جناب محمد اعجاز تنویرفئیر فرینڈز، ایک بڑی مارکیٹنگ کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں، گزشتہ دنوں ان سے پاکستان میں بڑھتے ہوئے کیش اینڈ کیری کلچر کے بارے میں مختصر سی گفتگو ہوئی، جس میں ان سے پوچھا کہ اس کلچر کے معاشرے اور چھوٹے ری ٹیلرز پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں اور آنے والے دس، پندرہ برسوں کے دوران میں پاکستان میں ری ٹیل بزنس کا کیا منظرنامہ ہوگا، جواب میں انھوں نے جو کچھ کہا، نذرقارئین ہے:
اس وقت پوری دنیا ایک گلوبل ویلج بنی ہوئی ہے، انٹرنیٹ اور موبائل سروس نے دنیا میں لوگوں کو مزید قریب کردیا ہے۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق بارہ کروڑ لوگ انٹرنیٹ کنکشن اور چھے کروڑ لوگ موبائل استعمال کررہے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا بھی لوگوں کو ایک دوسرے کو قریب لانے میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ وہ دنیا میں نت نئے آئیڈیاز دیکھتے ہیں، 2006ء میں جنرل مشرف کے دور میں پاکستان میں پہلی مرتبہ انٹرنیشنل ریٹیل کا ٹرینڈ سامنے آیا، بڑی بڑی ہائپر مارکیٹس کو پاکستان میں آنے کی دعوت دی گئی۔ دنیا کی ایک بڑی کمپنیجو ہالینڈ کی ہے نے پاکستان میں آ کر بڑے اسٹورز کی بنیاد رکھی۔ اس کے فوراً بعد جرمنی کی ایک کمپنی پاکستان میں آ ئی، اس کے بعد دنیا کی ایک اور بڑی ریٹیل چین بھی آگئی، جو فرانسیسی کمپنی ہے۔ تینوں بڑی کمپنیوں نے روایتی شاپنگ کرنے والے پاکستانی صارفین کو اپنی طرف راغب کیا، اس کے لیے انہوں نے کنزیومر کو انٹرٹینمنٹ بھی دی۔
پاکستان 20 کروڑ آبادی کا ملک ہے اور یہاں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ سارے نوجوان مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس میں ہیں اور تعلیم یافتہ بھی ہیں، انہوں نے انٹرنیشنل ریٹیل کے نئے ٹرینڈ کو پسند کیا۔ اسے دیکھتے ہوئے پاکستانی ریٹیلرز نے بھی ہمت پکڑی۔ انھوں نے بعض مقامات پر انٹرنیشنل ماڈرن ٹریڈرز سے زیادہ رزلٹ حاصل کیا۔ اس سے پہلے پاکستان میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ دنیا میں نئے ٹرینڈز کے ساتھ چلنا ہوتا ہے۔
پوری دنیا میں نیا ٹرینڈ تھا کہ لوگوں کو ایک ہی چھت کے نیچے شاپنگ کا موقع فراہم کیا جائے، وہاں ہر چیز میسر ہو، یہ ٹرینڈ دنیا کے بہت سے ممالک میں تھا لیکن پاکستان میں نہیں تھا۔ جب یہ پاکستان میں متعارف ہوا تو اس نے بڑی تیزی سے ترقی کی۔ آپ نے اسلام آباد میں ’سینٹورس‘ میں دیکھا ہوگا جہاں سیکڑوں برانڈز کاروبار کر رہے ہیں، اسی طرح لاہور اور کراچی میں بھی بڑے بڑے مالز ہیں، اس نئے ٹرینڈ نے برینڈنگ کو بہت زیادہ ترقی دی۔
اسی طرح پاکستانی ٹیکسٹائل بہت بڑی انڈسٹری تھی، یہ تقریباً بارہ بلین ڈالر ماہانہ کی ایکسپورٹ کرتی تھی، لیکن ہمارے حکم رانوں کی غلط پالیسیوں، پروڈکشن کاسٹ کے زیادہ ہونے، ڈیموں کے نہ بننے، بجلی کے ناکافی ہونے کی وجہ سے ہماری کاسٹ زیادہ ہو گئی اور پھر بنگلادیش جیسے ممالک ہم سے کہیں زیادہ آگے نکل گئے۔ ان حالات میں بھی ہماری لوکل انڈسٹری نے ہمت نہ ہاری۔ انہوں نے نئے ٹرینڈز کے ساتھ کاروبار کیا۔ اب بڑی تعداد میں برانڈز میدان میں آ گئے ہیں۔ اس پاپولر ٹرینڈ کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ اسی طرح میڈیسن کے میدان میں بھی جدید ریٹیلنگ شروع ہوئی۔ پاکستان جیسے ممالک میں اس کی گنجائش موجود تھی۔ اب بھی اس میں بہت زیادہ تیزی ہے اور آنے والے پانچ برسوں میں مزید تیزی دیکھنے کو ملے گی۔
