طارق حبیب کالم نگار

بھارتی میڈیا ابھی نندن سمیت اپنے ہی ہیروز پر چڑھ دوڑا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

طارق حبیب۔۔۔۔۔۔۔
”انٹیلی جنس ایجنسیز کی رپورٹس موجود تھیں” تو فوجی قافلے کیلئے حفاظتی انتظامات کیوں نہیں کیے گئے تھے؟
پلوامہ حملہ سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے۔
پاکستان سے مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کیے جانے چاہیے
‘جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے اور جنگ میں ایک جوان مارا جائے تو نقصان صرف اس کی ایک جان کا نہیں ہوتا‘ بلکہ کئی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں۔‘‘

پلوامہ حملے میں مارے جانے والے ایک بھارتی فوجی کی اہلیہ میتاسنترا نے پلوامہ حملے کے حوالے سے میڈیا پر جب یہ موقف اپنایا تو اسے انتہا پسند ہندئوں اور جنگی جنون کا شکار بھارتی میڈیا کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ۔ سوشل میڈیا پر انتہاپسند ہندئوں نے پلوامہ حملے میں مارے جانے والے اپنے ہی فوجی کی بیوہ کو بزدل قراردیتے ہوئے اس کے کردار پر کیچڑ اچھالنا شروع کردیا۔ بھارتی میڈیا کی جانب سے تمام حدود کراس کرتے ہوئے اپنے ہی اہلکار کی بیوہ کو کہا گیا کہ میتاسنترا اپنے شوہر کی بجائے کسی اورسے محبت کرتی ہے ۔اس لیے اسے اپنے شوہر کی موت کا کوئی افسوس نہیں اور نہ ہی وہ بدلہ چاہتی ہے ۔

جنگی خبط میں مبتلا بھارتی اینکرز میتاسنترا پر تنقید کرتے ہوئے اپنی حکومت سے پاکستان پر حملہ کرنے کے مطالبے کررہے تھے ۔ اپنے خلاف میڈیا پر چلنے والی مہم کے باوجود پلوامہ میں مارے جانے والے بھارتی فوجی کی بیوہ میتاسنترا جو انگریزی کی پروفیسر ہے‘ انتہاپسند ہندوئوں اورمیڈیا اینکرز کے دبائو میں آنے کی بجائے آج بھی اپنے موقف پر قائم ہے اور جنگ کی بجائے دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات پر زور دے رہی ہے۔

ویسے تو دنیا بھر میں میڈیا اہم ایشوز پر عوام میں شعور اجاگر کرتا ہے اور کسی بھی بحران کے موقع پر اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ملک کو اس بحران سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے‘ مگر بھارتی میڈیا کا معاملہ کچھ اور ہے۔ بھارتی وزارت اطلاعات دعویٰ کرتی ہے کہ بھارت میڈیا انڈسٹری میں بہت آگے نکل چکا ہے اور بھارت میں مختلف زبانوں میں 885ٹی وی چینلزآن ائیر‘ جبکہ3200اخبارات شائع ہوتے ہیں ۔ بھارتی وزارت اطلاعات کا دعویٰ تو اپنی جگہ‘ مگر حالیہ چند دنوں میں جو حقیقت سامنے آئی ہے ‘وہ یہ ہے کہ درحقیقت بھارتی نشریاتی ادارے جہالت پھیلانے کی فیکٹریاں بن چکی ہیں۔

بین الاقوامی سرحد پر کشیدگی کے دوران بھارتی نشریاتی ادارے عوام کو جنگ پر اکسانے کیلئے عجیب و غریب رپورٹس نشر کرتے رہے۔ ٹاک شوز میں اینکرز‘ دفاعی ماہرین‘ مبصرین اور سکالرز اور ٹی وی سکرینوں پر نظر آنے والی سیاسی شخصیات بس جنگ جنگ جنگ کی گردان لگائے ہوئے تھیں ۔بھارتی اینکرز بھانڈ میراثیوں سے بھی آگے نکل گئے ‘ فوجی وردیاں پہن کر پروگرام کرنے لگے‘ نیوز اینکرز فوجی وردیوں کے ساتھ خبریں پڑھنے لگے۔ ایک اینکر صاحب نے تو اپنے ساتھ کھلونا کلاشنکوف رکھ کر بھی پروگرام کیااور اسی طرح ایک اور بھارتی اینکرگوورو ساونت کی خواہش تھی کہ بھارتی فوج پاکستان پر مسلسل حملے کرتے رہے۔ بھارتی میڈیا کو جنگی جنون کا شکارکہنے والی میتا سنترا ہو یا خون بہانے پر اکسانے کا ذمہ دار قرار دینے والا مہیش بھٹ یا پھر بھارتی سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جسٹس مرکنڈے کاٹجو‘ معتدل موقف اپنانے کے جرم میں انھیں میڈیا پر کردار کش مہم کا سامنا کرنا پڑا۔

