا۔
6 اکتوبر 1973ء کو یہودیوں کے مقدس دن ’’یوم کپور‘‘ کے موقع پر مصر اور شام نے اسرائیل پر حملہ کر دیا لیکن انھیں شکست کا سامنا کرناپڑا۔ مسلسل شکست خوردگی نے مصر کی انورالسادات حکومت کو اسرائیل کے سامنے سرنگوں ہوکر اسے تسلیم کرنے پر مجبور کردیا۔آنے والے برسوں میں اسرائیل اب تک کے مقبوضہ علاقوں پر اپنا راج مضبوط اور مستحکم کرنے میں لگارہا، ساتھ ہی ساتھ اپنے باقی دشمنوں پر حملے بھی کرتا رہا۔
1981ء میں اسرائیلی جیٹ جہازوں نے بغداد کے قریب عراق کا ایک ایٹمی ری ایکٹر تباہ کردیا۔ دوسری طرف تنظیم آزادی فلسطین کو تباہ و برباد کرنے کے لئے لبنان میں اس کے مراکز پر حملے کئے۔ یادرہے کہ تنظیم کے پاس مغربی بیروت تھا، اس بمباری کے بعد یاسرعرفات نے یہ شہر خالی کردیا۔ 16 ستمبر 1982ء کو لبنان کے عیسائی انتہا پسندوں نے اسرائیل کی مدد سے دو مہاجر کیمپوں میں گھس کر سینکڑوں فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اسرائیل براہ راست حملوں کے ذریعے اب تک قریباً پچیس ہزار فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے۔
جبکہ اسرائیلی پابندیوں، محاصروں اور کیمیائی اثرات کے ذریعے شہید ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ دنیا کے بیشترتجزیہ نگارمانتے ہیں کہ اسرائیل کی بابت اقوام متحدہ ، سلامتی کونسل اور تمام بڑی طاقتوں کے دوہرے معیار ہی اس مسئلے کو سنگین سے سنگین تر بناتے جارہے ہیں۔ اسرائیل کے ایک فرد کی ہلاکت پر پوری دنیا حرکت میں آجاتی ہے لیکن چنددنوں میں فلسطین کے سینکڑوں بچوں کے قتل پر کوئی ٹس سے مس بھی نہیں ہوتا۔
صیہونی پوری دنیا کو باور کراتے ہیں جیسے مسلمانوں نے ان کی زمین پر قبضہ کیا ہویا ان کی قدیم ترین حکومت گرائی ہو۔ حالانکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد اسرائیل کی متحدہ ریاست داخلی انتشار کا شکارہوکر ختم ہوئی تھی اور اسے بابل کے بادشاہ بخت نصر نے ختم کیا تھا، 168 قبل ازمسیح میں بننے والی یہودی ریاست سلطنت روما کے ہاتھوں ختم ہوئی، مسلمانوں نے اس علاقے کو پرامن طورپرفتح کیاتھا، یہاں کے لوگوں نے ان کے لئے دیدہ ودل فرش راہ کئے تھے۔ تاریخ کے تمام حوالوں کوکھنگال کربھی صیہونی ثابت نہیں کرسکتے کہ ان کے ساتھ دنیا کی کسی بھی قوم نے حق تلفی کی ہے۔ البتہ انھوں نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کرکے، فلسطینیوں کا قتل عام کرکے تاریخ انسانی کے بڑے جرائم کا ارتکاب ضرور کیاہے۔
اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت بھی کئی حصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔ اسرائیل کے قیام کے وقت مصرکی اخوان المسلمون نے مصری فوج اور فلسطینیوں کے ساتھ مل کرجدوجہد کی۔ اخوان المسلمون پر مصر میں ابتلا کے دور کے بعد فلسطین میں تنظیم آزادی فلسطین قائم ہوئی، یاسرعرفات کی قیادت میں یہ تنظیم 80ء کی دہائی تک مسلح جدوجہد کرتی رہی لیکن بعد ازاں یہ تنظیم بھی اسرائیل سے مذاکرات تک ہی محدود ہوکر رہ ہوگئی۔ ایسے میں اخوان المسلمون سے متاثر شیخ احمد یاسین اور ان کی قائم کردہ جماعت حماس نے ایک نئی تحریک آزادی کی بنیاد رکھی، ان کی تحریک انتفاضہ مختلف مرحلوں میں آگے بڑھ رہی ہے، حماس ہر فیز کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرتی جارہی ہے۔
1989ء کے بعد حماس کے حریت پسندوں نے زبردست عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا۔ اسرائیل سمجھتا تھا کہ 1993ء میں یاسرعرفات کے ساتھ اوسلومعاہدے کے بعد تحریک آزادی فلسطین ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گی لیکن حماس اس کے لئے ایک نیا درد سر بن گئی۔ یاسر عرفات کے برعکس حماس دوقومی ریاستی نظریہ کو مکمل طورپر مستردکرتی ہے، وہ اسرائیل کو ایک لمحہ کے لئے بھی تسلیم کرنے کو تیارنہیں اور ایک ایسے فلسطین کی بات کرتی ہے جس میں اسرائیل کا کوئی وجود نہیں ہوگا۔