مدیحہ مدثر۔۔۔۔۔۔۔
یہ ‘کام والی’اصطلاح مجھے کبھی پسند نہیں آئی،مطلب ہم بیکار ہیں،پھوہڑ ہیں اور جن سے ہم معاوضہ دے کر کام کرواتے ہیں وہ ہیں۔۔۔۔کام والی۔۔۔ارے پھر ہم سے اچھی تو وہ ہوئیں نا جو کم از کم کام والی تو ہیں۔۔۔مفید کارآمد۔۔۔
لہذا میں نام لے کر یا “باجی” کہہ کر مخاطب کرتی ہوں یا پھر زیادہ پڑھا لکھا تاثردینا ہو تو “میڈ” کہہ دیتی ہوں۔
آج ہفتے بھر کی چھٹیاں گزار کر نازیہ آئی، اماں بہت بھری بیٹھی تھیں کہ اتنی چھٹیاں کر کے آئی ہو۔۔۔ اسے ڈانٹا۔۔۔لتاڑا۔۔۔ارے! یہ کیا تماشہ بنا رکھا ہے بی بی!!
وہ رونی صورت بنائے اپنی مجبوریاں بتانے لگی، میں خاموشی سے یہ سب دیکھتی رہی کیونکہ ڈراپ سین کا پتہ تھا کیا ہوگا۔
اور وہی ہوا جس کا میں نے سوچ رکھاتھا۔ تھوڑی دیر بعد کنکھیوں سے اماں کو دیکھا، بیچاری بڑے ہی دُکھی تاثرات سے نازیہ کو سن رہی تھیں،وہ بتا رہی تھی کہ کیسے کل شام وہ بارش میں بھیگتی ہوئی سرگودھا سے پنڈی پہنچی۔۔۔۔۔اور صبح سے لوگوں کے گھر کام کرتی پھر رہی ہے۔۔۔۔۔
جسم الگ دُکھ رہا ہے۔۔۔۔
چھوٹے چھوٹے بچے۔۔۔۔اکیلے چھوڑ کر گئی آنٹی جی!
وڈیرہ مرگیا تھا تو ان کے کام کرنے گئی تھی کیونکہ ہماری زمین ان کے قبضے میں ہے، مکمل رجسڑی نہیں کروائی، ہم سے پیسے لے کر آدھا کام کروایا ہوا ہے۔۔۔
اب اگر ان کے کام نہ کریں تو زمین پہ قبضہ کرلیں گے۔۔۔۔
مجھے بھی دکھ ہوا۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد امی بولیں نازیہ کھانا کھالو۔۔۔۔کام کل سے کرلینا ویسے بھی صاف ہے گھر۔۔۔۔
نازیہ نے کھانا کھا یا اور مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔
“مجھے پتہ تھا میں جاؤں گی تو آنٹی نے پہلے خوب جھاڑنا ہے اور بعد میں ٹھیک ہو جائیں گی اور مدیحہ باجی چپ رہیں گی کچھ نہیں کہیں گی۔۔۔۔۔
جب وہ چلی گئی، امی میری طرف مڑیں۔
“ہونہہ آگے پیچھے بول لیتی ہو جب وہ چھٹی کرے اور اس کے سامنے اس کی طرف ہوجاتی ہو، جب ہی کہہ رہی تھی وہ کہ باجی چپ رہیں گی۔
لو دسو میں چپ بھی رہوں تو بھی قصور میرا!!