جہاں تک ریٹیل انڈسٹری پر معاشرے میں حرص پیدا کرنے کا الزام ہے۔ اس بابت میں کہوں گا کہ کچھ لوگ بجٹ بناکر چلتے ہیں۔ وہ اسی انداز میں عام کریانہ اسٹوروں سے بھی خریداری کرتے ہیں، وہ چیزوں کا خود انتخاب کرتے ہیں، ان کا معیار چیک کرتے ہیں۔ اس سے حرص نہیں پیدا ہوتی بلکہ کنزیومرز کو فائدہ ہوتا ہے کہ اسے نئی اور سستی پروڈکٹس ملتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سپر اسٹور کے کلچر نے کنزیومر کو شعور دیا ہے۔ اس طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں کے برانڈز کا قبضہ ختم ہوا، نئے برانڈز متعارف ہوئے اور کنزیومرز کو ڈسکاؤنٹ اور اسپیشل آفر کا فائدہ ہوتا ہے۔
اگر آپ پوری دنیا کا جائزہ لیں تو محلے کے اسٹور کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ مثلاً ایک انٹرنیشنل اسٹور ہے سیون الیون، اس کی بنکاک (تھائی لینڈ) میں تقریباً سات ہزار سے زیادہ دکانیں ہیں، یہ سب چھوٹے چھوٹے نیبرہڈ اسٹورز ہیں، جہاں روزمرہ کی ضرورت کا سامان ملتا ہے۔ وہاں سپینیز، بگ سی بھی، پوری دنیا میں بڑے اور چھوٹے اسٹوروں کی چینز ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ پاکستان میں بھی کراچی کے میں بڑے بڑے اسٹور ہیں۔ ان کی موجودگی میں بھی ہر گلی محلے میں چھوٹے چھوٹے اسٹور کاروبار کررہے ہیں۔ کریانہ اسٹور کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔
لوگ چھوٹی چھوٹی چیزیں خریدنے کے لیے ان کا رخ کرتے ہیں۔ کراچی کی بڑی سُپرمارکیٹس میں سے ایک مارکیٹ نے ایک ایسے چھوٹے اسٹور کا افتتاح کیا ہے جو چوبیس گھنٹے چلے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بڑی سپرمارکیٹوں کی وجہ سے چھوٹے اسٹوروں کا استحصال نہیں ہوگا۔ جو چھوٹا اسٹور اپنے آپ کو بہتر بنائے گا وہ لوگوں کو بڑے اسٹور سے بھی زیادہ سستی چیزیں دے سکتا ہے۔ پوری دنیا میں نیبرہڈ اسٹور موجود ہیں، اگر محلے کے اسٹور اپنے آپ کو جدید خطوط پر استوار نہ کریں اور وہ بند ہوجائیں تو اس کا الزام سپراسٹورز پر نہیں آسکتا۔
یہ ایک انڈسٹری ہے، دنیا میں سب سے زیادہ مین پاور ریٹیل انڈسٹری میں ہوتی ہے۔ پاکستان کے اندر بھی یہ انڈسٹری وسعت اختیار کررہی ہے۔ اس کی ایک پوری سائنس ہے، ایک فیکٹری دس ہزار اسٹور چلاسکتی ہے۔ آپ سوچیں کہ اس میں کتنے لوگ کام کرتے ہوں گے؟ ممکن ہے 2 سو سے 5 سو تک ہوں، پھر دس ہزار سپر مارکیٹوں میں سے ہر ایک میں اوسطاً دو سو افراد کام کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں پانچ لاکھ سے زیادہ دکانیں ہیں۔ اس طرح لاکھوں افراد کا روزگار اس انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ لوگوں کو اچھے صاف ستھرے ماحول میں اشیائے صرف مل رہی ہیں۔ اب بھی دکان داروں اور سپراسٹوروں کے لیے بہت بڑی تعداد میں باصلاحیت اور تربیت یافتہ کارکنوں کی ضرورت ہے، اس کے لیے انسٹی ٹیوٹ قائم ہونے چاہیں۔
ہائپر مارکیٹس اور سپراسٹورز کا آئیڈیا بہت شان دار ہے، جہاں لوگ وسیع پیمانے پر خریداری کرتے ہیں۔ اگر ایک ریٹیل چین کی دس برانچیں ہیں تو وہ ایک ہی جگہ سے خریداری کر لیتے ہیں۔ اس طرح فیکٹری والا یا پروڈکشن والا انھیں سستے ریٹ پر مال دے دیتا ہے۔ پھر مقابلے کی فضاء میں یہ مختلف اسکیمیں متعارف کرواتے ہیں، یوں کنزیومر کو نسبتاً زیادہ سستی چیزیں ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔
جہاں تک بڑے سپراسٹورز کی وجہ سے پارکنگ جیسے مسائل کے پیدا ہونے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا سبب ریٹیل انڈسٹری نہیں بلکہ برا طرزِحکم رانی ہے۔ اچھے طرزحکم رانی سے یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں، جہاں بھی ایسا کوئی سپراسٹور کھلے وہاں سب سے پہلے پارکنگ کا ایشو حل کیا جائے۔