24گھنٹے تک میڈیا پر ہیرو قرار دیے جانے والے گرفتاربھارتی پائلٹ ابھینندن نے جیسے ہی اپنے ملک کے میڈیا پر تنقید کی تو وہ بھی ایک دم ہی ہیرو سے زیرو ہوگیا۔ بھارتی میڈیا کا عوام کو جنگی ہیجان میں مبتلا کرنے کا یہ غیرذمہ دارانہ‘ بلکہ جاہلانہ رویہ نیا نہیں ۔ ممبئی حملے ہوں یا اڑی کیمپ پر کارروائی ‘ بھارتی حکومت کی تان بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر آکر ٹوٹتی ہے۔ بھارتی حکومت میڈیا کو امریکی طرز پر استعمال کرنا چاہ رہی تھی‘ جیسے امریکہ نے میڈیا کے ذریعے جنگ سے پہلے ہی عراق کو دہشت گرد باور کرا دیا تھا‘ مگر پھر تاریخ نے ثابت کیا کہ امریکی موقف غلط تھا۔ یہی طریقہ بھارت استعمال کرنا چاہ رہا تھا ۔اس غیر ذمہ دارانہ رویے پر بھارتی میڈیا کو بین الاقوامی میڈیا میں بھی ماہرین و مبصرین کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔

فاکس نیوز کے ایک پروگرام میں پاک بھارت کشیدگی پر بات کرتے ہوئے میزبان نے کہا کہ بھارتی میڈیا کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی صحافی صحافت سے واقف ہی نہیں ‘جبکہ بھارت کی نسبت پاکستانی میڈیا نے پاک بھارت کشیدگی کے دوران انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔

میڈیا کا اصل کردار حالیہ کشیدگی کے دوران ادا کئے جانے والے بھارتی میڈیا کے کردار سے یکسر مختلف ہے۔ سماجی میڈیا ہو‘ ٹیلی میڈیا یا اشاعتی میڈیا‘ عوام میں شعور اجاگر کرنے کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ عالمی سطح پر میڈیا انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے اور اپنا وجودریاست کے ایک ستون کی حیثیت سے منوا چکا ہے؛ اگرچہ اس کے لئے میڈیا کے افراد نے اپنی جانوں کی بھی قربانی دینی پڑی ہے۔

میڈیا کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کسی ملک کو داخلی اور خارجی محاذ پر جتنے بھی مسائل کا سامنا ہو‘ اگر اس ملک کا میڈیا ذمہ دار ہے تو اسے ان تمام مسائل سے نمٹنے میں قطعی کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ سرحدوں پر جنگی صورتحال کے دوران جب دفاع و خارجہ امور کے ذمہ داران اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہوتے ہیں ایسے وقت میں ذمہ دار میڈیا اپنا کردار ادا کررہا ہوتا ہے اور ایک سفیر کی حیثیت سے دنیا بھر میں اپنی ریاست کا موقف پہنچا تا ہے۔ نظریاتی سرحدوں کا محافظ میڈیا کسی جنگ کی صورت میں ہر اول دستہ ہوتا ہے ۔ جنگ سب سے پہلے میڈیا کے محاز پر لڑی جاتی ہے۔ یہ کسی بھی جنگ کا پہلا محاذ ہوتا ہے۔ جنگی حکمت عملی میں میڈیا ہی ہر اول دستہ ہوتا ہے ۔ اگر میڈیا ذمہ دار ہو تو جنگی جنون کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں پاکستانی میڈیا نے اپنا کردار انتہائی ذمہ داری سے نبھایا‘ جس کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر بھی کیا گیا۔ جب پاکستان کی سول و عسکری قیادت نے بار بار بھارت کو مذاکرات اور امن قائم رکھنے کیلئے پیغامات بھیجے تو میڈیا نے عالمی سطح پر پاکستان کی امن کی خواہش کو پہنچا کر ملکی ساکھ کو بہتر بنایا۔ بھارتی میڈیا کے برعکس پاکستانی اینکرز‘ مبصرین اور ماہرین بھارت کو مسلسل حکومت پاکستان کا امن کا پیغام پہنچاتے رہے۔

حالیہ کشیدہ صورتحال میں پاکستانی میڈیا نے مربوط حکمت عملی کے تحت کام کیا اور تمام چینلز ہوں یا اخبارات ‘ یک زبان نظر آئے۔ بھارتی میڈیا کے برعکس پاکستانی میڈیا نے بیہودہ زبان‘الزامات یا جنگی جنون پیدا کرنے سے مکمل طور پر گریز کیا۔اس لیے یہ کہنا ہر گز غلط نہ ہوگا کہ اگر حکومت نے ایوانوں میں اور فوج نے میدانوں میں فتح حاصل کی ہے تو یہ پاکستانی میڈیا ہی ہے‘جس نے بھارتی میڈیا کو بین الاقوامی نشریاتی محاز پر چاروں شانے چت کردیا ہے۔

اس اعتراف کی گونج بین الاقوامی سکرینوں پر دیکھی اور اخبارات میں پڑھی جاسکتی ہے۔ غرضیکہ بھارت کے خلاف ریاست کے تمام ستونوں کے ملکر کام کرنے سے روایتی دشمن کو جنگ سے قبل ہی عبرتناک شکست سے دوچار کردیا گیااوربھارت کے اندر حکومت اور فوج پر تنقید کے ساتھ اعتراضات بھی سامنے آنے شروع ہوگئے ہیں۔

عوام کو امید رکھنی چاہئے کہ سازشوں سے نمٹنے کیلئے عام حالات میں بھی ریاست کے تمام ادارے ملکر ملکی مفاد میں کام کریں گے اور یقینی طور پر اسی صورت کامیاب ہوں گے‘ جب ہر ادارہ اپنی حد میں رہتے ہوئے آئین کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا کرے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں